غزہ میں بھوک اور محاصرے کا قہر، بزرگ شہری خاموشی سے موت کے منہ میں جانے لگے!

 

بصیرت نیوزڈیسک

انسانی حقوق کی تنظیم ’یورو میڈٹیرین ہیومن رائٹس مانیٹر” نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل کے مسلسل فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ غزہ میں خاموشی سے موت کا ایک اور ہولناک سلسلہ جاری ہے، جو بالخصوص بزرگ شہریوں اور بچوں کو نگل رہا ہے۔ یہ اموات اس تلخ زندگی کا نتیجہ ہیں، جو اسرائیل نے جان بوجھ کر مسلط کی ہے اور جن میں بنیادی سہولیات سے محرومی، بھوک، شدید محرومی، طبی سہولتوں کی عدم دستیابی اور مکمل محاصرہ شامل ہیں۔ یہ سب اقدامات ایک منظم نسل کشی کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جو گزشتہ 19 ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے۔

 

ادارے نے ہفتے کی شام جاری بیان میں خبردار کیا کہ گذشتہ دو ماہ سے جاری شدید محاصرہ غزہ کے کمزور طبقات، بالخصوص بزرگوں، پر تباہ کن اور طویل المدت اثرات چھوڑ رہا ہے۔ اسرائیلی پالیسیوں کا مقصد نہ صرف زندگی کے تمام بنیادی ڈھانچوں کو تباہ کرنا ہے بلکہ لوگوں کو کسی بھی ممکنہ متبادل راستے سے بھی محروم رکھنا ہے، جس سے انسانی بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور نسل کشی کو عملی شکل دی جا رہی ہے۔

 

رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے غزہ میں بھوک، غذائی قلت اور طبی سہولیات کے فقدان کے باعث کم از کم 14 بزرگ فلسطینی دم توڑ چکے ہیں۔ ان اموات کی براہِ راست ذمہ داری قابض صہیونی فاشسٹ ریاست پر عائد ہوتی ہے، جس نے 2 مارچ سے غزہ کی گزرگاہوں کو مکمل طور پر بند کر رکھا ہے، اور اشیائے خورونوش و انسانی امداد کی ترسیل کو روک رکھا ہے۔

 

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ اموات غزہ کے مختلف علاقوں میں ہوئیں، جہاں خوراک، پانی اور دوا کی شدید قلت ہے۔ قحط کی فضا چھائی ہوئی ہے، صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور مریض بنیادی علاج سے بھی محروم ہیں۔ یہ صورتحال خاص طور پر بزرگوں اور بیماروں کو موت کے دہانے پر لے آئی ہے، جو دنیا سے مکمل طور پر کٹے ہوئے اور تنہائی میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔

 

’یورو مڈل ایسٹ مانیٹر’ نے خان یونس کے 84 سالہ بزرگ مصباح عبدالرؤوف عبدالغفور کی موت کی تفصیل بھی جاری کی۔ ان کے اہلِ خانہ نے ادارے کو بتایا کہ انہیں معدے کا کینسر لاحق تھا، لیکن اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے انہیں غزہ سے باہر علاج کے لیے بھیجنا ممکن نہ رہا۔ غزہ میں بھی ان کے مرض کا مناسب علاج میسر نہ تھا اور ناقص غذا نے ان کی حالت مزید بگاڑ دی، بالآخر وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔

 

اسی طرح 7 مئی کو 80 سالہ بزرگ طالب صباح سلیمان العرجا بھی موت کا شکار ہو گئے۔ ان کے بیٹے جلال نے بتایا کہ رفح میں قیام کے دوران ان کے والد کو کئی بار صحت کے سنگین مسائل پیش آئے، جن کی وجہ شدید غذائی قلت تھی۔ جب خاندان خان یونس میں بے گھر ہو کر پناہ گزیں ہوا، تو صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ ان کے والد سخت گرمی، مچھر اور بھوک کی اذیت سے نڈھال تھے۔ مخصوص خوراک جیسا کہ مرغی، مچھلی، انڈے یا پھل وہ مانگتے تھے، لیکن کچھ بھی میسر نہ تھا۔

 

جلال نے مزید بتایا کہ جب ان کے والد کی حالت بگڑی تو انہیں ناصر ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے شدید خون کی کمی، پروٹین اور منرلز کی قلت تشخیص کی۔ صرف 30 گھنٹے کے اندر اندر وہ طبی امداد کے باوجود جانبر نہ ہو سکے۔

 

ادارے کے مطابق غزہ کے ہسپتالوں میں لائے جانے والے درجنوں بزرگ مریضوں میں شدید غذائی قلت اور خون کی کمی کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ان مریضوں کو بنیادی خوراک کے طور پر صرف ڈبہ بند اشیاء پر گذارا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے ان کی صحت مزید بگڑ رہی ہے، اور کئی کیسز میں ان کی موت ہو چکی ہے۔

 

ادارے نے خبردار کیا کہ بزرگوں، بچوں اور مریضوں کی اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات طبی سہولتوں کی عدم دستیابی، بھوک، اور غذائی قلت ہیں۔ اسرائیل کے مسلط کردہ محاصرے نے غزہ کا صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔

 

مزید یہ کہ وزارتِ صحت غزہ میں مؤثر نگرانی کے نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان اموات کو "طبی موت” کے طور پر رجسٹر کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ سب اسرائیلی پالیسیوں، خصوصاً منظم بھوک، طبی سہولیات کی تباہی اور خوراک سے محرومی، کا براہِ راست نتیجہ ہیں۔ یہ قتلِ عمد کی ایک قسم ہے، جو بین الاقوامی انسانی قانون اور جنگی جرائم کے ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

 

ادارے کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات "روم اسٹیچوٹ”کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت کی نظر میں سنگین ترین جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ بھوک، طبی سہولتوں کی محرومی اور ان کے نتیجے میں اموات، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم ہیں، خاص طور پر جب انہیں منظم انداز میں عام شہریوں کے خلاف استعمال کیا جائےجیسا کہ قابض اسرائیل غزہ کے شہریوں کے خلاف کر رہا ہے۔

 

یورو مڈل ایسٹ مانیٹر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تمام اقدامات نسل کشی کے جرائم میں شمار ہوتے ہیں، چاہے وہ قتل ہوں، جسمانی و ذہنی اذیت، یا ایسی زندگی کی صورت حال مسلط کرنا ہو جس کا مقصد کسی قوم کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا ہو۔

 

ادارے نے کہا کہ غزہ میں انسانی بحران اپنی انتہاؤں کو چھو چکا ہے۔ اب بھوک صرف کمزور طبقات کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ پوری آبادی متاثر ہو چکی ہے۔ بنیادی سہولیات مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں، جن میں خوراک، طبی امداد اور پناہ شامل ہیں۔

 

بیان میں کہا گیا کہ قابض اسرائیل کا غیرقانونی محاصرہ جو اکتوبر 2023 میں نسل کشی کے آغاز سے جاری ہے اور اس کے ساتھ انسانی امداد کی ترسیل پر عائد منظم پابندیاں خاص طور پر گزشتہ 70 دنوں میں ناقابلِ تلافی نقصان کا سبب بنی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دو ملین سے زائد فلسطینیوں کی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

 

ادارے نے خبردار کیا کہ امریکہ اور اسرائیل کی مجوزہ امدادی اسکیم ایک نیا فریب ہے، جس کا مقصد محاصرے کو طول دینا ہے۔ اس کے ذریعے بھوک کو انسان دوستی کی چادر میں چھپایا جا رہا ہے، تاکہ اسے ایک جائز "ہتھیار” کے طور پر پیش کیا جا سکے۔

 

یورو مڈل ایسٹ مانیٹر نے تمام ملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی نسل کشی کو روکنے کے لیے اپنی قانونی ذمہ داریاں ادا کریں، محاصرہ فوری طور پر ختم کرائیں، اور فلسطینیوں خصوصاً بزرگوں اور بچوں کو تحفظ فراہم کریں۔

 

ادارے نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر معاشی، سفارتی اور عسکری پابندیاں عائد کرے، جن میں اسلحے کی برآمد و درآمد پر پابندی، تمام قسم کی مالی، سیاسی اور عسکری امداد کا خاتمہ، اور اسرائیلی مجرموں کے مالی اثاثے منجمد کرنا اور ان پر سفری پابندیاں عائد کرنا شامل ہوں۔

 

ادارے نے ان ممالک کا بھی محاسبہ کرنے کا مطالبہ کیا، جو اسرائیل کو کسی بھی شکل میں مدد فراہم کر رہے ہیں، جن میں امریکہ سرِفہرست ہے۔ ان ممالک کو چاہیے کہ وہ تمام فوجی، سیاسی، انٹیلی جنس، قانونی، مالیاتی اور اقتصادی تعاون فوری طور پر ختم کریں، جو ان جرائم کے تسلسل کو ممکن بناتے ہیں۔

Comments are closed.