دوستوں کا پیر مغاں

از: احمد سجاد قاسمی

ابن سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند

پہلی بار میں نے انیس سو اکہتر میں مفتاح العلوم مئو میں دورۂ حدیث پڑھا، دوسرے سال بہتر میں دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث میں داخلہ لیا، اسی سال تکمیل ادب کے درجہ میں تمرین کے گھنٹے میں حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی کی درس گاہ میں جا بیٹھتا، وہاں مولانا مکرم الحسینی(سانہہ بیگوسراے) کی معیت میں کچھ وقت گزارتا اور اسی درس گاہ میں مولانا محمد اسلام دمکوی سے شناسائی ہوئی، تکمیل کے درجہ میں میری حاضری کچھ ہی دن رہی، اصل حاضری تو دورۂ حدیث کے اسباق میں رہی، لیکن مولانا محمداسلام سے تعارف کے بعد ملاقات کا سلسلہ گاہے بگاہے قائم رہا، لیکن رسمی تکلفات کے ساتھ ۔ 1975 میں دوسری مرتبہ جب دارالعلوم کے جامعہ طبیہ میں داخلہ کیلئے آیا تو مولانا اسلام صاحب تکمیل اور دارالافتاء سے فارغ ہوچکے تھے اور شاید شعبہ خوشخطی میں تھے۔ صوبہ بہار و اڑیسہ کی صوبائی انجمن میں ہم دونوں بہت قریب ہوچکے تھے ، یہ تجدید ملاقات تمام تر تکلفات سے مبرا تھی، اسی عرصے میں دارالعلوم کے کچھ احباب نے ایک انجمن جمعیۃ الثقافۃ القاسمیۃ کے نام سے تشکیل دی جس میں اسلام بھائی، کلیم بھائی ( کلیم اللہ فیض آبادی) سعید بھائی (فیض آبادی) شفقت گیاوی، راقم الحروف اور مزید ایک دو احباب شامل تھے۔ اس حلقۂ احباب کے پیر مغاں اسلام بھائی تھے جنہیں باتفاق رائے صدر بنایا گیا اور کلیم بھائی کو جنرل سیکرٹری، ہم میں سینیر اسلام بھائی تھے، انجمن کے مقاصد وسیع اور عظیم ترین تھے، حضرت مولانا حامدالانصاری غازی ہماری انجمن کے سرپرست اور والد محترم حضرت مولانا مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی اور حضرت مولانا ازہر شاہ قیصر ہمارے رہنما۔ الثقافہ کے نام سے معیاری دیواری پرچہ نکلتا تھا، خاص موضوعات پر مطالعہ اور مباحثہ کا بھی اہتمام ہوا کرتا تھا، اسلام اور عصر حاضر کے موضوع پر عظیم الشان سمپوزیم کا انعقاد ہماری انجمن کا دارالعلوم کی تاریخ میں ایک انقلابی اور تاریخی اقدام تھا اسی طرح علی سردار جعفری کے اعزاز میں انجمن کی طرف سے تاریخی مشاعرہ بھی ناقابل فراموش واقعہ ہے، جس میں حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوری، مفتی کفیل الرحمن نشاط اور مولانا عامر عثمانی کے علاوہ دیوبند کے مستند شعراء کرام بھی شریک ہوئے۔ اب ہمارے احباب کے نام سے ہر طرح کے سابقے غائب ہو چکے تھے صرف بھائی کا لاحقہ سبھوں کے نام کا لازمی جزو بن گیا تھا۔ آپسی محبت و اخلاص اور بے تکلفی نے سبھوں کو یک جان و مختلف قالب بنا دیا۔ اسلام بھائی دانشوری اور دیدہ وری میں بے مثال ،کتب بینی اور وسعت مطالعہ میں باکمال، اردو زبان و ادب میں ممتاز، عربی ادب کے گوہر مایہ ناز، مضمون نگاری اور انشاءپردازی میں اپنی مثال آپ، خوش قلم، اعجاز رقم، خط نسخ، خط نستعلیق، خط رقاع، خط کوفی اور بھی مختلف خطوط کے اپنے دور کے نادر و یکتا خطاط، گفتگو میں شستگی، تحریر میں برجستگی، رہن سہن میں سادگی کے ساتھ شائستگی، دوستوں سے بےتکلفی، آزاد مزاج، آزاد منش، سراپا اخلاص ۔۔۔ الغرض خواجہ حافظ شیرازی کے اس شعر کی ترجمان شخصیت۔۔۔۔
بس نکتہ غیر حسن بباید کہ تا کسے
مقبول طبع مردم صاحب نظر شود
بہت سارے اوصاف ایسے ان میں جمع تھے جس کی وجہ سے وہ محبوب دوستاں رہے، مجالس احباب میں وہ ہمیشہ میر مجلس رہے، دوستوں کی قدر دانی اور حوصلہ افزائی میں پیش پیش، فراخ دل اور کشادہ چشم رہے، اور صحیح معنی میں انکی صحبت میں بہت جی لگتا تھا، احباب محسوس کرتے۔۔۔۔
آں روز بر دلم در معنی کشادہ شد
کز ساکنان درگہ پیر مغاں شدم
جامعہ طبیہ کے چار سال دارالعلوم دیوبند میں بہت ہی خوشگوار گزرے، ان چار سالوں میں اسلام بھائی کی معیت میں گزرے لمحات سنہرے تھے، سجاد لائبریری (بزم سجاد) کے اجلاس کی تیاری، اس کی صدارت و نظامت، دیواری پرچہ البیان کی تیاری میں ہم ساتھ ساتھ رہے، جمعیۃ الثقافۃ القاسمیۃ کے پروگرام، سمپوزیم کی تیاری، الثقافۃ کے مضامین و ادارت، یادگار مشاعرہ کی ترتیب و تشکیل اور سمپوزیم کے لیے ترانہ دارالعلوم کی مشق جسے پہلی بار میں نے،

اسلام بھائی اور سعید بھائی نے پہلی مرتبہ باضابطہ طور سے پڑھنے کی رسم ڈالی تھی اور تینوں بے سروں نے مل کر اسے سر عطا کیا تھا ہماری زندگی کی یادگار کہانی ہے، سجاد لائبریری کا آخری سالانہ اجلاس جو ہم لوگوں نے کیا جس میں جناب فضل الرحمن صاحب مرکزی وزیر ہند کو بلایا تھا وہ بھی انوکھا اجلاس تھا، اس طرح دارالعلوم کی عام روش سے ہٹ کر مختلف کارہائے نمایاں ہم آزاد خیال طلبہ نے انجام دیئے، جس کے پیر مغاں اسلام بھائی تھے۔۔۔ آخری سال میں تو اسلام بھائی عربی پندرہ روزہ الداعی سے منسلک ہوگئے اور اساتذہ کے صف میں شامل ہوگئے مگر احباب کے لئے وہ پہلے ہی جیسے اسلام بھائی تھے، اکثر عشاء بعد سے بارہ بجے تک الداعی کے دفتر میں ہمارا جماوڑا ہوا کرتا تھا۔زیادہ اوقات وہ اپنے کام میں مصروف رہا کرتے اور ہم لوگ اپنے شغل میں۔۔۔
1978 کے بعد میں بہار کے ایک سرکاری مدرسہ میں اور دو سال بعد سرکاری ہائی اسکول میں ملازم ہو گیا۔ اب صرف دوستوں کی یادیں ساتھ رہیں اور بس۔۔۔ وہ تو کہیے کہ 35_36 سال بعد میرے احباب نے مجھے دریافت کیا جب موبائل فون کا زمانہ آیا، اسلام بھائی، کلیم بھائی اور سعید بھائی سے ہمیشہ لمبی اور مختصر گفتگو ہوتی رہی، فیس بک پر میرا قسط وار مضمون ” بات پرانی ” اسلام بھائی شوق سے پڑھتے اور مخلصانہ تبصرے کرتے۔ حوصلہ بڑھاتے۔ کلیم بھائی اور سعید بھائی سے آجکل بھی گفتگو ہوتی ہے مگر ملاقات کا شرف ندارد ہے۔ اسلام بھائی عرصہ سے مرض میں مبتلا رہے لیکن گفتگو فرماتے رہے، آٹھویں امیر شریعت کے انتخاب کے موقع سے اسلام بھائی نے فون کیا میں پٹنہ آرہا ہوں تم بھی آجاؤ۔میں نے کہا دعوت نامہ آیا ہے مگر شرکت کا ارادہ نہیں ہے، فرمایا ملاقات کی غرض سے آجاؤ میں نے ہامی بھرلی اور ایک درخواست کی کہ مولانا نور عالم امینی کی کتاب ” رفتگان نارفتہ ” میرے لیے لیتے آئیں۔ میری ان سے یہ آخری ملاقات تھی، دیر تک میں انکے کمرے میں بیٹھ جاتا جی بھر کے باتیں کرتا، انکے دوسرے احباب یا شاگردوں کو میری وجہ سے ناگواری بھی ہوتی مگر میں بھی مجبور تھا، کئی نشستوں میں طویل ملاقات رہی مگر امارت اور انتخاب کا تذکرہ نہ انکی جانب سے ہوا نہ میں نے کیا،اپنی اپنی باتیں جی بھر کے ہم کرتے رہے۔ واپسی کے بعد فون سے گفتگو ہوتی رہی۔۔ادھر ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ہاسپیٹل سے واپسی کے بعد مجھے فون کیا باتیں الجھی ہوئی ناصاف نصف سے بھی کم باتیں میں سمجھ پایا مگر گفتگو طویل رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام بھائی آج 16 جون جمعہ کی صبح ہم سے رخصت ہوگئے۔ اس شریف النفس، اخلاق و اخلاص کے پیکر دوست کی جدائی کے صدمے میں حافظ شیرازی کا مصرع یاد آتاہے ع یارب مباد ہیچ کس از دوستاں جدا۔۔۔۔ لیکن دل کو سمجھانے کے لیے کہنا پڑتا ہے
دلا زہجر مکن نالہ زانکہ در عالم
غم ست و شادی و خار و گل و نشیب و فراز
اسلام بھائی دارالعلوم دیوبند وقف کے بنیادی اور ہردلعزیز استاذ تھے، عربی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ فن حدیث کی کتابیں بھی پڑھاتے تھے، یہ ان کے لیے بڑا اعزاز تھا، طلبہ میں بڑے مقبول و محبوب تھے، حدیث کے اسباق، شاگردوں کی محبت اور ان کی دعائیں انکے لیے ذخیرہ آخرت ہیں ہی، ان بیماریوں پریشانیوں کے ذریعہ خداوند قدوس نے انہیں اپنے خاص برگزیدہ بندوں میں شامل کرلیا، ولد صالح اور علم نافع کے طورپر شاگردوں کا سلسلہ در سلسلہ انکے عمل صالح میں تسلسل کے ساتھ اضافے کا بین ثبوت ہیں جو باعث خیر و برکت بنتے رہیں گے۔ اللہ تعالٰی ہمیشہ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل فرماتا رہے۔
اے غائب از نظر کہ شدی ہمنشین دل
می گویمت دعا و ثنا می فرستمت

Comments are closed.