الوداع جسٹس کھنہ‘ خوش آمدید جسٹس گوائی …! 

 

ودود ساجد

 

(روز نامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)

 

خدا کا شکر ہے کہ ہم حالت جنگ سے نکل آئے۔ امریکہ کی ثالثی سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی ہوگئی۔ 8 مئی کی شب سے ٹی وی چینلوں کے جو اینکر قیامت خیز جنگ کا زہریلا شور مچا رہے تھے امید ہے کہ انہیں اب کچھ آرام ملے گا۔۔۔

 

ابھی اس جنگ کے تعلق سے مزید کچھ لکھنا مناسب نہیں ہے اور احتیاط کا دامن پکڑے رہنا لازم ہے۔ مظلوم قوم ’اہل غزہ‘ کے تعلق سے بھی کچھ نئے نکات‘ نئی پیش رفت اور نئی صورتحال رونما ہوئی ہے۔ لیکن اس ہفتہ تیسرے موضوع پر لکھنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا‘ جسٹس سنجیو کھنہ دو روز کے بعد 13 مئی کو سبکدوش ہوجائیں گے۔ نئے چیف جسٹس کے طور پر جسٹس بی آر گوائی 14 مئی کو حلف لے لیں گے۔ 15 مئی کو انہی کی عدالت میں وقف ترمیمی قانون کا مقدمہ پیش کیا جائے گا۔ وہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں دوسرے دلت چیف جسٹس ہوں گے۔۔۔

 

16اپریل کو وقف ترمیمی قانون کے خلاف دائر عرضیوں پر جسٹس سنجیو کھنہ کی سہ رکنی بنچ نے جو عدیم المثال رویہ اختیار کیا اسی کی پاداش میں انہیں اپنی عدلیہ کی زندگی کے آخری ایام میں شرپسندوں کی ہرزہ سرائیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے ان کا نام لے کر کہا کہ ’’اس ملک میں رونما ہونے والی تمام خانہ جنگیوں کیلئے وہی ذمہ دار ہیں۔‘‘ عدلیہ پر یہ حملہ ایک منظم منصوبہ کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اس سے پہلے نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ کھلے طور پر عدلیہ کو نشانہ بنا چکے تھے۔ انہیں اس بات پر جلال آیا تھا کہ جسٹس جمشید بورجی پاردی والا کی دو رکنی بنچ نے ملک کے تمام گورنروں اور صدر جمہوریہ تک کو ریاستی اسمبلیوں سے پاس کرکے بھیجے جانے والے ’بلوں‘ پر ایک طے شدہ مدت کے اندر منظور کرنے یا بغیر منظور کئے لوٹانے کا پابند بنا دیا تھا۔

 

اس فیصلہ نے ملک بھر میں جاری ان گورنروں کی آمریت پر قدغن لگادی ہے جو غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کی حکومتوں کو ستا رہے تھے۔ نائب صدر جمہوریہ بننے سے پہلے جگدیپ دھنکڑ بھی مغربی بنگال کے گورنر کے طور پر ممتا بنرجی کو ستانے کا یہی شوق فرما چکے ہیں۔ جسٹس پاردی والا نے اپنے فیصلہ میں تامل ناڈو کے گورنر آر این روی کو غیر آئینی کام کا مرتکب اور ناقابل اعتماد قرار دیا ہے۔ یہ فیصلہ ان سابق گورنروں کو بھی‘ جو اسی طرح کی حرکتیں کرتے رہے‘ بالواسطہ طور پر غیر آئینی کام کا مرتکب اور ناقابل اعتماد قرار دیتا ہے۔۔۔

 

مرکزی حکومت کی طرف سے جاری میڈیا ایڈوائزری کے باوجود 8 مئی کی شب جب شرپسند چینلوں نے عوام کی نیند اڑا کر رکھ دی تھی اسی دن دوپہر میں سپریم کورٹ‘ عدلیہ کے خلاف مذموم مہم چلانے والوں کو ان کی حیثیت بتا چکی تھی۔ عدالتوں میں ججوں کے ذریعہ زبانی مشاہدہ کی بھی اہمیت ہوتی ہے لیکن فیصلہ میں جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ نہ صرف تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے بلکہ آئندہ کے لئے ایک نظیر بھی بن جاتا ہے۔ جسٹس سنجیو کھنہ نے فیصلہ میں لکھوایا کہ ’آئین سب سے اوپر ہے اور عدلیہ قوانین کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینے کی مجاز ہے‘۔

 

’لائیو لا‘ کیلئے گر سمرن کور بخشی نے لکھا ہے کہ ’ایک ایسے وقت میں جب پارلیمانی بالادستی کے کھوکھلے دعوے کیے جا رہے ہیں، سپریم کورٹ نے ایک اہم یاد دہانی کرائی ہے کہ آئین ہی سپریم ہے۔‘ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ’چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار پر مشتمل بنچ کے ایک حکم میں لکھے گئے یہ جملے بظاہر نائب صدر جگدیپ دھنکڑ کے عدلیہ کے خلاف کیے گئے سخت حملے کے جواب میں ہیں۔ دھنکڑ نے کہا تھا کہ ’عدلیہ سپر پارلیمنٹ بننے کی کوشش کر رہی ہے‘۔ وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں میں سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد، دھنکڑ نے پھر کہا تھا کہ ’پارلیمنٹ سپریم ہے اور یہ کہ پارلیمنٹ سے بالاتر کسی اتھارٹی کا آئین میں کوئی تصور نہیں ہے‘۔

 

جسٹس سنجیو کھنہ کے مذکورہ جملے اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کا حصہ ہیں۔ اب نائب صدر یا ان سے نیچے یا اوپر کا کوئی عہدیدار بھی یہ بات دوبارہ نہیں کہہ سکے گا کہ عدلیہ سپر پارلیمنٹ بننے کی کوشش کر رہی ہے یا یہ کہ پارلیمنٹ سے اوپر کوئی نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا کہے گا تو وہ نہ صرف آئین کے خلاف ہوگا بلکہ وہ توہین عدالت کے مترادف بھی ہوگا۔ تاریخ اس گراں قدر فیصلہ کیلئے بھی جسٹس سنجیو کھنہ کو یاد رکھے گی۔ یہ محض چند جملے نہیں ہیں بلکہ یہ جملے ان تمام موجودہ اور ممکنہ شرپسندیوں کے سیلاب پر نئے سرے سے لگائے جانے والا ایک مضبوط ’باندھ‘ ہیں جو اس ملک کے جمہوری اور سیکولر آئین کو روندکر ختم کردینا چاہتی ہیں۔ یہ جملے وقف ترمیمی قانون کے خلاف مقدمہ لڑنے والوں کیلئے بھی بہت مددگار ثابت ہوں گے۔

 

واضح رہے کہ ایک وکیل وشال تیواری نے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے کے مذکورہ بالا بیان کے خلاف چیف جسٹس کی بنچ میں توہین عدالت کی ایک رٹ دائر کی تھی۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ نشی کانت دوبے نے سپریم کورٹ کے ذریعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف دائر عرضیوں پر سماعت کے تناظر میں کہا تھا کہ ملک میں ہونے والی تمام خانہ جنگیوں کیلئے چیف جسٹس سنجیو کھنہ ذمہ دار ہیں۔ دوبے نے اگلے ہی سانس میں یہ بھی کہا تھا کہ ملک میں مذہبی جنگوں کو بھڑکانے کی ذمہ دار بھی سپریم کورٹ ہے۔ عدالت نے دوبے کے بیانات کی سخت مذمت کی اور انہیں پبلسٹی حاصل کرنے کی ایک مذموم کوشش قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ بیان عدلیہ کے کام کرنے کے طریقوں سے دوبے کی بے خبری کا ثبوت ہے۔

 

عدالت نے فیصلہ میں لکھوایا کہ ’’جمہوریت میں اور خاص طور پر آئینی جمہوریت میں ریاست کی ہر شاخ، خواہ وہ مقننہ ہو، عاملہ ہو یا عدلیہ، آئین کے فریم ورک کے اندر کام کرتی ہے۔ یہ آئین ہی ہے جو ہم سب سے بلند ہے، یہ آئین ہی ہے جو مذکورہ تینوں اداروں کے اختیارات اور حدود طے کرتا ہے۔ اس لیے جب آئینی عدالتیں اپنی عدالتی نظرثانی کے اختیار کا استعمال کرتی ہیں تو وہ آئین کے دائرے میں رہ کر ہی کرتی ہیں۔‘‘عدالت نے مزید کہا کہ عدلیہ کو یہ اختیار واضح طور پر آئین کی دفعہ 32 اور 226 کے ذریعہ دیا گیا ہے۔ فیصلہ میں مزید کہا گیا کہ ’عدلیہ میں فیصلے قانونی اصولوں کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں نہ کہ سیاسی اور مذہبی تحفظات کی بنیاد پر۔ اور جب لوگ اپنے آئینی حق کے تحت انصاف کی امید اور خواہش کے ساتھ عدلیہ سے رجوع کرتے ہیں تو عدالت ان پر غور کرکے اپنی آئینی ذمہ داری اور فرض کی تکمیل کرتی ہے‘۔

 

عدالت نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نشی کانت دوبے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی لیکن یہ ضرور کہا کہ ایک طرف جہاں ہمارے کاندھے بہت مضبوط ہیں وہیں دوسری طرف اس طرح کی ہرزہ سرائیوں سے عدلیہ میں عوام کا اعتماد متزلزل نہیں ہوسکتا۔ ایڈوکیٹ وشال تیواری نے اپنی رٹ میں عدالت سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ ’وقف ترمیمی قانون‘ کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت کے تناظر میں جو سیاستداں منافرت انگیزی کر رہے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کے احکامات صادر کئے جائیں۔ عدالت نے اس ضمن میں لکھا کہ ’کسی فرد یا کسی بھی مخصوص گروپ کو نشانہ بناکر اس کی تذلیل کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے اور اس سے سختی کے ساتھ نپٹا جانا چاہئے‘ کسی فرد یا مخصوص گروپ کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کو برداشت نہیں کیا جاسکتا‘۔ واضح رہے کہ اپریل 2023 میں سپریم کورٹ کےجسٹس کے ایم جوزف کی قیادت والی بنچ نے سخت ضابطے وضع کرتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ نفرت انگیزی کرنے والوں کے خلاف کسی شکایت کا انتظار کئے بغیر از خود نوٹس لے کر کارروائی کی جائے۔

 

8 مئی کو ہی سپریم کورٹ کے جسٹس اے ایس او کا کی بنچ میں ایک اور مقدمہ کی سماعت تھی۔ عدالت نے ضمانت دینے کے عمل میں تاخیر کا از خود نوٹس لے کر یہ کارروائی شروع کی تھی۔ جسٹس اوکا نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ مختلف ہائی کورٹوں میں ججوں کی تقرری کیلئے سپریم کورٹ کالجیم کے ذریعہ کی گئی سفارشات پر جلد عمل آوری کرے۔ اس مقدمہ کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ حکومت ایک عرصہ سے عدلیہ پر تصرف حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ صورتحال کتنی سنگین ہے اس کا اندازہ جسٹس اوکا کی ہدایت میں نقل کئے گئے مختلف اعداد و شمار سے ہوتا ہے۔

 

مختلف ہائی کورٹس میں سات لاکھ سے زیادہ کرمنل اپیلیں التوا میں ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ میں 160 ججوں کی جگہ محض 79 جج ہی کام کر رہے ہیں۔ بامبے ہائی کورٹ میں 94 کی جگہ 66‘ کلکتہ ہائی کورٹ میں 72 کی جگہ 44 اور دہلی ہائی کورٹ میں 60 کی جگہ محض 41 جج کام کر رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ کالجیم کی 29 سفارشات نومبر 2022 سے مرکزی حکومت دبائے بیٹھی ہے۔ ضابطہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت جن ججوں کے نام کی سفارش کو واپس بھیج دیتی ہے اگر سپریم کورٹ انہیں دوبارہ بھیج دے تو حکومت کو انہیں کلیر کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دوبارہ بھیجی ہوئی متعدد سفارشات بھی حکومت نے کلیر نہیں کی ہیں۔

 

اس ضمن میں سابق جسٹس کرشن کول کی بنچ نے حکومت کو متعدد بار سخت ہدایات جاری کیں لیکن صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ عدلیہ کو آئین سازوں نے تینوں آئینی اداروں کے درمیان زیادہ برتری اسی لئے دی تھی کہ اگر عاملہ یا مقننہ سیاسی اسباب سے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات یا ضروری اقدامات میں حیل حجت کریں تو عدالت ان کو درست کر دے۔ لیکن اگر ملک کی چار بڑی ہائی کورٹس میں ججوں کی 156 اسامیاں خالی پڑی ہیں تو انصاف کی رفتار کیا ہوگی۔

 

بہرحال اب جبکہ نئے چیف جسٹس کے طور پر بہترین جج‘ بی آر گوائی حلف لینے والے ہیں امید ہے کہ حالات میں کچھ بہتری آئے گی۔ وقف ترمیمی قانون کے تعلق سے بھی ان کی عدالت سے مکمل انصاف کی امید ہے۔ ان کی مدت کار محض سات مہینے پر مشتمل ہوگی۔ ان کے بعد آنے والے چار چیف جسٹس بھی‘ جسٹس ناگر تھنا کو چھوڑ کر کم و بیش اتنی ہی مدت کیلئے ہوں گے۔ لیکن مئی 2028 میں جب جسٹس پاردی والا چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے تو پھر وہ دوسال تین ماہ تک رہیں گے۔ نائب صدر جمہوریہ انہی کے گورنر والے فیصلہ پر نالاں ہیں۔

 

جسٹس پاردی والا سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلے پارسی ہوں گے جو چیف جسٹس بنیں گے۔ ان کے فیصلے انتہائی جامع‘ کرخت‘ صاف ستھرے اور اگر مگر سے خالی ہوتے ہیں۔ جب وہ گجرات ہائی کورٹ میں جج تھے تو جسٹس وکرم ناتھ کی دو رکنی بنچ میں انہوں نے ہی ان سیکڑوں مفلوک الحال لوگوں کو راحت دی تھی جن پر حکومت گجرات نے بلا امتیاز انتہائی سخت قانون پاسا لگا دیا تھا۔ احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے ذریعہ ایک پارک کے اس راستہ کو جو مسلمانوں کی بستی کی طرف کھلتا تھا بند کرنے کے فیصلہ پر جسٹس پاردی والا نے ہی روک لگائی تھی۔ آئیے فی الحال تو جسٹس بی آر گوائی کو خوش آمدید کہتے ہیں جن کی عدالت نے پورے ملک میں اور خاص طور پر یوپی میں یوگی کے بلڈوزر کی دہشت گردی پر روک لگا رکھی ہے۔

Comments are closed.