بھدوڑی  ،نوپور اور ترپتا  بمقابلہ دانش ، زبیر اور تشار 

 

ڈاکٹر سلیم خان

بی جے پی  فی الحال  اپنے  روحانی پیشوا چانکیہ کی نیتی  (حکمت عملی) پر پوری طرح  کاربند ہے  مگرخوش قسمتی سے ’سورن کال‘ (سنہرے دور)  میں وہ جادو چل نہیں پارہا ہے۔   تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل چانکیہ نے  اپنی مشہور  کتاب ارتھ شاستر میں جورہنمائی  کی تھی اس پر سنگھ پریوار آج بھی عمل پیرا ہے۔ وہ سیاست میں کسی اخلاقی اصول وضوابط کی پابندی   کا قائل نہیں  تھا ۔ موجودہ سرکار  نے بھی سب کچھ جائز کر رکھاہے۔ چانکیہ  کے نزدیک  سفاکیت، جھوٹ ، مکاری اور منافقت مباح تھی مودی کے نزدیک بھی وہ پسندیدہ  ہے ۔چانکیہ نیتی  کو ہندی کے ایک مشہور محاورہ سام دام دنڈ بھیدمیں  سمویا گیا  ہے۔ بزورِ قوت  حکومت کرنے کےاس  طریقۂ کارکی ابتدا محبت بھرے انداز میں ’سام‘ سے ہوتی ہے۔ اس مرحلے  میں  زبانی افہام و تفہیم  سے کام نکالنے کی سعی کی جاتی  ہے۔یہ حربہ اگر  ناکام ہوجائے  یعنی  مخاطب  پیار بھرے  جھانسے میں  آنے سے انکار کردے  تو مال و دولت کی مدد سے اسے خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے اسے ’دام‘یعنی قیمت لگانا کہتے ہیں ۔  بفرضِ محال  مندرجہ بالا دونوں طریقوں سے بات نہ بنے  تو  ’دنڈ‘ یعنی تعذیب و سزا   کے ذریعہ مخالف   کو رام کیا جاتا ہے مگر یہاں  تفریق امتیاز کا پہلو غالب رہتاہے جسے ’بھید‘ کہتے ہیں ۔ اس  طرح  حلیف کو بچا کر حریف کو پھنسانے کی کوشش جاتی   ہے۔

 مظفر نگر کے قابلِ مذمت واقعہ کی مدد سے چانکیہ نیتی کو بہت اچھی طرح  سمجھا جاسکتا  ہے۔یہ حسن اتفاق ہے کہ   یوگی سرکار نے یہ  سارے حربے یکے بعد دیگرے استعمال تو  کیے  مگر اس کی ایک نہیں چلی ۔  سپریم کورٹ نے  اس معاملے میں حسبِ روایت نچلی عدالت میں جانے کی ہدایت کرنے کے بجائے   ریاستی  حکومت کو پہلی ہی سماعت میں   پھٹکار لگا کر نوٹس  جاری کردیا اور  ایف آئی آر کی تفصیل و اسٹیٹس رپورٹ  طلب کرلی ۔جسٹس ابھے ایس اوکا اور پنکج متل پر مشتمل بنچ نے نابالغ مسلم لڑکے کے ساتھ اس کی ٹیچر کی جانب سے کئے گئے شرمناک سلوک سے متعلق پولیس سپرنٹنڈنٹ کوبھی   حاضر ہونے کی تاکید کردی  مگر گینڈے کی  موٹی کھال والی یوگی سرکار اس اشارے کو نہیں سمجھ پائی اور دوسری سماعت میں بری طرح  پھنس گئی۔  اب اس پر ایف آئی میں چھیڑ چھاڑ اور ملزمہ کو بچانے کے سنگین  الزامات  عائد کردئیے گئے ہیں ۔ عدالت نے ایک آئی پی ایس افسر کو یہ کام سونپنے کی ہدایت کرکے اپنے عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔  یوگی سرکار اگر اپنی بے حسی پر اڑی رہتی ہے تو اس پر مزید جوتیاں برسیں گی کیونکہ بقول بھرترہری بزبانِ اقبال ؎

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر                    مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

نوپور  شرما ، ترپتا تیاگی اور رمیش بھدوڑی  جیسے  سفاک لوگوں  کو انگریزی میں  ”سائیکو پیتھ“ کہتے ہیں اس کا  متبادل لفظ ”اینٹی سوشل“ یعنی سماج دشمن  ہے۔ عام فہم  زبان میں دوسروں کو بے وجہ  تکلیف پہنچانے والے کو ایذا رساں  یا ٹاکسک کہا جاتا ہے کیونکہ وہ لوگ  زہریلے  سانپ کی مانند تباہ کن  ڈنک مارتے ہیں۔یہ ایک خطرناک نفسیاتی   مرض ہے جس   میں مبتلا لوگوں کے اندر   جان بوجھ کر معاشرے کے دیگر افراد کو مارنے یا تہس نہس کرنے کی  خواہش حد سے تجاوز کرجاتی ہے ۔  مجرمانہ ذہنیت کے حامل یہ مریض   اذیت رسانی سے نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ایک کے بعد ایک نئے  شکار کو  پھانس کر سیریل کلر کی مانند انہیں تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں۔ کسی قانونی   یا معاشرتی دباو کے سبب  اگرانہیں عارضی طور پررکنا  پڑ جائے تب  بھی  وہ دور بیٹھ کر کسی نہ کسی طور اپنے خود ساختی دشمن کو نقصان پہنچانے کے نت نئے  طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔

یہ سائیکو پیتھ  اپنے کریہہ  مقصد کے حصول کی خاطر مظلومین   کے رشتہ دارو‌ں اور قریبی لوگوں سے دوستی کر کے ان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے  ہیں جیسا کہ ترپتا  تیاگی نے معصوم بچے کے والدارشاد  کو بہلا پھسلا کریہ کہنے پر  مجبور کردیاکہ ’ میڈم نے بچوں کو آپس میں لڑا دیا۔ ہم نے آپس میں سمجھوتہ کر لیا ہے۔ میڈم نے ہماری فیس واپس کر دی ہے اور اب ہم اپنے بچے کوا سکول نہیں بھیجیں گے۔ بی جے پی کے ذریعہ نوپور شرما کی معطلی یاراجناتھ سنگھ کی زبانی    دانش علی سے ہمدردی اسی زمرے کی چیزیں ہیں۔   اپنے شکار کو بے بس کرنے یا ظلم کا جواز فراہم کرنے کی خاطر ایسا کیا جاتا ہے ۔ اس نفسیات کے پیچھے  تکبر، گھمنڈ، خود پسندی اور حسدجیسے ناپاک   خصائل کارفرما ہوتے ہیں۔  دوسروں  کو مستقل اور طویل اذیت دے کر  لذت کا حصول ان  جرائم پیشہ مریضوں   کی  نفسیاتی ضرورت ہوتی ہے مگر  معاشرے کے  بے قصور لوگوں کو اس قیمت چکانی پڑتی   ہے ۔اس لیے بے قصور لوگوں کو ان کے عتاب  سے محفوظ رکھنے کی خاطر انہیں سماج سے نکال کر جیل نما پاگل خانے کے اندربند کردینا ہی ایک واحد حل ہے  ۔

حکومتِ وقت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا سیاسی مفاد  ایسے مریضوں کی تحفظ سے وابستہ ہوگیا ہے ۔ اس لیے حکمراں جماعت ایسے لوگوں کی پناہ گاہ بن چکی ہے۔  ان لوگوں  پر دباو بنانے کے لیے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا تھا مگر اس کو بھی گود  لے کر خاموش کردیاگیا ہے۔ ایسے میں سوشیل میڈیا  امید کی ایک کرن ہے ۔اس کے اندر ان کے خلاف ماحول سازی کی قوت ہے۔ انہیں بے نقاب کرنے میں  ویڈیو  سب سے زیادہ اہم  اور موثر کردار ادا کرسکتی ہے۔  ویڈیو ترپتا کی ہو یا نوپور اور بھدوڑی کی، یہ ان  تمام  کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔ مظفر نگر کے ترپتا تیاگی کی     ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے اس کے بنانے والے نے بڑی چالاکی سے اس  کو اکسا کر اپنے جال میں پھنسایا۔  وہ بیوقوف عورت یہ اندازہ نہیں لگا سکی کہ   اس  سے نہ صرف اس کی بدنامی ہوگی بلکہ اس کے غیر قانونی  اسکول پر قفل  بھی لگ جائے گا ۔ اس معاملے میں  نفرت کی آگ میں جلنے والی  اندھی  پرنسپل ازخودایک جال میں  پھنس کر  ذلت و رسوائی کی گہری کھائی میں جا پڑی  اور عدالتِ عظمیٰ کے شکنجے میں بھی گرفتار ہوسکتی ہے ۔

مظفر نگر سانحہ  کی  ویڈیو سازی  نے یہ ثابت کردیا کہ یہ محض  سیرو تفریح کا سامان نہیں ہے بلکہ  ظالموں  کو بے نقاب کرکے انہیں سزا دلوانے کاایک  وسیلہ بھی  ہے۔ ترپتا تیاگی جیسے لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے ویڈیو بنانا ضروری تو ہے مگر کافی نہیں ہے۔  اس کو وائرل کرنے کی خاطر محمد زبیر جیسے دلیر صحافی کی ضرورت پڑتی ہے جنھوں نے نوپور شرما کی بدزبانی کو بے نقاب کرکے  بی جے پی کو اس سے دامن چھڑانے اور معافی مانگنےپر مجبور کردیا تھا۔  محمد زبیر کا یہ بہت  بڑا کارنامہ  تھا کہ ان کے سبب  سپریم کورٹ نے بی جے پی کی معطل لیڈر نوپور شرما کو پوری قوم سے معافی مانگنے کی تلقین کی تھی اور اودے پور میں کنہیا لال قتل کے لئے بھی اسی شاتمِ رسول ؐ کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا ۔پچھلے سال جب  نوپور شرما کے  خلاف سپریم کورٹ کے جسٹس سوریہ کانت نے یہاں تک کہا تھا  ، ” وہ سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی ہے؟ اس نے جس طرح سے پورے ملک میں جذبات بھڑکائے ہیں۔ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار یہ خاتون اکیلی ہے۔” عدالت عظمیٰ  نے شرما کے  تبصرے کواس کی رعونت کا  غماز بتاتے ہوئے کہا تھا  "اگر وہ کسی پارٹی کی ترجمان ہیں تو کیا ہوگیا؟ انہیں لگتا ہے کہ ان کے پاس  اقتدار کی  حمایت  ہے اس لیے  وہ ملک کے قانون کا احترام کیے بغیر کوئی بھی بیان دے سکتی ہیں۔”

ترپتا تیاگی  کی مانند نوپور شرما نے بھی معافی مانگی تھی مگر سپریم کورٹ کی دو ججوں کی بنچ  اس سے مطمئن نہیں ہوئی بلکہ یہ کہا تھا کہ نوپور نے ٹیلی ویژن پر آکر ایک خاص مذہب کے خلاف اشتعال انگیز تبصرہ کیا۔ اس پر شرائط کے ساتھ اس وقت معافی مانگی جب اس  کے بیان پر لوگوں کا غصہ بھڑک اٹھا تھا یعنی  معافی مانگنے کی دیر ہو چکی  تھی ۔ عدالت نے نوپور کو  ٹی وی پر آکر پورے ملک سے معافی مانگنے کا حکم دیا تھا ۔ اس موقع پر عدالت عظمیٰ  نے دہلی  پولیس سے پوچھا تھا کہ  ‘اس نے کیا کیا؟ ‘ یہی سوال مظفر نگر انتظامیہ سے بھی کیا جاچکا ہے۔ آگے یہ سوال بھی آسکتا ہے کہ ترپتا کوہنوزگرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ عصرِ حاضر میں یہ کام پر خطر ہے۔ مظفرنگر معاملے میں  پھر سےمحمد زبیر  کے خلاف پوسکو کے تحت  ایف آئی آر ہوگئی جبکہ اصل مجرم ترپتا تیاگی محفوظ و مامون ہے۔  حکومت وقت کے اس  دوغلےرویہ  کی وجہ سے رمیش بھدوری جیسے لوگ کھلے سانڈ بنے پھر ر ہے ہیں۔  کنور دانش علی کو  بدزبان رمیش بھدوڑی کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرکے اسے جیل بھجوانے کی سعی کرنی  چاہیے کیونکہ  نفرت انگیزی  صرف دیوانی نہیں بلکہ فوجداری کا جرم ہے  ۔  جیل جانے کا خوف ہی  ان بزدلوں کو نفرت انگیزی سے روک سکتا ہے۔اس ظلم کے خلاف جدوجہد نے محمد زبیر کو نوبل انعام کی دوڑ میں شامل کیا اور دانش علی کو ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماوں میں سے ایک  بنا دیا ہے۔ ماب لنچنگ  کے بعد  مظفر نگر کا معاملہ اٹھا کر  تشار گاندھی نے پھر ایک بار اپنے پڑ دادا کی روایت کو آگے بڑھانے کا قابلِ ستائش  کارنامہ انجام دیا  ہے۔ اس طرح ایک طرف نیک نام اور دوسری جانب بدنام زمانہ لوگ ہیں  اور کشمکش جاری ہے۔ اس میں جھوٹ کے مقابلے  فتح یقیناً سچائی کی ہوگی۔ 

 

Comments are closed.