یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

سراج الدین ندویؔ
9897334419
دس محرم الحرام کو یوم عاشوراء منایا گیا ۔بہت سے ممالک میں اس دن تعطیل رہی ،احادیث میں بیان کردہ یوم عاشوراء کی اہمیت و فضیلت اورحضرت موسی ؑ کو فرعون سے ملنے والی نجات کی خوشی میںاس دن روزہ رکھنے کی تاکید کودنیا بھر میں عموماً اور برصغیر میں خصوصاً فراموش کردیاگیا اس کے بجائے تعزیہ داری اور سینہ کوبی کو اس طرح عام کیا گیا کہ عوام یوم عاشوراء کو صرف واقعہ کربلا سے منسوب سمجھنے لگی ۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس واقعہ سے امت مسلمہ کو جو سبق حاصل کرنا چاہئے تھا وہ پس پشت ڈال دیا گیا۔ذرا تاریخ کے اوراق پلٹئے ،اور چودہ سو سال پہلے کے اس منظر پر نظر ڈالیے جب دسویں محرم الحرام کی خونی صبح طلوع ہوتی ہے۔ آفتاب میدان کربلا میں حسرت ویاس کی چادریں پھیلا دیتا ہے۔ دریائے فرات ٹھاٹھے ماررہا ہے۔ اس کی شوخ موجیں تیزی سے بہہ رہی ہیں۔مخلوقِ خدا سیرابی حاصل کررہی ہے لیکن ساقیٔ کوثر کا نواسہ پانی کے ایک ایک قطرہ کو ترس رہا ہے۔ ظالم دشمنوں کا مطالبہ ہے کہ یزید کی اطاقت قبول کرلو ہم تم کو مال ودولت اور عزت واکرام سے نوازیں گے ورنہ موت کی آغوش میں سلادیں گے مگر پروردۂ رسولؐ کا اصرار ہے کہ ہم باطل کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ جب تک ہماری رگ میں ایک قطرہ ٔ خون بھی باقی ہے دین میں کوئی قطع وبرید برداشت نہیں کریں گے۔ اسلامی نظام کی تقسیم وتحدید ہمارے لیے ناقابل مصالحت ہے۔ اسلامی اصول حکمرانی میں معمولی سا تغیر وتبدیل بھی ناقابل قبول ہے۔
گروہِ یزید کے پاس مال ومتاع کے ڈھیر، تیر وشمشیر سے لیس فوجیں، عیش وعشرت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحرِ بیکراں۔ ادھر معصوم بچوں کی آہ وفغاں، پیاس سے بے قرار عورتوں کی گریہ وزاری، ضعیف العمر لوگوں کی آہیں، لیکن حق کے اس مجاہد کو کوئی چیز ذرا بھی ٹس سے مس نہ کرسکی۔ آپ نے اپنے نساتھیوں سے فرمایا:’’ لوگو وقت موعود آپہنچا ہے جو واپس جانا چاہے بخوشی واپس جاسکتا ہے مگر وہاں کوئی لوٹنے والا نہ تھا۔ لوٹنے والے اور ساتھ چھوڑنے والے تو ہوا کارخ بدلتے ہی ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ اب تو صرف جاں نثار باقی رہ گئے تھے۔
آپ نے72جاں نثاروں پر مشتمل اس چھوٹی سی فوج کو آراستہ کیا۔ چار ہزار مسلح افراد کی فوج سے معرکہ آرائی شروع ہوئی۔ اپنی پوری جماعت کو راہِ خدا میں کٹانے کے بعد خود بھی حیات ابدی کا لباس پہن کر پوری دنیا کو یہ پیغام دے گئے۔
جاں دی دی ہوئی اس کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
نواسۂ رسولﷺ نے راہِ خدا میں جاں قربان کرکے جادۂ حق کی رہنمائی فرمائی کہ زندگی کے ہر میدان میں حق پرستی کا دامن مضبوطی سے تھامے رہنا چاہیے خواہ اس کے لیے جان کی بازی ہی کیوں نہ لگانی پڑے۔ اسلام کا یہ وہ زریں اصول ہے جس کی یاد ہر دسویں محرم الحرام کو تازہ ہوتی ہے۔
حق کی آواز میں اگرچہ جوانی کی للکار تھی مگر باطل اپنی قوت کی بنا پر عارضی فتح وکامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ بظاہر اگر چہ شہید کربلا کو شکست ہوئی کہ وہ اپنی بات نہ منواسکے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ دشمن سے پانی نہ چھین سکے۔ یہ بھی سچ ہے کہ انہوںنے اپنے عزیزوں کو بھوک وپیاس سے تڑپتے دیکھا اور بالآخر ہر ایک خاک وخون میں تڑپا اور شہادت پائی لیکن تاریخ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح منکشف ہوجاتی ہے کہ شہیدِ کربلا کی یہ شکست نہیں بلکہ فتح مندی تھی جس کا ظہور132ھ میں ہوا جب ظالم بنی امیہ کا تخت بنی عباس کے قبضہ میں آیا اور بنی امیہ کے تمام سردار خاک وخون میں تڑپے۔بنی امیہ کی شکست اور بنی عباس کی فتح محض ابراہیم عباسی کی دعوت اور مسلم خراسانی کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ نہ تھی بلکہ یہ اس خون کا اعجاز تھا جو ایک صدی پہلے دریائے فرات کے کنارے میدان کربلا میں بے بسی کے عالم میں بہایا گیاتھا۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ شہید کربلا کا مقابلہ یزید کی شخصیت اور ذات سے نہ تھا بلکہ اس غلط طرز حکومت سے تھا جس نے اسلامی نظام حکومت کی بنیادیں ہلاڈالی تھیں۔ اس نظریۂ سیاست سے تھا جو اسلامی نظریہ سیاست سے ٹکرا رہا تھا۔ اس نظام حکومت سے تھا جس نے شورائیت کی جگہ آمریت کو جنم دیاتھا۔ نعوذ باللہ امام حسینؓ کی ذات اتنی پست اور سطح نہ تھی کہ ذاتی یا خاندانی عداوت کے لیے میدان جنگ کا انتخاب کرتی بلکہ اس پروردۂ رسولؐ کی آنکھوں سے یہ نہ دیکھا گیا کہ اسلامی نظام حکمرانی میں کوئی تبدیلی وترمیم ہو۔ ان کے دل نے اسلام اور حق پرستی کے تحفظ کے لیے وہی صدا بلند کی جو خلیفۂ رسولؐ حضرت ابو بکرصدیق ؓ نصف صدی پہلے بلند کرچکے تھے۔اینقص الدین وانا حی‘‘ کیا میرے ہوتے ہوئے دین میں کتر بیونت ہوسکتی ہے؟
اس واقعہ کربلا سے سب اہم درس یہی ملتا ہے کہ انسان کو کسی بھی حال میں کسی بھی باطل اور ضلالت و گمراہی کے سامنے کبھی نہیں جھکنا چاہئے بلکہ اسے حق اور سچائی کے راستہ پر قائم رہنا چاہئے ،چاہے باطل کے پاس کتنی ہی بڑی قوت اور طاقت ہو اور اس کے مقابلہ پر حق پرست انسان کے پاس کم سے کم افرادی و مالی وسائل ہوں ۔سچائی کے راستہ پر چلتے ہوئے اسے اپنا مال ،اپنے اعزہ و احباب اور اپنی جان کو بھی قربان کردینا چاہئے ،مگر افسوس کہ مسلمان اس عظیم واقعہ سے عبرت لینے اور زریں اصول کو اپنانے کے بجائے سینہ کوبی، تعزیہ داری، مرثیہ خوانی میں اپنا عزیز وقت اور قیمتی مال صرف کرتے ہیں حالانکہ شریعت میں ان لغویات کے لیے کوئی جگہ نہیں کاش مسلمان سمجھتے! کاش وہ اس واقعۂ کربلا کا اس طرح استہزاء نہ کرتے بلکہ اس درس مبین کی روشنی میں نظام باطل کے خلاف جدوجہد کرکے نظام حق کے قیام کی کوشش کرتے۔
آج بھی حضرت حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی پاک روحیں پکار پکار کرکہہ رہی ہیں کہ اے محمدؐ وحسینؓ کے نام لیوائو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ مسجد سے لے کر بازار تک،مدرسہ سے لے کر میدان کا رزار تک، ملکی انتظامات سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک خدا سے بغاوت ہی بغاوت ہے۔ مگر تم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہو۔ قوانین الٰہی کو پامال کیا جارہا ہے ، حدوداللہ کو توڑا جارہا ہے، اللہ کے بندوں سے اللہ کے بجائے بندوں کی عبادت کرائی جارہی ہے، کذب وغیبت ، رشوت وخیانت، افتراء وبہتان تراشی، قتل وغارت گری کا دور دورہ ہے اورتم غفلت کی نیند سورہے ہو حالانکہ تمہارے دعویٔ اسلام اور محبت محمدﷺ وحسینؓ کا تقاضا ہے کہ بہادرانہ وار اٹھو اور بدی وگمراہی کے اس سیلاب کا رخ پھیر دو اور اسے اس رخ پر بہنے کے لیے مجبور کرو جو اسلام سے عین مطابقت رکھتاہے۔
حضرت حسینؓ نے یزیدی آمریت کا جس تندہی اور جرأت مندی سے مقابلہ کیا اور دریائے فرات کے کنارے میدان کربلا میں جس بے کسی وبے بسی کے عالم میں جان جانِ آفریں کے سپرد کردی یہ آپ کا وہ اسوۂ حسن ہے جو پوری ملت اسلامیہ کو اختیار کرنا چاہیے۔حضرت حسینؓ نے یزید ی چیلنج کا مقابلہ جس عز وثبات ، استقلال وپامردی سے کیا ہمیں بھی ہر چیلنج کے مقابلہ میں ان کے عزم وثبات کی اتباع کرنا چاہیے۔
یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

 

 

Comments are closed.