جمہوریت کی حفاظت عوام کے ہاتھوں میں ہے

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

اگر آپ دنیا کے ملکوں پر نظر ڈالیں تو آج اکیسویں صدی میں بھی دنیا کے تقریباً دو تہائی ملکوں میں کسی نہ کسی نوعیت کا جبری نظام ہے۔ کہیں بادشاہت ہے تو کہیں آمریت ہے، تو کہیں فوجی ڈکٹیٹر شپ ہے، کہیں مطلق العنان حکومت ہے تو کہیں نسلی حکومت ہے، جہاں عوام کی شخصی آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
روسی ادیب سولی زٹ سن نے جب روس کے جبری کمیونسٹ نظام سے بھاگ کر امریکہ میں پناہ لی تو اس نے کینسر وارڈ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس پر اس کو بعد میں نوبل پرائز بھی ملا۔ اس کتاب میں اس نے ایک لطیفہ لکھا ہے۔ ایک کتا کسی طرح ایسٹ جرمنی سے برلن کی دیوار پار کر ویسٹ جرمنی آیا تو مغربی جرمنی کے کتے اور کتیوں نے اس کا زوردار استقبال کیا۔ اس کے سامنے ہر طرح کا کھانا پیش کیا گیا۔ اس نے کہااس کی ضرورت نہیں ہے۔ تو اس سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے آیا ہے؟ اس کتے نے کہا اس کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ یہ ساری چیزیں ہمارے علاقے میں پوری طرح مہیا ہیں۔ پھر کتوں نے دریافت کیا کہ اتنا مشکل جھیل کر اور اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اس پار آنے کی وجہ کیاہے؟ تو کتے نے جواب دیا: only to bark۔ ایسٹ جرمنی میں اس کو بھونکنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے وہ جان جوکھم میں ڈال کر محض بھونکنے کے لیے ویسٹ جرمنی آیا ہے۔ یہ ایک لطیفہ ہے مگر جن ملکوں میں مطلق العنانیت ہے وہاں کے عوام کی ذہنی حالت کی غماز ہے، جو انسان ہوتے ہوئے بھی جانوروں کی سی زندگی گزارر ہے ہیں اور انہیں بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ زبان کھولنے کا مطلب عقوبت خانہ ہے۔
اللہ نے انسان کو علم، عقل، ذہن، زبان، آنکھ، کان، دل اور دماغ عطا کیے ہیں اور اسے قوت گویائی بخشی ہے۔ یہی قوتِ گویائی انسان کو جانور سے الگ کرکے ایک باشعور اور مہذب انسان بناتی ہے۔ مگر کوئی مطلق العنان حکومت کسی انسان سے اس کی قوت گویائی چھین لیے اور اس کے بولنے کی آزادی سلب کرلے تو اس سے زیادہ ظالم حکومت کوئی نہیں ہوسکتی ہے، چاہے اس کے عوض وہ اسے سونے کا نوالہ کھلائے یا پھل پھول سے نوازے۔ جیل میں بھی کسی کو بھوکا ننگا نہیں رکھا جاتا، مگر اس کی اپنی مرضی سے کچھ بولنے، کچھ کرنے اور کہیں آنے جانے سے روک دیا جاتا ہے۔
فالی نیرمن بھارت کے بہت مشہور وکیل ہیں، وہ قانون اور کنسٹی ٹیوشن کے اتنے بڑے عالم ہیں کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بولتے ہیں تو جج صاحبان ان کی قانونی نکتہ دانیوں کو بہت غورسے سنتے ہیں۔ انھوں نے ایک عالمی سیمینار میں جو غالباً ملیشیا میں ہورہا تھا، اس میں اظہارِ رائے کی آزادی پر بڑی پُر مغز اور عالمانہ تقریر کی۔ ملیشیا کے وزیر اعظم ماتیر محمد اس سمینار کی صدارت کررہے تھے اور انھوں نے کہا کہ ہمارے یہاں پوری طری آزادیٔ اظہار رائے ہے اور یہ سمینار اس کی دلیل ہے۔ فالی نیرمن نے ان کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ میں freedom of speech کی بات نہیں کررہا تھا میں freedom after speech کی بات کررہا تھا۔ یہ سن کر پورا ہال قہقہہ زار ہوگیا اور وزیر اعظم صاحب بغل جھانکنے لگے۔ جب بولنا جہاد ہوجائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ حکومت کیسی ہوگی؟
بھارت ان ملکوں میں سے ہے جہاں جمہوریت ہے اور جمہوری قدریں اور ادارے مضبوط ہیں۔ بھارت میں جب بھی ڈکٹیٹر شپ اور فسطائیت کا غلبہ پیدا ہونے کے خطرات نمایاں ہونے لگتے ہیں تو لوگوں نے مضبوط سے مضبوط حکومت کو اکھاڑ پھینک دیا ہے۔ بھارت کا عام شہری اور عام الیکٹوریٹ اس معاملہ میں بہت حساس ہے۔ بھارت اس وقت اپنی قومی تاریخ کے ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ جمہوریت، شخصی آزادی، اظہارِ رائے، انسانی حقوق، اقلیتوں اور کمزوروں کے حقوق – جمہوری اقدار اور جمہوری اداروں کو کچھ مٹھی بھر لوگ یا تو اغوا کرچکے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔ حکمرانوں کا مزاج ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔
جمہوریت کے بارے میں لاکھ ٹکے کی ایک بات یہ ہے کہ Democracy is best defended by its citizens۔ یعنی جمہوریت کی حفاظت سب سے بہتر طور پر عوام کرتی ہے۔ جمہوریت بھی اور طرزِ حکمرانی کی طرح خامیوں سے پاک نہیں ہے ، اور اس کو ڈکٹیٹر شپ میں تبدیل ہونے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ ایسے کسی خطرے سے ملک کو اور جمہوریت کو بچانے کا دو ہی طریقے ہیں۔ (۱) کبھی کسی پارٹی یا گٹھ بندھن کو اتنی بھاری اکثریت سے نہ جتایا جائے کہ وہ حکومت آئین اور جمہوری قدروں اور اداروں کو پامال کرنے میں من مانی شروع کردے۔ جمہوریت کی بقا کے لیے اپوزیشن کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ (۲) ہر پانچ سال پر الیکشن ہوتا ہے تو ایک حکومت یا گٹھ بندھن، دوبارہ لگاتار اقتدار میں نہ آئے بلکہ باری باری سے پارٹیاں حکومت میں آئیں۔ اس سے حکومت عوام کے حق میں زیادہ مستعدی سے کام کرے گی۔ سیاسی دھونس دھاندلی کا امکان کم ہوگا۔ کرپشن میں کمی آئے گی اور پارٹی مونوپولی پر قدغن لگے گی۔ اگر ہر پانچ سال پر ریاست اور مرکزی حکومت بدلتی رہے تو جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوطی حاصل ہوگی اور کوئی حکمراں آئین کو بدلنے اور جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ مثل مشہور ہے جب دھوبی پر دھوبی بستا ہے تو گدری کی بھی صابن سے دھلائی ہوتی ہے۔ Free & Fair Competition اور Free & Fair Election جمہوریت کے تحفظ کی ضمانت ہے۔

Website: abuzarkamaluddin.com

Comments are closed.