پاکستان:ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کا شکار

بصیرت نیوزڈیسک
ماضی میں ہیپاٹائٹس کے انسداد کے لیے حکومت کی طرف سے کئی مہمیں چلائی گئی لیکن اس مرض میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس پر طبی ماہرین تشویش کا شکار ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہنگامی اقدامات کرے۔
عالمی سطح پر ہیپاٹائٹس کے حوالے سے آگہی کا دن ہر سال 28 جولائی کو منایا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس کی اے سے ای تک کی اقسام ہیں لیکن اس میں پریشان کن اقسام بی اور سی ہیں۔ یہ دونوں اقسام تقریبا روزانہ آٹھ ہزار انفیکشن کا موجب بنتی ہیں، جن میں سے زیادہ تر کی تشخیص نہیں ہو پاتی۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وجہ سے تقریبا 10 لاکھ سے زائد افراد ہر سال موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا دعوی ہے کہ اس میں سے بہت ساری اموات کو روکا جا سکتا ہے کیونکہ ہیپاٹائٹس بی کے لیے علاج اور ویکسین دونوں موجود ہیں جبکہ سی بھی قابل علاج ہے۔
پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی کیا صورتحال ہے ؟ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے مختلف طبی ماہرین سے بات چیت کی اور اس بات چیت میں یہ بات بالکل عیاں تھی کہ طبی ماہرین کو ہیپاٹائٹس کے بڑھتے ہوئے کیسیز پر سخت تشویش ہے۔
پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے منظر نامے کے حوالے سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے ایک سابق عہدے دار ڈاکٹر عبدالرشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں تقریبا 12 ملین افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں، جن میں سے چار اعشاریہ 55 ملین ہیپاٹائٹس بی اور آٹھ اعشاریہ 74 ملین ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عبدالرشید کے مطابق ہیپاٹائٹس بی خواتین کی نسبت مردوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس طبی ماہر کے خیال میں اگر ایشیا کی بات کی جائے تو زیادہ تر کیسیز پاکستان اور مصر میں ہوتے ہیں، جن کی شرح تقریبا 80 فیصد ہے۔
ڈاکٹر عبدالرشید کا کہنا ہے کہ پنجاب میں صورتحال بدتر ہے جبکہ سندھ میں بھی صورتحال بہت زیادہ امید افضا نہیں ہے۔
ہیپٹائٹس کے مسئلے پر وفاقی سطح پر حکومت کی ترجمانی کرنے والی ڈاکٹر ہما قریشی کا کہنا ہے پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاؤ کی شرح 7.5 فیصد اور وائرس کی موجودگی کی شرح 4.3 فیصد ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس کا مطلب ہے کہ دس ملین افراد ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں۔ ایچ سی وی علاج ہونے کے بعد بھی خون میں رہتا ہے۔ اس لحاظ سے دنیا میں ایچ سی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر ہما قریشی کے مطابق پنجاب میں تقریبا آٹھ ملین افراد اس سے متاثر ہیں جبکہ سندھ دوسرے نمبر پر ہے۔
ڈاکٹر ہما قریشی نے انکشاف کیا کہ سالانہ چار لاکھ کیسیز ہیپاٹائٹس کے پاکستان میں نمودار ہوتے ہیں لیکن صرف دو لاکھ کا علاج ہو پاتا ہے۔
سندھ کی شعبہ صحت کے ایک سینیئر افسر ڈاکٹر ذوالفقار دھاریجو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” ہمارے صوبے میں ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاؤ کی شرح چھ اعشاریہ دو فیصد ہے جب کہ ہیپاٹائٹس بی کے لئے یہ شرح ایک فیصد ہے۔‘‘
ڈاکٹر ذوالفقار دھاریجو کے مطابق سندھ میں ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ افراد کی تعداد تین اعشاریہ دو ملین ہے جبکہ ہیپاٹائٹس بی سے متاثرہ افراد کی تعداد زیرو اعشاریہ 55 ملین ہے۔
پاکستان میں ماضی میں ہیپاٹائٹس سے نمٹنے کے لیے کئی حکومتی مہمیں شروع کی گئیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ وہ مہمات اتنی موثر ثابت نہیں ہو سکی جتنی موثر ہونی چاہیے تھیں۔ ڈاکٹر ہما قریشی کا کہنا ہے کہ اگرحکومت کو ہیپاٹائٹس کے مسئلے پر قابو پانا ہے، تو اسے ٹیسٹنگ اور علاج و معالجے کی شرح کو آٹھ گنا بڑھانا پڑے گا، ”مصر نے عالمی بینک سے قرضہ لیا اور اس کو بہت موثر طور پر استعمال کیا، جس کی وجہ سے وہاں ہیپاٹائٹس کی شرح میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔‘‘
ڈاکٹر ہما کے خیال میں صحت کے شعبے میں پالیسی اور پلاننگ کا سیکٹر صوبوں کو نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر عبدالرشید کے مطابق 18ویں ترمیم کے منظور ہونے کے بعد ہیپاٹائٹس ختم کرنے کے لیے چلائی جانے والی قومی مہموں کو اچانک بند کر دیا گیا، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوا۔
تاہم کچھ ماہرین کے خیال میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں نے محکمہ صحت کو بہتر بنانے کے لیے بہت ساری کوششیں کی ہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار دھاریجو کا دعوی ہے کہ ان کے صوبے نے 322 اسکریننگ اور ویکسینیشن سینٹرز قائم کیے ہیں اور یہ کہ اب تک 11 ملین افراد کی ہیپاٹائٹس بی اور سی کے لیے سکریننگ کی گئی ہے جبکہ 11.88 ملین افراد کو ویکسین دی گئی ہے، ”دو لاکھ ننانوے ہزار تین سو اکیس ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ افراد کا اب تک مکمل علاج کیا گیا ہے جب کہ 10207 مریض اب بھی زیر علاج ہیں۔ ستاون ہزار نو سو چھیالیس ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کا علاج کیا گیا ہے جب کہ 22540 ہیپاٹائٹس بی کے مریض اب بھی زیر علاج ہیں۔‘‘
ڈاکٹر ہما قریشی کے مطابق اس مرض کو روکنا اتنا مشکل نہیں ہے، ”تشخیص ہونے کے بعد 98 فیصد لوگ 12 ہفتے میں دوبارہ صحت مند ہو سکتے ہیں اور اس کے لیے پاکستان بہت ہی کم قیمت پر دوائی بھی بنا رہا ہے۔ علاج کا خرچہ تقریبا 14 ہزار روپے ہے۔ ہیپاٹائٹس سی کے لیے کوئی ویکسین نہیں ہے لیکن اس کا بھی اب اورل ٹریٹمنٹ موجود ہے۔‘‘

Comments are closed.