سیکولر پارٹیاں ہر اس پارٹی کو اپوزیشن کے محاذ میں شامل کریں جو فاشزم اور تقسیم کی سیاست کی مخالفت کرتی ہیں:ا یس ڈی پی آئی

نئی دہلی (پریس ریلیز) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کی قومی سکریٹریٹ اجلاس 25اور 26جولائی2023 کو نئی دہلی میں پارٹی کی مرکزی دفتر میں قومی صدر ایم کے فیضی کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ سکریٹریٹ اجلاس میں مندرجہ ذیل قراردادیں منظور کی گئیں۔ 1)۔ ایس ڈی پی آئی کا مطالبہ ہے کہ ریاست منی پور میں زمینی حقائق کو جاننے اور تجزیہ کرنے کے لیے ایک آل پارٹی وفد کو منی پور بھیجا جائے جو گزشتہ ڈھائی ماہ سے تشدد کی زد میں ہے۔ ایس ڈی پی آئی منی پور کے وزیر اعلی کو برطرف کرنے کا بھی مطالبہ کرتی ہے جو ریاست میں بدامنی پر قابو پانے اور منی پور کو امن کی طرف واپس لانے میں مکمل طور پرناکام رہے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی نے منی پور کی تشویشناک صورتحال کے لیے مرکزی حکومت کو بھی ذمہ دار ٹہرایا ہے۔ 2)۔ ایس ڈی پی آئی یکساں سول کو ڈ (UCC) کو نافذ کرنے کے اقدام کی سختی سے مخالفت کرتا ہے جو کہ آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں ووٹروں کو مذہبی طور پر تقسیم کرنے کے لیے بی جے پی کے تفرقہ انگیز ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ہندوستان ایک تنوع کا ملک ہے جہاں ہر مذہب، ذات، برادری اور قبیلہ اپنے اپنے سول کوڈ اور رسوم و رواج پر عمل پیرا ہے۔یکساں سول کوڈ بلا شبہ اس تنوع کو ختم کردے گا اور مذہبی آزادی کے آئینی حق سے انکار کرے گا۔ 3)۔ایس ڈی پی آئی سیکولر پارٹیوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ہر اس پارٹی کو اپوزیشن کے محاذ میں شامل کریں جو فاشزم اور تقسیم کی سیاست کی مخالفت کرتی ہیں۔ ایس ڈی پی آئی فاشسٹ حکومت کی تفرقہ انگیز اور مخالفانہ پالیسیوں اور ملک میں بڑھتے ہوئے فاشزم کی مخالفت میں پیش پیش رہی ہے۔ ایسی پارٹیوں کو محاذ سے باہر رکھنے سے محاذ کا مقصد ہی ختم ہوجائے گا۔ 4)۔حراستی ہلاکتیں انتہائی قابل مذمت اور جمہوری ملک کی بدنامی ہیں۔ ایس ڈی پی آئی ملک کی مختلف شمالی ریاستوں میں حراست میں ہونے والی اموات سے متعلق معاملات میں موثر تحقیقات اور قصورواروں کے خلاف مثالی تعزیزی اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔ 5)۔ ایس ڈی پی آئی واراناسی میں گیان واپی مسجد سمیت کئی مسلم عبادت گاہوں کو درپیش خطر ات پرسخت نوٹس لیتا ہے۔ 15اگست 1947سے پہلے تعمیر کردہ کسی بھی کمیونٹی کی مذہبی عبادت گاہوں پر کوئی بھی دعوی عبادت گاہوں (خصوصی دفعات)ایکٹ 1991کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جوکسی بھی عبادت گاہ کی تبدیلی پر پابندی لگاتا ہے اور عبادت گاہ کا مذہبی کردار ویسے ہی بنا رہے گا جیسا کہ وہ15اگست 1947کو موجودتھا۔
Comments are closed.