دہلی فسادمعاملہ:خصوصی عدالت نے 2/مسلم ملزمین کو مقدمہ سے بری کردیا ،جمعیۃ علماء ہند نے ایک ملزم کو قانونی امداد فراہم کی

نئی دہلی 24/جولائی (پریس ریلیز)دہلی فساد معاملے میں خصوصی سیشن عدالت یکے بعد دیگرے ملزمین کو پولس کی ناقص تفتیش اور ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر مقدمہ سے بری کررہی ہے، تین ماہ قبل سیشن عدالت نے 9/ مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے بری کردیا تھا، گذشتہ کل عدالت نے ایف آئی آر نمبر 83/2020 پولس اسٹیشن کراوال نگرمیں فیصلہ صادر کرتے ہوئے ملزمین اشرف امین الحق اور پرویز ریاض الدین کو نا کافی ثبوت وشواہد کی بنیاد پر مقدمہ سے بری کردیا۔
دہلی فساد معاملے کی سماعت کرنے والے کرکاڈومہ سیشن عدالت کے جج پولاستیہ پرمچالا(ایڈیشنل سیشن جج 3) نے نا کافی ثبوت و شواہد اور ناقص تفتیش کی بناء پر 2/ مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے بری کردیا۔ مقدمہ سے بری ہونے والے پرویز ریاض الدین کو جمعیۃ علماء ہند(ارشد مدنی) نے قانونی امداد فراہم کی۔
سیشن عدالت نے ملزمین کو مقدمہ سے بری کرتے ہو ئے اپنے فیصلہ میں تحریر کیا کہ عرض گذار دوران گواہی یہ نہیں بتا سکے کہ کس وقت ان کے گھروں کو ہجوم نے آگ لگائی تھی جس کا مبینہ طور پر دونوں ملزمین حصہ تھے۔
سیشن عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید تحریر کیا کہ سرکاری گواہان اور پولس کی چارج شیٹ کے مطابق دو طرح کا ہجوم تھا جس نے گھروں اور دکانوں کو آگ لگائی تھی لیکن گواہان کی گواہی سے یہ واضح نہیں ہوسکا کونسے سے ہجوم نے آگ لگائی تھی لہذا ملزمین کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے انہیں مقدمہ سے بری کیا جاتا ہے۔عدالت نے مزید کہا کہ آگ زنی کی واردات ہی مشکو ک لگ رہی ہے کیونکہ پولس نے عدالت میں آگ لگنے کے فوٹواور ویڈیو جمع نہیں کرائے اور نا ہی اس تعلق سے کوئی پختہ ثبوت پیش کیا۔
ملزم ریاض الدین کی پیروی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ بابر چوہان (جمعیۃ علماء ہند ارشد مدنی) نے عدالت کوبتایا تھا کہ آگ زنی کے وقت ملزمین وہاں موجود تھے ہی نہیں، پولس نے جھوٹی شکایت پر ملزمین کو گرفتار کیا، بابر چوہان نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کو گرفتار کرنے والے اجیت کمار ٹومار کی گواہی ناقابل قبول ہے کیونکہ اس کے بیان میں کھلا تضاد ہے نیز اس نے سرکاری گواہان کے بیانات تاخیر سے درج کیئے۔
ایڈوکیٹ عبدالغفار نے ملزم اشرف علی کے لیئے بحث کی اور عدالت کو بتایا کہ سب انسپکٹر مندیپ سنگھ نے دوران گواہی یہ اعتراف کیا تھا کہ ملزمین کی گرفتاری کے وقت ان کے خلاف کوئی پختہ ثبوت نہیں تھے یعنی کے ملزمین کو پہلے سے طئے شدہ منصوبہ کے تحت ملزم بنایا گیا اور انہیں ٹرائل کا سامنا کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 143,147,148,149,436, 427 (فسادات برپا کرنا،گھروں کو نقصان پہنچانا،غیر قانونی طور پر اکھٹا ہونا) کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند(ارشد مدنی) کی کوششوں سے دہلی فساد میں مبینہ طور پرماخوذ 105مسلم ملزمان کی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیں جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء کا پینل کل 139 مقدمات دیکھ رہا ہے جس میں تین درجن سے زائد ملزمین بری ہوچکے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر عدالت نے مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے بری کیا ہو، اس سے قبل بھی دہلی ہائی کورٹ نے چار ملزمین کو مقدمہ شروع ہونے سے قبل ہی ڈسچارج کردیا تھا جبکہ سیشن عدالت نے پانچ مختلف مقدمات میں 28/ ملزمین کو مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کے بعد بری کیا تھا۔دہلی فسادات کی سماعت کرنے کے لیئے خصوصی سیشن عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو تیز رفتاری سے مختلف مقدمات کی سماعت کررہی ہے، بیشتر مقدمات میں ملزمین پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے اور گواہوں کے بیانات قلمبند کیئے جارہے ہیں۔

 

Comments are closed.