اسراف اور فضول خرچی کی طرف ہمارے بڑھتے قدم

 

عبید الرحمن غفر لہ

خادم جامعہ اسلامیہ تلوجہ

اللہ رب العزت والجلال نے اپنے بندوں کو بے شمار ظاہری وباطنی نعمتوں سے نواز کر اسکی قدردانی اور صحیح استعمال کا مطالبہ کیا ہے اور نعمتوں کی قدر کرنے پر نہ صرف یہ کہ نعمتوں کی بقا بلکہ اسمیں اضافہ اور ترقی کا وعدہ فرمایا ہے اور ناقدری کرنے پر سخت عذاب و سزا کی دھمکی دی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو میرا عذاب بڑا سخت ہے (سوره ابراہیم ) انہیں نعمتوں میں سے ایک نعت مال ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بعض جگہ لفظ (خیر) سے تعبیر فرمایا ہے یہ مال اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے کہ اگر انسان اس کا صحیح استعمال کرے اور مصارفِ خیر یعنی نیکی کے کاموں میں خرچ کرے تو یہی مال اسکے لیے ترقی اور عنداللہ محبوبیت کا بڑا ذریعہ ہے اور غلط استعمال کرے تو یہی مال دنیا و آخرت میں ہلاکت و بربادی کا سبب ہے چنانچہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنے بندوں کو مال کے غلط استعمال پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا :
﴿ولَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا﴾ اور اپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں نہ اڑاؤ یقین جانو کہ جو لوگ بے ہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔ (سورہ بنی اسرائل)اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے نہ صرف یہ کہ مال کے بے جا استعمال سے منع فرمایا بلکہ ایسا کرنے والوں کو اس شیطان کا بھائی قراردیا جو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کا کھلا ہوا دشمن ہے جس سے اس گناہ کی قباحت اور برائی میں اور شدت آگئی ایک دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَ لَا تُسْرِفُوْا ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ﴾ کھاؤ اور پیئو اور فضول خرچی مت کرو یاد رکھو اللہ تعالی فضول خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے (سورہ اعراف) نیز قرآن پاک میں مومنین کاملین کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اسراف سے بچتے ہوئے خرچ میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرتے ہیں چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
﴿وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا﴾ اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ تنگی کرتے ہیں بلکہ ان کا طریقہ اس افراط وتفریط کے درمیان اعتدال کا طریقہ ہے (سورہ فرقان) اسی مضمون کو حدیث پاک میں ان الفاظ میں ادا کیا گیا﴿ الاقتصاد نصف المعيشة﴾ کہ میانہ روی آدھی معیشت ہے ۔
البتہ اسراف وتبذیر دو الگ الگ لفظ ہے جن میں تھوڑا سا فرق ہے۔
اسراف عام ہیں اور تبذیر خاص ہے تبذیر صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب کہ ناجائز اور حرام کاموں میں پیسہ خرچ کیا جائے مثلا فلم دیکھنے میں یا جوا کھیلنے میں پیسہ خرچ کردیا جائے تو یہ تبذیر ہے اور یہی صورتیں اسراف میں بھی داخل ہے، البتہ جہاں پیسہ ناجائز اور حرام کاموں میں نہیں خرچ ہو رہا ہے لیکن بے فائدہ کام پر ہو رہا ہے تو اس صورت میں اسراف تو ہے لیکن تبذیر نہیں ہے بہرحال چونکہ اسراف ،تبذیر کو بھی شامل ہے لہذا اسراف کی یہ تعریف کی جائے گی کے مال کو ایسی جگہ خرچ کرنا جہاں فائدہ نہ ہو یا فائدہ ہو لیکن ناجائز ہو۔
ذیل میں اسراف کی بعض مروجہ (لوگوں میں رائج) شکلیں پیشِ خدمت ہیں:
اسلام کی رائج شکلوں میں سب سے تکلیف دہ اور امت مسلمہ کو کھوکھلی کر دینے والی شکل شادی بیاہ اور اس سے متعلق امور میں بے جا خرچ کرنا ہے مذہب اسلام نے نکاح کو جتنا آسان اور زنا کو جتنا مشکل بنایا ہے ہمارے معاشرے نے نکاح جیسی مقدس عبادت کو اتنا ہی مشکل اور زنا جیسے بدترین فعل کو اتنا ہی آسان کر دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے ہمارے معاشرے میں اس خاص موقع کی رسوم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نہ چھوڑنے کی قسم کھا رکھی ہے کیا مرد ہو ،کیا عورت ،کیا بوڑھا ہو، کیا جوان ہر ایک اس موقع کی رسوم و خرافات میں مبتلا نظر آتا ہے اور اپنے عمل سے ببانگ دہل یہ اعلان کرتا نظر آتا ہے کہ گناہ کے لکھنے والے فرشتے آج کل تعطیل (چھٹی) پر ہے۔
ایک طرف حدیث مبارکہ
﴿ اعظم النكاح بركة أيسر مونة﴾ کہ سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جو کم سے کم خرچ میں ہو ہمیں انتہائی سادہ اور آسان نکاح کی دعوت دے رہی ہے تو دوسری طرف ہم اس حدیث اور ان جیسی دیگر احادیث کا کھلم کھلا مقابلہ کرتے ہوئے منگنی سے لے کر ولیمہ تک سے متعلق رسوم پر عمل پیرا ہونے کو خاندانی شرافت کا بنیادی پتھر سمجھ بیٹھے ہیں۔
کیا یہ اسراف وفضول خرچی نہیں ہے، کیا یہ غریبوں کے دلوں پر آرہ چلانا نہیں ہے، کیا یہ غریب لڑکیوں کی زندگیوں سے کھلواڑ نہیں ہے، کیا یہ زنا اور بدکاری کو پھیلانے کے اسباب میں سے نہیں ہے، کیا یہ اس بے حیائی کو پھیلانا نہیں ہے جس کے سلسلہ میں شریعت اتنی حساس ہے کہ بے حیائی والے کام کرنا تو دور کی بات صرف ایمان والوں کے درمیان محض بے حیائی جو شخص پھیلانا چاہتا ہے اس کے لیے درد ناک عذاب کی دھمکی ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ﴾ یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے (سورہ نور) کیا ہمارے یہ رسوم بیک وقت اتنے بڑے بڑے جرائم کا سبب نہیں بن رہے ہیں؟ اگر بن رہے ہیں اور یقیناً بن رہے ہیں تو آج ہی سے پختہ ارادہ کریں کہ ہم ان رسوم سے مکمل طور پر خود بچیں گے اور معاشرے کو ان بری رسومات سے بچانے کی فکر کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالی ۔
اسراف کی ایک شکل یہ بھی رائج ہے کہ ہمارے نوجوان قسم قسم کے موبائل، عمدہ عمدہ کھانے ایک سے ایک کپڑے اور نئی نئی گاڑیوں کے عادی ہو رہے ہیں اور گھر کے ذمہ داروں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان مطالبات اور بے جا خواہشات کو پورا کریں جس کی بنا پر ماں باپ اور گھر کے ذمہ داروں کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر جب حلال کمائی ان مطالبات کو پورا نہیں کر پاتی ہے تو بعض دفعہ انسان تنگ آکر حرام کمائی کی طرف قدم بڑھا دیتا ہے جس کا سبب ہمارے بے جا مطالبات ہوتے ہیں ۔حالانکہ شریعت مطہرہ نے ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر سادگی اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے خود حضرت نبی پاک ﷺ کی بابرکت زندگی کفایت شعاری اور سادگی سے عبارت تھی آپ کا کھانا، آپ کا پینا، آپ کا بستر ،آپ کا کپڑا ،آپ کی سواری ، آپ کا گھر ہر چیز میں کفایت شعاری اور سادگی ملحوظ تھی نیز اس سلسلے میں آپ ﷺ کا فرمان ہے: ﴿قد افلح من اسلم ورزق كفافا وقنعه الله بما أتاه﴾ کہ حقیقت میں وہ شخص کامیاب ہے جس نے مذہب اسلام کو اختیار کیا اور اس کو بقدر ضرورت روزی مل گئی اور اللہ تعالی نے جتنی روزی دی اسی پر اس نے قناعت کیا (مسلم: 2/337)
اس حدیث سے ہمیں سبق ملا کے ہمیں اپنی طبیعت کو کا قناعت پسند بنانا چاہیے اور قناعت کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں پر دل سے راضی رہیں اور مزید اس کے لئے اتنے فکر مند نہ ہو جائیں کے فرائض و واجبات کو چھوڑنے لگیں حلال و حرام کی قید سے آزاد ہو جائیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قناعت پسند طبیعت بنے گی کیسے؟ تو شریعت نے اس کو حاصل کرنے کا بڑا عمدہ طریقہ بتایا ہے کہ دنیا کے اعتبار سے ہم اپنے سے کم حیثیت لوگوں کی جانب دیکھیں اور دین کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ حیثیت والوں کی جانب دیکھیں۔ یقیناً قناعت کے سلسلہ میں شریعت کا بتایا ہوا یہ ایسا نسخہ ہے کہ اگر ہم اس کو اختیار کریں تو بہت جلد دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے ترقی کریں گے اور خصوصا ہماری دنیاوی زندگی انتہائی برکت والی اور پرسکون گزریں گی ان شاءاللہ۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ان باتوں پر عمل کی توفیق نصیب فرمائیں آمین۔
عبید الرحمن غفر لہ
خادم جامعہ اسلامیہ تلوجہ

Comments are closed.