خوشیاں بانٹیں اور آسانیاں فراہم کریں!

مولانا محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
انسان کی طبیعت اور فطرت میں اللہ تعالیٰ نے رحم و کرم الفت ومحبت انس و لطف اور شفقت و محبت کا مادہ رکھا ہے ، انسان انس سے نکلنا ہے ، جس کے معنی ہیں انسیت، تعلق ، محبت اور مانوس پن کے ۔ ایک دوسرے کے دکھ درد مصیبت پریشانی اور درد میں شریک ہونا یہی انسانیت ہے اور یہی انسان کا فرض ہے ۔ شاعر نے کہا ہے کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
اور یہ کہ
بجلی گرے کسی پہ ثڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اگر انسان کے اندر یہ جذبہ موجزن نہ ہو ،اس کی فطرت اور طبیعت کسی کے دکھ درد، بے چینی پریشانی اور مصیبت پر بے چین اور پریشان نہ ہو تو سمجھئے کہ اس کی فطرت پر پردہ اور حجاب پڑھ گیا ہے ،جس کی صفائی اور اصلاح ضروری ہے ۔
انسان کو لازم طرز زندگی نہیں بلکہ متعدی انداز زندگی بسر کرنی چاہیے ، لازم طرز زندگی یہ ہے کہ صرف اپنے لئے، اپنی فیملی اور اپنی اولاد کے لیے جینا اور صرف اپنی ضروریات و خواہشات پوری کرنے میں اپنی پوری صلاحیت صرف کردینا ، باقی دنیا سے ، پڑوس سے رشتہ داروں سے اور ضرورت مندوں سے کوئی واسطہ نہ رکھنا ، یہ لازم طرز زندگی کہلاتی ہے ، یہ منفی طرز زندگی ہے، بلکہ جانوروں سے مشابہ زندگی ہے ، جو شریعت میں کسی طرح مطلوب و محمود اور پسندیدہ نہیں ہے اور انسانی فطرت کے منافی یہ رویہ اور طرز زندگی ہے ۔
دوسری زندگی، روش، ڈگر اور طریقہ جو شریعت میں پسندیدہ ،مطلوب اور مستحسن ہے ،وہ متعدی انداز زندگی گزارنا ہے، اپنی ضروریات اور جائز خواہشات کے ساتھ ساتھ پاس و پڑوس اہل تعلق دوست و احباب رشتہ دار متعلقین بلکہ اس بڑھ کر پوری انسانیت کے لیے سوچنا، ان کی ضرورت دکھ درد میں کام آنا اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا ہے، اور یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں سے ان کو نوازا ہے ، اس میں محروم و بے بس کا بھی حصہ ہے اور اللہ کا فرمان ہے،، حق للسائل و المحروم،، اگر یہ روش اور یہ طرز زندگی کوئی اپناتا ہے، تو وہ،، خیر الناس من ینفع الناس،، کا مصداق بنتا ہے ، یعنی اس کو سب سے اچھا انسان ہونے کا شرف اور امتیاز ملتا ہے ۔
ہم سب کو غور کرنا ہے کہ ہم لازم زندگی گزار رہے ہیں یا متعدی طرز زندگی ؟
یہاں ہم متعدی یعنی مستحسن اور پسندیدہ طرز زندگی کی کچھ شکلیں اور صورتیں ذکر کر رہے ہیں ، جن کو اپنانے سے ہم خود خوشیاں اور مسرتیں حاصل کرسکتے ہیں اور دوسروں کے لیے آسانیاں بانٹ سکتے ہیں اور لوگوں کے لیے راحت اور خیر و عافیت کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔ اور اس شعر کے مصداق بن سکتے ہیں کہ
کرو تم مہربانی اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
کسی نے بڑی اچھی رہنمائی کی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کںبھی کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پے ہاتھ رکھ کر، پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر ایک گھنٹا اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا….. آسانی ہے!
– اپنی ضمانت پر کسی بیوہ کی جوان بیٹی کے رشتے کے لیے سنجیدگی سے تگ ودو کرنا …. آسانی ہے!
– صبح دفتر جاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ محلے کے کسی یتیم بچے کی اسکول لے جانے کی ذمہ داری لینا…. یہ آسانی ہے!
– اگر تم کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہو تو خود کو سسرال میں خاص اور افضل نہ سمجھنا… یہ بھی آسانی ہے!
– غصے میں بپھرے کسی آدمی کی کڑوی کسیلی اور غلط بات کو نرمی سے برداشت کرنا …. یہ بھی آسانی ہے!
– چاۓ کے کھوکھے والے کو اوئے کہہ کر بُلانے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بُلانا….. بھی آسانی ہے!
– گلی محلے میں ٹھیلے والے سے بحث مباحثے سے بچ کر خریداری کرنا….. یہ آسانی ہے!
– تمہارا اپنے دفتر، مارکیٹ یا فیکٹری کے چوکیدار اور چھوٹے ملازمین کو سلام میں پہل کرنا، دوستوں کی طرح گرم جوشی سے ملنا، کچھ دیر رک کر ان سے ان کے بچوں کا حال پوچھنا….. یہ بھی آسانی ہے!
– ہسپتال میں اپنے مریض کے برابر والے بستر کے انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور اسے تسّلی دینا ….. یہ بھی آسانی ہے!
– ٹریفک اشارے پر تمہاری گاڑی کے آگے کھڑے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر سائیکل بند ہو گئی ہو …… سمجھو تو یہ بھی آسانی ہے!”
_*تو آئیے گھر سے آسانیاں بانٹنے کا آغاز کرتے ہیں*_
– آج واپس جا کر باھر دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ دے کر دروازہ کُھلنے تک انتظار کرنا ،
– آج سے باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو ،
– آج سے ماں کے پہلی آواز پر جہاں کہیں ہو فوراً ان کے پہنچ جایا کرنا…. اب انھیں تمہیں دوسری آواز دینے کی نوبت نہ آئے ،
– بہن کی ضرورت اس کے تقاضا اور شکایت سے پہلے پوری کریا کرو ،
– آئندہ سے بیوی کی غلطی پر سب کے سامنے اس کو ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا ،
– سالن اچھا نہ لگے تو دسترخوان پر حرف شکایت بلند نہ کرنا ،
– کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری درست کرلینا ،
! ایک بات یاد رکھیں زندگی ہماری محتاج نہیں ، ہم زندگی کے محتاج ہیں ، منزل کی فکر چھوڑو، اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بناؤ ، ان شاء الله تعالٰی منزل خود ہی مل جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.