عرب قوم پرستی کے علمبردار اور صیہونی جارحیت کے دشمن-جمال عبدالناصر

عارف عزیز(بھوپال)
متحدہ عرب جمہوریہ مصر کے صدر جمال عبدالناصر اس عرب قومیت کی پیداوار تھے جس کا ظہور حسین شریف مکہ جیسی شخصیت کے ساتھ ہوا تھا اور جس نے اپنے آغاز کے پہلے مرحلہ پر اس خلافت کو تباہ کرنے کا عمل پوری بے رحمی کے ساتھ انجام دیا، جس کی تباہی کا تصور دنیا کا کوئی ہوشمند مسلمان نہیں کرسکتا تھا اور جس کے بعد عالم عرب میں کتنی ہی ایسی سلطنتیں ابھر آئی جن کے سامنے خانہ جنگی اور علاقائی عصبیت کو فروغ دینے کے سوا کوئی دوسرا مقصد باقی نہ رہا تھا، ناصر نے اس عرب قومیت کو مقصد سے روشناس کیا، اتحادِ عرب کی ایک عظیم تحریک کو پیدا کیا، عربوں کو دنیا کی ایک قابل لحاظ سیاسی قوت کے مقام تک پہونچا دیا، وہ شریف مکہ کے مقابلہ میں کہیں زیادہ معتدل مزاج قوم پرست اور شام وعراق کے نیشنلسٹوں سے کہیں کم بے رحم یا جابر حکمراں تھے، ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس قوم کو جس کی سرزمین برطانیہ اور فرانس کے تاجروں اور منافع خوروں کی چراگاہ بنی ہوئی تھی دیکھتے ہی دیکھتی اس کو روس اور امریکہ جیسی طاقتوں سے ٹکر لینے کے قابل بنادیا ان کے بعد عربوں میں ابھرنے والی شخصیتوں میں سے انور سادات اور صدام حسین کا جو حشر ہوا یا سعودی عرب سے مراکش تک اور کویت سے اردن تک امریکہ کے آگے خودسپردگی کے جو نظارے دکھائی دیئے ان سے یہ ثابت ہوگیا کہ ناصر کس قلب وجگر کے مالک تھے، انہوں نے اپنے عہد کی عظیم ترین سیاسی اور فوجی طاقتوں سے ہی ٹکر نہیں لی ان کے مقابلہ میں آخر تک چٹان کی طرح مضبوط، لاپرواہ اور غیر متزلزل بھی بنے رہے، عربوں کی عزت، خود داری اور قومی وقار کے قیام اور ان کی عالمی حیثیت کو منوانے کی خواہش کو انہوں نے ایک مشن کے طور پر اختیار کیا اور اس مقصد کیلئے وہ سینہ سپر ہوئے تو پھر جھجکے نہیں، ان کے لئے ناکامی کوئی چیز نہیں تھی، وہ خواب دیکھتے تو ان کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی ہمت بھی رکھتے تھے، اسی حوصلہ اور استقلال کی بدولت ناصر نے تین ساڑھے تین کروڑ کی حقیر آبادی والے ملک کو عالمی سیاست میں ایک ناگزیر حقیقت و حیثیت کا مالک بنادیا۔
ناصر اپنے زمانے کے سب سے کم عمر اور ناتجربہ کار سربراہ مملکت تھے جو نئے عہد کے دیوزادوں کا دور تھا، انڈونیشیا کے صدر سوکارنو، ویٹ نام کے صدر ہوچی منو، برما کے اونو، پاکستان کے ایوب خاں، الجزائر کے بن بیلا، گھانا کے انکروما، نائجیریا کے تفاوا بلیوا، عراق کے عبدالکریم قاسم یا جنرل عارف، ان سے بڑے لوگوں میں چرچل، خروشچیف، جواہر لال نہرو، مائوزی تنگ، ٹیٹو اور کاسٹرو ان کے ہم عصر تھے صرف ۳۶ برس کی عمر میں انہوں نے دنیا کے معروف سیاست دانوں، حکمرانوں اور دانشوروں کی ہم نشینی اختیار کی اور ان ہی کی دوستیوں ، رقابتوں، سازشوں اور دشمنیوں کے درمیان وہ اپنے ملک اور پوری عرب قوم کی نمائندگی قابل رشک صلاحیتوں اور حیرتناک استقلال سے کرتے رہے۔
ناصر نے برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی طاقت کو بے مثال شکست دی اور مغربی استعمار کے اثرات کو متحدہ عرب جمہوریہ کی سرزمیں سے مکمل طور پر اکھاڑ پھینکا اور آخر کار نہرسوئز پر مصریوں کے قبضہ کے ایک پرانے خواب کو حقیقت میں بدل دیا، اسی طرح مرعوبیت کے کسی مظاہرے یا کمتری کے کسی احساس کے بغیر ڈپلومیسی کی دوبدوجنگ لڑکر انہوں نے خروچیف اور کینڈی دونوں کو شکست دیدی اور ایڈن جیسی عہد ساز شخصیت کو سیاسی طورپر مکمل تباہی سے دوچار کرکے تاریخ کے کباڑخانے میں پھینک دیا، ناوابستگی اور غیر جانبداری کی مشہور عالم پالیسی کی تشکیل میں نہرو اور ٹیٹو کے ساتھ ناقابل فراموش جدوجہد کی ، مصر کو ’’اسوان ڈیم‘‘ کی صورت میں ایک اہم دولت سے مالا مال کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے ملک کی خود مختاری وخودداری کو شدید سیاسی دبائو کے مقابلے میں بھی بدستور قائم رکھا اور ایک لمحہ کیلئے بھی اپنی شخصی انفرادیت یا قومی آزادی سے محروم ہونا گوارا نہ کیا۔
جمال عبدالناصر کی شخصیت خواہ کتنی ہی متنازعہ او رمشکوک رہی ہو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا سولہا طویل برسوں تک ان کا اثر واقتدار مسلم ومحفوظ رہا، ان سے بڑی رجائیت پسند اور خود بیں وخود شناس دوسری کوئی شخصیت اس عہد میں مسلمانوں کے پاس نہیں تھی، اس لمحہ سے لے کر جب انہوں نے جنرل نجیب کی قیادت میں شاہ فاروق کی حکمرانی کا جوا اپنے ملک کے کاندھوں سے اتار پھینکا تھا، ان آخری ایام تک جب انہوں نے شاہ حسین اور یاسر عرفات کو گفتگو کی میز پر بٹھاکر فائر بندی پر رضامند کردیا ، وہ عرب قوم کے حق میں اورصیہونی جارحیت کے خلاف ان تھک گردش اور تسلسل کے ساتھ کام کرتے رہے۔
ناصر کے اقتدار میں آتے ہی امریکہ نے ان پر سرپرستی کا ہاتھ رکھنا چاہا بلکہ کہا تو یہاں تک جاتا ہے کہ مصر کے فوجی انقلاب کا منصوبہ سی آئی اے نے ہی بنایا تھا لیکن اپنی سرپرستی کی جو قیمت امریکہ ان سے وصول کرنا چاہتا تھا وہ انہیں منظور نہ ہوئی اور کمیونسٹ بلاک کی طرف ان کے جھکائو کو امریکہ نے اپنے خلاف اعلان جنگ سمجھ کر ’’اسوان ڈیم‘‘ کی تعمیر کو سیاسی حربہ کی طو رپر استعمال کرنا چاہا تو سوویت یونین نے آگے بڑھ کر اس کیلئے مالی قرضہ فراہم کردیا، تبھی سے مشرق وسطیٰ کی سیاست کا نقشہ بدلنے لگا یہانتک کہ ۱۹۵۶ء میں نہر سوئز کو قومیا کر ناصر نے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔
اپنی دھواں دھار سیاسی زندگی میں ناصر نے سازشیں بھی کیں اور اپنے خلاف عمل میں آنے والی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ بھی کیا، انہوں نے مظالم بھی کئے اور پسپائیوں کا منہ بھی دیکھا لیکن ان کی شخصیت یا دیگر الفاظ میں ان کے خلوص کا یہ اثر ہوا کہ ان سب باتوں سے ان کی مقبولیت بڑھتی ہی گئی، اخوان المسلمین کا خونِ ناحق ہو یا یمن کی خانہ جنگی کو ہوا دینا، شام کے ساتھ اتحاد کی ناکامی ہو یا ۱۹۶۷ء میں بغیر کسی تیاری کے جنگ میں کود کر شکست کھانا، سب ایسے واقعات ہیں جنہیں تاریخ فراموش نہیں کرسکتی بلکہ ان کی کسک عالمِ عرب میں ہی نہیں اس کے باہر اسلامی دنیا میں بھی عرصہ دراز تک محسوس کی جاتی رہی تاہم اس کے ساتھ ہی مصریوں اور عربوں میں ملی حمیت، عزت اور خود اعتمادی کے جذبہ کو بیدار کرنے نیز ان کو سامراج کے استحصال سے آزاد کرانے کی جو زبردست کوششیں ناصر نے انجام دیں ان کونظر انداز کردینا بھی ممکن نہیں۔ناصر کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ ۱۹۶۷ء کی غیر معمولی ہزیمت کے بعد انہوں نے ہمت نہ ہاری اور مصری عوام کو تاریخ کے بدترین مرحلہ سے نکال کر دوبارہ حالات سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار کیا۔ اس کام کی اہمیت کا وہی لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں جو چینی حملہ کے بعد پنڈت نہرو کے حال سے واقف ہیں کہ وہ اس جھٹکے کے بعد سنبھل نہ سکے اس کے برعکس ناصر نے حالات کی بے رحمی کا دیوانہ وار مقابلہ کیا اور نئے عزم کے ساتھ قوم کی طاقت کو متحد کرنے میں وہ لگ گئے۔ ناصر ہندوستان کے گہرے دوست تھے، یہ تعلق کچھ تو اس عقیدت ومحبت کا پرتو تھا جو پنڈت نہرو کی ذات سے ان کو رہی اور کچھ اس ہمہ گیر اثر کا نتیجہ تھا جو ہندوستان کی آزادی کے لئے جدوجہد نے ایشیا وافریقہ کی تمام محکوم اقوام اور پس ماندہ ممالک پر مرتب کیا تھا۔ وہ ہندوستان کو ایشیا میں جمہوریت، سیکولرازم اور ناوابستگی کی سب سے بڑی علامت سمجھتے تھے، پھر بھی ان کی زندگی کے آخری حصہ میں ان کے خلاف ایک طرح کا رجحان ہندوستان میں نظر آنے لگا تھا اور یہاں کے بعض اکثریت کے انتہاپسند حلقے یہ کہتے نظر آئے کہ ناصر نے چینی حملے اور اس کے بعد ہند- پاک جنگ کے دوران کھل کر ہمارا ساتھ نہیں دیا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ ان کی قربت آخر تک قائم رہی چین کے ساتھ تنازعہ کو ختم کرانے کے لئے جو کولمبو منصوبہ تیا رکیا گیا اس کے حقیقی روحِ رواں وہی تھے اور جب گواپر ہندوستانی فوج کی چڑھائی کا موقع آیا تو انہوں نے پرتگال کے بحری بیڑے کو نہر سوئز سے گزرنے کی اجازت نہیں دی، اس کے بعد تو ہندوستان کیلئے ان کی خیر خواہی کسی ثبوت کی محتاج نہیں رہتی۔
۲۸ستمبر ۱۹۷۰ء کو جب صدر ناصر پورے سولہ برس اقتدار میں رہ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے دوستوں کو ہی نہیں دشمنوں کو بھی اس کا اعتراف تھا کہ آج وہ شخص ہم سے جدا ہوگیا جو دوستی اور دشمنی دونوں حالتوں میں عرب مفادات کا نگراں تھا۔
Comments are closed.