مسلمانوں میں ایک سے زائدنکاح کاتناسب سماج کے دوسرے طبقات کے مقابلہ میں کم ہے :مولاناعتیق احمدبستوی

مجلس تحقیقات شرعیہ کے زیراہتمام ’نکاح کی شرعی اور قانونی حیثیت کے عنوان سے سمپوزیم کاانعقاد،پروفیسرکمال احمدخان اور مولاناڈاکٹرمحمدعلی ندوی کااظہارخیال
لکھنؤ(پریس ریلیز)اسلامی شریعت میں اصل ایک شادی ہے،اور چارکی گنجائش ہے،بعض حالات میں ایک سے زائد نکاح کی ضرورت ہوتی ہے،اس لئے یہ گنجائش رکھی گئی ہے،ایک سے زائد نکاح کے لئے عدل کو شرط قراردیاگیاہے،ان خیالات کااظہارمولاناعتیق احمدبستوی نے مجلس تحقیقات شرعیہ کے زیراہتمام مسلم فیملی لالکچرسریزکے سولہویں پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے کیا،واضح رہے کہ مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء کی جانب سے وکیلوں کے لئے ماہانہ یہ پروگرام منعقدہوتاہے،اس سلسلہ کاسولہواں سمپوزیم ’’نکاح کی شرعی اور قانونی حیثیت‘‘ کے عنوان سے منعقدہوا،مولانانے مزیدکہاکہ یہ پروپیگنڈہ بہت زیادہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان ایک سے زیادہ شادی کرتے ہیں،حالانکہ اس مسئلہ پر متعددرپورٹیں موجودہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں میں ایک سے زائد نکاح کااوسط دیگرمذاہب سے کم ہے،مولانانے مزیدکہاکہ ملک میں ہم جنسی کو جس طرح قانونی تحفظ فراہم کیاجارہاہے اور اس کے نتیجہ میں جوحالات پیدا ہو رہے ہیں وہ بڑی تشویشناک ہیں،سماج میں ان برائیاں کوپھیلناکسی بھی طرح مفیدنہیں ہے،ان برائیوں کو ختم کرنے کے لئے جس سطح پر اصلاحی کوششیں ہونی چاہیے وہ نہیں ہورہی ہیں،اس کے اثرات انسانیت پر کیاپڑیں گے ان پرغورکیاجاناچاہئے،جن معاشروں میں ان برائیوں کافروغ ہواوہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں،شادی کے نتیجہ میں جوذمہ داریاں آتی ہیں ان سے بچنے کے لئے ان طرح کے نت نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں،یہ کلچربڑھتا رہا تو بہت جلدانسانی آبادی ختم ہوجائے گی۔
لکھنویونیورسیٹی کے شعبہ قانون کے پروفیسر ڈاکٹرکمال احمد خان نے ملک کی آئین میں میریج کی حیثیت پر اپنالکچرپیش کرتے ہوئے کہاکہ میریج کو فریڈم آف ریلیجین سے تحفظ ملاہے،دفعہ ۲۵،۲۶میں یہ بات کہی گئی ہے،جبکہ دفعہ ۲۹ میں اقلیتوں کے لئے کلچرکوتحفظ فراہم کیاگیاہے،اس طور پرکلچر مذہب کاحصہ ہے،دفعہ ۵۱ میں ہرسماج کواپنے اپنے کلچر کوفروغ دینے کاحق دیاگیاہے،کلچرسے ہی انسان کی پہچان ہوتی ہے،میرج اور کلچر دونوں مذہب کااہم حصہ ہیں،انہوں نے عدالتوں کے مختلف فیصلوں کی روشنی میں کہاکہ نکاح کوعموماایک معاہدہ ماناجاتاہے لیکن یہ معاہدہ کے ساتھ عبادت بھی ہے،اور اس طرح نکاح شریعت کالازمی حصہ ہے،اسلام کو بحیثیت ایک مکمل نظام کے سمجھاجاسکتاہے ،ٹکروں میںاسلام کونہیں سمجھاجاسکتاہے،انہوں نے مزیدکہاکہ عدالتوں سے لیوان ریلیشن،اڈلٹری اور گے میریج سے متعلق جو فیصلے آرہے ہیں ان میں انسان کی آزادی کو بہت زیادہ بڑھادیاگیاہے،جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ان فیصلوں کے منفی اثرات سماج پر پڑیں گے،اور ان کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے،انہوں نے ایک سے زائد شادی پراظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ ایک شادی رول ہے،اور ایک سے زائد شادی استثناء ہے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذمولاناڈاکٹرمحمدعلی ندوی نے شریعت میں نکاح کی شرعی حیثیت کے موضوع پر اپناتفصیلی مقالہ پیش کیاہے،جس میں انہوں نے نکاح سے متعلق موضوعات ومسائل پر بھرپورروشنی ڈالی،انہوں نے کہاکہ نکاح کے بلندمقاصد میں عفت وعصمت کی حفاظت بھی ہے،یہ ایمان کی تکمیل کاذریعہ ہے،کوئی صالح معاشرہ نکاح کے بغیروجودمیں نہیں آسکتا،نسل انسانی کی بقاء نکاح کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ریٹائرڈجج جناب ایس ایم حسیب نے اپنے تاثرات کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ جب علماء شریعت کے ساتھ قانون کی بنیادی باتوں سے بھی واقف ہوں گے تبھی وہ سماج میں پھیلی غلط فہمیوں کو صحیح طریقہ سے دور کرسکیں گے،اور معقول جواب دے سکیں گے،انہوں نے کہاکہ ندوہ ایک تجربہ گاہ ہے،یہاں سے علم کی روشنی آپ کو ملتی ہے،اس کو پھیلانے کاکام علماء اور وکلاء سب سے بہترطریقہ سے کرسکتے ہیں،کیونکہ سماج سے ان دونوں کاگہرارشتہ ہوتاہے۔مولاناظفرالدین ندوی کی تلاوت سے پروگرام کاآغازہوا،عبداللہ اواہ نے نعت پیش کی،مولانارحمت اللہ ندوی نے نظامت کے فرائض انجام دئے،جبکہ مجلس کے آفس سکریٹری مولانامنورسلطان ندوی نے مہمانوں کا استقبال کیا،اس پروگرام میں شہرکے وکلاء اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اساتذہ شریک ہوئے۔
Comments are closed.