آج جو لداخ میں کل جموں کشمیر میں ہوگا

ڈاکٹر سلیم خان
یہ حسن اتفاق ہے کہ جس دن حماس نے اسرائیل کو گھر میں گھس کر مارا ، اسی دن لداخ کے اندر ہل کونسل کے انتخاب میں ’انڈیا‘ وفاق نے بی جے پی کو اپنے قدموں روند دیا۔ 5 ؍اگست 1999 کو آئین کی دفع 370 منسوخ کرنے کے بعد بی جے پی نے سوچا کہ اب ریاستِ جموں کشمیر میں زعفرانی پرچم لہرانا سہل ہوجائے گا ۔ اس وقت نہ جانے کس عقلمند نے اس کو مشورہ دیا کہ لداخ کو غزہ کی طرح الگ کردو ۔ اس حرکت کی دلیل صرف یہ تھی کہ سپرُ عقلمند اسرائیل نے ایسا کررکھا تھا حالانکہ غزہ کو تو اس لیے الگ کیا گیا تھا کہ وہاں حکومت کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔ لداخ میں ایسی صورتحال نہیں تھی لیکن جموںکشمیر پر اپنا شکنجہ کسنے کی خاطر اگر دوسرے صوبوں کے مقابلے قومی آئین میں اس کی حیثیت گھٹا کر یونین ٹیریٹری بنانا ضروری سمجھا گیا تو اسرائیل کی مکمل پیروی کے لیے غزہ کی طرح لداخ کو الگ کرنا لازم ہوگیا۔ اب نتیجہ دیکھیں کہ ایک طرف غزہ کے مجاہدین آزادی نے اسرائیل کی برتری کاخواب چکنا چور کردیا وہیں لداخ کے لوگوں نےہل کونسل کے انتخاب میں بی جے پی کو دھول چٹا دی ۔ اس خبر کو دبانے کے لیے اچانک پانچ صوبوں میں ریاستی الیکشن کا بگل بجا دیا گیا تاکہ میڈیا کو ایک جھنجھنا پکڑا دیا جائے اور لداخ میں بی جے پی کی نا کامی زیر بحث نہ آئے۔
کسی زمانے میں بی جے پی والے انتخاب جیتنے کے فن میں ماہر تھے آج کل ان لوگوں کو اپنی ناکامی کی جانب سے توجہ ہٹانے میں مہارت حاصل ہوگئی ہے ۔ یہ بیچارے نہیں جانتے کہ شکست کی پردہ پوشی سے وہ فتح میں نہیں بدلتی۔ ساڑھے چار سال قبل کشمیر سے آئین کی دفع 370ہٹانے کے بعد بی جے پی نے سب سے پہلے مہاراشٹر اور ہریانہ کے ریاستی انتخاب میں اسے بھنانے کی کوشش کی مگر اس کو کامیابی نہیں ملی ۔ دونوں مقامات پر اس کی نشستیں کم ہوگئیں۔ ہریانہ میں بی جے پی مخلوط سرکار بنانے پر مجبور ہونا پڑا اور مہاراشٹر میں ڈحائی سال کے بعد بھی ان کاوزیر اعلیٰ نہیں بناسکے۔ آگے چل کر دہلی اور بہار میں پھر سے یہ راگ الاپا گیا اور دونوں مقامات پر یہ پانسہ الٹا پڑاتو بی جے والے اسے بھول گئے ۔ جموں کشمیر کا معاملہ عدالتِ عظمیٰ میں زیر سماعت ہے ۔ مرکزی حکومت اس کا ریاستی درجہ بحال کرکے وہاں انتخاب کرانے کا وعدہ کررہی ہے ۔
جموں کشمیر کی نبض ٹٹولنے کی خاطر لداخ میں ہِل کونسل کے انتخابات کرائے گئے تو اس کے نتائج دیکھ کر بی جے پی والوں کی سانس اکھڑ گئی۔ اب حالت یہ ہے کہ وہ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور کہیں جائے پناہ نہیں مل رہی ہے۔بی جے پی کو اپنی شکست کا اندازپہلے سے ہوگیا تھا اس لیےابتدا میں پنجرے کے طوطے یعنی الیکشن کمیشن کے ذریعہ ڈنڈی مارنے کی کوشش کی کی گئی اور پچھلی بار سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی نیشنل کانفرنس کو اس کے نشان ’ہل‘ سے محروم کرنے کی سازش رچی گئی۔ نیشنل کانفرنس کو رجسٹرڈ پارٹی ہونے کے باوجود پارٹی کے نشان ’ہل‘ کے استعمال سے الیکشن کمیشن نے روک دیا ۔ لداخ انتظامیہ کی دلیل تھی کہ نیشنل کانفرنس سمیت ریاستی پارٹیوں میں سے کوئی بھی لداخ میں تسلیم شدہ سیاسی جماعت نہیں ہے اور اس لیے وہ ہل کے نشان پر دعویٰ نہیں کر سکتی۔ نیشنل کانفرنس نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے پھٹکار لگاکر لداخ ہل ڈیولپمنٹ کونسل کے انتخابات کا نوٹیفکیشن منسوخ کرکے نیا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ چانکیہ نیتی کی پہلی شکست تھی۔ اس کے ساتھ سپریم کورٹ نے لداخ انتظامیہ پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔ اس معاملے سرکار کو پہلے ہائی کورٹ ہزیمت اٹھانی پڑی تھی مگر اس نے ہار نہیں مانی اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا مگر وہاں بھی اسے منہ کی کھانی پڑی۔
پانچ صوبوں کے اندر ابھی حال میں جب صوبائی انتخابات کا اعلان کیا گیا تو جموں کشمیر سے متعلق بھی سوال ہوا جہاں پچھلا صوبائی انتخاب 2014میں ہوا تھا اس کو دس سال ہونے والے ہیں۔ اس پر الیکشن کمیشن کا جواب تھا حفاظتی انتظامات کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا کہ انتخابات کرانا ممکن ہے یا نہیں۔ اس جواب میں سرکار کے اس دعویٰ کی تردید موجود ہے کہ جموں کشمیر میں حالات معمول پر آگئے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہے تو انتخابات کیوں نہیں ہوتے؟ بی جے پی نے جموں کشمیر میں اپنا وزیر اعلیٰ بیٹھانےاورملک بھر میں اپنی قوم پرستی کا ڈنکا بجانے کی خاطر 2019 میں آئین کی دفع 370 ختم کردی لیکن کس قدر شرم کی بات ہے کہ ایوان میں ریاست کا درجہ بحال کرکے انتخاب کا وعدہ کرنے والےشکتی مان وزیر داخلہ اس کی ہمت نہیں کرسکے ۔ اس بار بہت محتاط انداز میں لداخ کے تالاب میں پتھر پھینک کر دیکھا گیا کہ کمل کھلتا ہے یا مرجھا جاتا ہے تو اس کے ہاتھ زبردست مایوسی آئی ۔ جملہ 26میں سے 12 نشستیں نیشنل کانفرنس نے جیت لیں اور 10 پر کانگریس نے کامیابی حاصل کی ۔ بی جےپی اور آزادامیدواروں کو دو دو مقامات پر کامیابی ملی ۔ یہ ہے ڈبل انجن سرکار بنانے کا خواب دیکھنے والوں کا حال ۔
انڈیا نامی وفاق کی تشکیل کے بعد یہ پہلا انتخاب تھا جس میں اس نے متحد ہوکر بی جے پی چیتھڑے اڑا دئیے اس لیے کہنا پڑے گا ’آغاز تو اچھا ہے ، انجام خدا جانے ‘ ۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے انتخابی نتائج کے بعد کہا کہ اس میں ان تمام قوتوں اور جماعتوں کے لیے پیغام ہے جنہوں نے غیر جمہوری اور غیر آئینی طور پر ریاست جموں، کشمیر اور لداخ کو اس کے عوام کی رضامندی کے بغیر تقسیم کیا ہے۔ یہ جیت زنسکار، کارگل اور دراس کے لوگوں کی ہے.انہوں نے فیصلہ کن طور پر نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد کی تائید کی ۔ انہوں نے کانگریس پارٹی کی قیادت کے غیر متزلزل حمایت کا بھی شکریہ ادا کیا۔عمر عبداللہ نے امید ظاہر کی کہ یہ نتائج لداخ اور کارگل میں ایک نئی جمہوری صبح کا آغاز کریں گے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد نے کارگل ہل ڈیلوپمنٹ کونسل انتخابات میں تاریخی جیت رقم کی ہے۔انہوں نے کہا کہکانگریس اور نیشنل کانفرنس کے مضبوط اتحاد نے بھارتیہ جنتاپارٹی کو شکست سے دو چار کیا اور اب جموں وکشمیر میں بھی جمہوری طورپر منتخب حکومت کی عوامی جائز خواہش کو تسلیم کیا جانا چاہئے کیونکہ جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ عوام کی آواز سنی جائے اور ان کا احترام کیا جائے۔
2018 کے اندر جب انتخابات ہوئے تھے تو نیشنل کانفرنس نے 10 جبکہ کانگریس نے 8 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ان انتخابات میں بی جے پی صرف ایک سیٹ جیت پائی تھی۔ آگے چل اس نے پی ڈی پی کے دوارکان کو اپنے ساتھ کرکے اپنی تعداد تین پر پہنچا دی ۔ اس وقت ترقی کے ساتھ پارٹی نے شیعہ اکثریتی ضلع کرگل میں رائے دہندگان کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے ’نعرہ حیدری‘ کے نعرے کا بڑھ چڑھ کا استعمال کیا تھا۔ لداخ کی کل 30رکنی کونسل میں سے 26نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں جبکہ باقی 4ممبران کو نامزد کیاجاتا ہے جن میں دو اقلیتی طبقہ اور دو خواتین ممبران شامل ہیں۔2003میں اس کونسل کا قیام عمل میں لایاگیاتھا، جس کے بعد یہ چوتھے انتخابات ہیں۔یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ لداخ جہاں ہندو اقلیت میں ہیں ان کے ریزرویشن موجود اور اس کا خوب فائدہ اٹھایا جاتا ہے لیکن جہاں مسلمان یا عیسائی اقلیت کے لیے ریزرویشن کی بات اکرتے ہیں یہ انکشاف ہو جاتاہے کہ مذہب کی بنیاد پر تحفظ غیر دستوری ہے۔
لداخ کے اندر جہاں انڈیا وفاق نے 26میں سے 22 نشستوں پر کامیابی حاصل کی وہیں بی جے پی 2پر سمٹ گئی۔ سنگھ والے یہ کہہ رہے ہیں کہ پچھلی بار ایک تھی اب 2ہوگئی یعنی سو فیصد اضافہ ہوا لیکن یہ نہیں کہتے کہ پی ڈی پی کے 2؍ ارکان کے بی جے پی میں شامل ہونے سے ان کی تعداد4؍ ہوگئی تھی جو اب گھٹ کر دو پر آگئی یعنی 370 کی مہربانی سے یہ نقصان ہوگیا۔ بی جے پی والوں کی سمجھ میں اب آیا کہ جب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں پھدک رہے تھے تو اس وقت راہل گاندھی موٹر سائیکل سے لیہہ کی سڑک کیوں ناپ رہے تھے ۔ اس وقت ایک کانگریسی ترجمان سے جب اس بابت دریافت کیا گیا تو وہ بولے کہ راہل گاندھی اپنی بھارت یاترا کی تکمیل کررہے تھے ۔ وہ بات غلط تھی اس لیے کہ یاترا کو کنیا کماری سے سرینگر تک ہی جانا تھا سو ہوچکا تھا ۔ وہ دراصل اس انتخاب کی تیاری تھی۔ اس میں شک نہیں کہ لداخ سے صرف ایک رکن پارلیمان منتخب ہوتا ہے جو بی جے پی کا ہے لیکن یہ ایک اصول کی لڑائی تھی ۔ بی جے پی کا دعویٰ غلط نکلا کہ پورا ملک بشمول جموں کشمیر چاہتا تھا کہ آئین کی شق 370 ختم ہو ۔ لداخ کی عوام نے اپنے ووٹ سے یہ ثابت کردیا کہ وہ دعویٰ جھوٹ تھا ۔ اس کے بعد جموں کشمیر کے انتخابات ہوں گے تو پھر ایک بار یہی ہوگا۔ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ جموں کے ہندو بھی بی جے پی کو ایسا زناٹے دار طمانچے ماریں گے کہ اس کی دھمک کنیا کماری تک سنی جائے گی۔
Comments are closed.