وہ سعیٔ کرم فرما بھی گئے، بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

ڈاکٹر سلیم خان
منی پور میں تشدد کے بعد 1800 گھنٹے تک چپیّ سادھے رکھنے والا سنگدل وزیر اعظم چند گھنٹوں تک بھی اسرائیل کا غم برداشت نہیں کر سکا۔ مودی کے صبر کاپیمانہ ایسے چھلکا کہ اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے انہوں نے وزارت خارجہ کے ردعمل کا اظہار بھی نہیں کیا۔ ایکس پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مودی نے لکھا:’ ‘ اسرائیل میں دہشت گردانہ حملوں کی خبر سے شدید صدمہ پہنچا ہے‘۔ اس طرح کا دکھ مودی جی کو منی پور کے تشدد میں مارے جانے والے بے قصوروں کی موت پر نہیں ہوا تھا ۔ اس وقت تو سرکار دربار میں پر اسرار سناٹا چھایا ہوا تھایہاں تک کہ حزب اختلاف کو انہیں چونچ کھولنے پرمجبور کرنے کی خاطر ایوانِ پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنی پڑی ۔ ا س کے بعد جب ناقابل فہم اور ناقابل معافی خاموشی کا قفل ٹوٹا اور گھنٹوں بولنے والے وزیر اعظم نے منی پور پر کل 30 سیکنڈ اظہار خیال کیا۔ اس سفاکانہ بیان میں منی پور کے اندرجاری ذات پات کے تنازعہ کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا تھا۔ اس میں دہشت گردوں کی مذمت یا امن کی اپیل نہیں تھی۔ وزیر اعظم مودی نے منی پور میں جاری تشدد کو دوسری ریاستوں میں خواتین کے خلاف جرائم سے جوڑکر اسےہلکا کرنے کی مذموم کوشش بھی کی تھی۔
اس کے برعکس حماس کے ذریعہ کمال جرأتمندی کے مظاہرے پر وزیر اعظم نے لکھا :’ہمارے خیالات اور دعائیں معصوم متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ ہم اس مشکل گھڑی میں اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں۔’ کاش کہ وزیر اعظم کی اسی طرح کی ہمدردی کا اظہار منی پور کی ان لڑکیوں کے ساتھ بھی کرتے جنہیں سرِ عام برہنہ کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم کی منی پور کے تئیں یہ سرد مہری اور اسرائیل کے حوالے سے گرمجوشی دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس ملک کے سربراہ ہیں؟ ان کو اپنوں کے بجائے پرائے لوگوں کے ساتھ اتنی ہمدردی کیوں ہے؟ منی پور میں ڈبل انجن سرکار کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نےپانچ ماہ بعد بھی اپنی پارٹی کے وزیر اعظم کو فون کرنے کی زحمت نہیں کی مگر اسرائیل کےیاہو کو دہلی میں بیٹھے اپنے کرم فرما کی یاد آگئی اور اس ٹیلی فون کی گفتگو کو فوراً پریس میں ڈال دیا گیا۔ اس سے شک ہوتا ہے کہ کہیں یہ کوئی نورا فون تو نہیں تھا ؟
سبھاش چندر بوس اور بھگت سنگھ کے نام ووٹ مانگنے والے ونائک دامودر ساورکر کے شاگرد وزیراعظم نریندر مودی نے، حماس کی جنگ آزادی کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملہ قرار دے کر مرنے اور زخمی ہونے والوں کے تئیں اظہار تعزیت تو کیا مگر وہ بھول گئے کہ اسرائیل کے جوابی حملے میں کم و بیش اتنے ہی لوگ شہید ہوئے ہیں اور وہ بھی انسان ہیں ۔ مودی نےیک طرفہ ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے عوام اس مشکل وقت میں یکجہتی سے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ہندوستان دہشت گردی کی تمام شکلوں اور قسموں کی سختی کے ساتھ واضح طور پر مذمت کرتا ہے کہنے والے وزیر اعظم کو پتہ ہونا چاہیے کہ 2008 سے ستمبر 2023 تک 6407 فلسطینی اسرائیلی دہشت گردی کا شکار ہوئےہیں اور اس کے ردعمل میں صرف 308؍ اسرائیلیوں کی ہلاکتیں اقوام متحدہ نے درج کی ہیں۔ مودی نے فون کرنے اور موجودہ حالات پر اَپڈیٹ دینے کے لیے بنجامن نیتن یاہو کا شکریہ ادا کیا ۔ یہ حیرت انگیز صورتحال ہے کہ ہزاروں میل دور پردیس سے یاہو تو مودی کو اپنے حالات سے واقف کراتا ہے مگر منی پور کا وزیر اعلیٰ ایسی جرأت نہیں کرتا ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟اس سوال پربھگتوں کو ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا چاہیے ۔
وزیر اعظم جس دن اسرائیلیوں کے لیے ٹسوے بہا رہے تھے اسی روز منی پور سے ایک دل دہلا دینے والی تیس سیکنڈ کی ویڈیو منظر عام پر آئی۔ اس میں 37 سالہ لال جیمس کو زندہ جلایا جانا دیکھاجا سکتا ہے۔ اس کی لاش پانچ ماہ بعد بھی سرکاری سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے۔ منی پور کے تین بڑے ریاستی اسپتالوں میں 96؍ ایسی لاشیں موجود ہیں جن کولینے کے لیےکسی نے رابطہ نہیں کیا۔ وزیر اعظم کیا ان دہشت گردوں کا پتہ لگائیں گے جنھوں نے یہ قتل و غارتگری کی اور ان کے خوف سے مرنے والوں کے رشتے دار لاشیں لے جا نے کی ہمت نہیں جٹا پارہے ہیں؟ سنگھ پریوار کے ان دہشت گردوں کے خلاف نہ کچھ بولا جاتا ہے اور نہ کوئی کارروائی ہوتی ہے۔ منی پور کی ڈبل انجن سرکارجب اس معاملے میں ناکام ہوگئی تو سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ سابق ججوں کی کمیٹی نے مشورہ دیا کہ مرنے والوں کی ایک فہرست عوامی سطح پر جاری کی جائے اور لواحقین کی شناخت کر کے لاشیں ان کے حوالے کر دی جائیں نیز جن لاشوں کے دعویدار سامنے نہ آئیں اُن کی آخری رسومات پورے احترام کے ساتھ ادا کر دی جائیں۔
نسلی تشدد میں ہلاک شدگان کی لاشیں امپھال کے’ریجنل انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ‘ اور ’جواہر لال نہرو انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ نیزچورا چاند پور کے ریجنل میڈیکل کالج میں رکھی ہوئی ہیں۔امپھال وادی میں میتیئی نسلی گروپ کی آبادی کا غلبہ ہے مگراسپتالوں میں کوکیوں کی لاشیں ہیں۔ چوڑا چاندپور کے ضلع میڈیکل میں دونوں گروہوں کی لاشیں ہیں مگر ان میں بھی کوکیوں کی اکثریت ہے۔ فسادات کے بعد چونکہ وہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے علاقوں میں نہیں جا سکتے اس لیے یہ لاشیں بغیر شناخت کے ّپڑی ہیں۔پانچ ماہ بعد بھی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ان لاشوں کی تصویریں اور تفصیلات جاری ہوسکیں ۔ ان لاشوں کے علاوہ 41 کوکی لاپتہ بھی ہیں اور کئی لاشیں جلی ہوئی ہیں جن کی شناخت مشکل ہے۔ میتئی قبائل کی عدم رواداری کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے علاقہ میں کوکیوں کو لاش دفنانے کی اجازت بھی نہیں دے رہے ہیں ۔ اسرائیل کے غمخوار وازیر اعظم نہیں جانتے کہ منی پور میں دومتحارب گروہوں میں بے اعتباری اور نفرتیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ ان کا سکیورٹی فورسز کے تئیں اعتماد بھی ٹوٹ گیا ہے۔میتیئی فوج اور آسام رائفلز پر کوکی قبائل کی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ کوکی ریاستی پولیس اور سکیورٹی فورسز کو میتیئیوں کا ہمدرد مانتے ہیں۔ کوکیوں کے لیے امپھال موت کی ایسی وادی ہےجہاں ان کے رکن اسمبلی کو بھی مارا پیٹا گیا تھا۔ کیامودی اس دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کی مذمت کریں گے؟
اسرائیل کے غم میں دبلانے والے مودی جی کو منی پور کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ ہر ماہ ایک سے زیادہ مرتبہ مدھیہ پردیش اور راجستھان کا دور فرما رہے ہیں تاکہ بی جے پی کو کراری ہار سے بچایا جاسکے ۔ درمیان میں چھتیس گڑھ اور تلنگانہ بھی ہو آتے ہیں کیونکہ وہاں بھی انتخاب ہونے والے ہیں مگر میگھالیہ جانے کی جرأت نہیں کرتے کیونکہ پڑوس میں منی پور ہے۔ چھتیس انچ کی چھاتی والے وزیر اعظم انتخابی ضرورت کے باوجود منی پور تو دور اس کے پڑوسی صوبے میں بھی جانے سے کترا رہے ہیں حالانکہ وہاں کی ریاستی حکومت میں بی جے پی شامل ہے۔دس نومبر کو مودی کی اسرائیلی حمایت کے دن منی پور سے آنے والی دوسری بڑی خبر وزیر اعلیٰ کی یہ تنبیہ ہے کہ دوسروں کے گھروں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔ سوال یہ ہے کہ آخر بیرین سنگھ کو ایسا بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ منی پور جیسی چھوٹی سی ریاست میں تشدد کے سبب 65000 سے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کرکیمپ میں منتقل ہونا پڑا ۔ ان پناہ گزینوں میں سرکاری ملازمین کو حکومت نے دفتر نہ آنے کی صورت میں تنخواہ نہیں دینے کا فیصلہ سنا دیا۔ کیا وہ لوگ پکنک منارہے ہیں؟ ان کے گھریا کیمپ سےدفتر تک پہنچنے کا راستہ محفوظ نہیں ہے ۔ اب ان کے املاک کی تباہی یا قبضے کا خطرہ بھی لاحق ہوگیاہے ۔
فی الحال منی پور کی وادی سے کوکیوں اور پہاڑیوں سے میتیوں کی "مکمل خروج” کی صورتحال بن گئی مگر اسرائیل کے غم میں گھُل رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے ذریعہ نظر انداز کردیئے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے 25 ستمبر بی جےپی کی زیرقیادت ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ تمام مذہبی عمارات بشمول گرجا گھروں، مندروں، مساجد اور کسی بھی دوسرے مذہب کی عمارت کی "فوری طور پر شناخت” کرکے تجاوزات سے محفوظ رکھے اور عمارتوں کو نقصان/تباہی سے بچانے کا حکم دے ۔ ،” ریاستی حکومت کو بے گھر افراد کی املاک کے تحفظ کو "یقینی بنانےکا” حکم دیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں کوتاہی کوتوہین عدالت کا ارتکاب قراردیا۔ مودی جس وقت یاہو سے ٹیلی فون پر بات کررہے تھے منی پور میں ہند-میانمار کے سرحدی شہر مورہ میں روزانہ کرفیو میں نرمی کو منسوخ کر دیا گیا۔ اس سے بے پروا چندن شرما نامی مودی بھگت نے ایکس پر لکھا کہ اگر حکومت ہند حکم دے تو انڈیا کا ایک ایک قوم پرست ہندو اسرائیل جاکر جنگ لڑے گا۔ اسرائیل کے ساتھ 100 کروڑ ہندو ہے۔ انڈیا اسرائیل زندہ آباد۔سوال یہ ہے یہ لوگ گلوان یا ارونا چل پر دیش میں جاکر چین سے کیوں نہیں لڑتے؟ مودی جی اور ان بھگتوں کی جعلی دیش بھگتی کو منی پور اور غزہ نے بے نقاب کردیا ہے۔
Comments are closed.