شمشان گھاٹ میں لاش جلانے کو لیکر فرقہ وارانہ جھڑپ، کئی پولیس اہلکار زخمی، حالات قابو میں ،8 شرپسند عناصر گرفتار

جالے(محمدرفیع ساگر؍بی این ایس) کمتول تھانہ کے ہریہر پور مشرقی پنچایت کے دھرم پور گاؤں میں واقع چڑیاری تیلیا پوکھر شمشان کی زمین پر لاش جلانے کو لیکر پیدا ہوئے تنازعہ پر اتوار کی دیر شام 2 فرقوں کے درمیان زبردست جھڑپ ہوگئی جس میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔نظم و نسق بحال رکھنے کے دوران بھیڑ نے پولیس ٹیم پر بھی سنگ باری شروع کردی جس میں 3 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوگئے۔شمشان گھاٹ کی زمین پر دونوں فرقوں کا اپنا اپنا دعوی ہے۔
فرقہ وارانہ جھڑپ کی اطلاع سامنے آتے ہی کمتول سرکل کے پولیس انسپکٹر یوگیندر روی داس، تھانہ صدر ورون کمار گوسوامی پولیس فورس کے ساتھ موقع پر پہنچے ۔ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے تبھی کچھ شرپسندوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ اس دوران پنچایت کے مکھیا اجے کمار جھا کی بلیٹ بائک اور 2 سائیکل میں آگ لگا دی اور توڑ پھوڑ شروع کر دی جس کے بعد حالات کافی سنگین ہوگئے ۔کئی تھانوں کی پولیس موقع پر پہنچ کر حالات کو پرامن بنانے کی کوشش کی بعد میں ضلع مجسٹریٹ راجیو روشن ،ایس ایس پی اوکاش کمار، سٹی ایس پی ساگر کمار، صدر ایس ڈی او، صدر ڈی ایس پی اور پولیس کی نفری پہنچ کر حالات کو سنبھالا اور 8 شرپسندوں کو حراست میں لے کر حالات کو قابو میں کر لیا۔ احتیاط کے طور پر گاوں میں مجسٹریٹ کی نگرانی میں پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کردی گئی ہے۔ایس ایس پی اوکاش کمار نے بتایا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے کے الزام میں گرفتار کئے گئے 8 افراد کو عدالتی تحویل میں جیل بھیجا گیا ہے۔وہاں حالات مکمل طور پر قابو میں ہیں اور عوامی نقل و حرکت جاری ہے۔پولیس عملوں کی تعیناتی کرکے حالات کی نگرانی کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ اتوار کو دھرم پور گاؤں کے رہنے والے شری کانت پاسوان کی موت کے بعد اہل خانہ اور آس پاس کے لوگ لاش کو جلانے کے لیے شمشان گھاٹ پہنچے تھے ۔لاش کو جلانے کے لیے ایک گڑھا بھی کھودا گیا تھا ۔جس پر ایک خاص فرقہ کے لوگوں کو اعتراض تھا۔معاملہ بگرنے پر مقامی پولیس نے پنچایت کے عوامی نمائندوں کے ساتھ موقع پر پہنچ کر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس دوران کچھ شرپسندوں نے پتھراؤ شروع کر دیا اور گاڑی میں توڑ پھوڑ کردی جس کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے تھے لیکن سینئر پولیس حکام نے موقع پر پہنچ کر سختی سے کارروائی کرکے حالات کو پرامن بنایا۔
Comments are closed.