شادی شدہ زندگی میں بگاڑ کا سبب کیوں اور اس کا حل!

 

علی اشہد اعظمی
دوحہ قطر

شادی کرنا سنت ہے اور شادی کے بعد ہی زندگی کی دوسری اننگ کی شروعات ہوتی ہے انسان کے اوپر ذمہ داری آجاتی ہے مرد اور عورت دونوں کو الگ الگ ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں ازدواجی زندگی میں ایک عورت کا مرد کے تئیں اور ایک مرد کا عورت کے تئیں کیا رویہ ہونا چاہیے اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ،کہا جا تا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور عموماً وہ ہاتھ اس کی بیوی کا ہی تصور کیا جا تا ہے لیکن اگر یہ بھی کہا جا نے لگے کہ ہر کامیابی کی طرف سے ناکامیابی کی طرف جانے والے کے پیچھے بھی ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے جو خصوصاً اس کی بیوی کا ہی ہو تا ہے تو یہ کسی صورت بے جا نہ ہوگا۔ہمارے معاشرے میں جہاں کچھ بیویاں شوہروں کی کامیابی کا سبب بنتی ہیں انہیں سپورٹ کرتی ہیں ان کے دکھ سکھ میں ان کا ساتھ دیتی ہیں وہیں کچھ بیویاں ایک ایسی بیماری کا شکار ہوکر اپنے شوہروں کی زندگی عذاب میں مبتلا کر دیتی ہیں جن کے بعد ترقیاں کی سیڑھی چڑھنا تو درکنار بلکہ اپنے مقام کو بر قرار رکھنا بھی مشکل ہو جا تا ہے اور وہ ہر وقت اپنی بیویوں کی جاسوسی سے بچنے ،ان کے بے جا سوالات،انہیں شکی عادات سے چھٹکارا دلانے کی تدابیر ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔یہ بیماری شک کی بیماری ہے جو ہمارے یہاں بہت سی عورتوں میں پائی جا تی ہے اور کبھی کبھار یہ بیماری ایک لاعلاج مر ض کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے۔شکی بیویاں اپنے شوہروں پر نہ صرف ہر وقت کڑی نظر رکھتی ہیں بلکہ ان کی اچھی عادات کو بھی منفی پیرائے میں دیکھنا اور پر کھنا شروع کر دیتی ہیں۔ اگر ان کے شوہر کسی بیوہ عورت کی مدد کر دیں یا کوئی امدادی کام کریں، کسی خاتون کی تعریف کر یں یا کوئی خاتون ان کی تعریف کرے تو انہیں یہ خدشہ لاحق ہو جا تا ہے کہ ان کے شوہر یہ کام صرف اس لئے کر رہے ہیں کہ انہیں اس عورت میں دلچسپی ہے اور وہ دوسری شادی کے خواہاں ہیں۔انہیں ہرا یک عورت کے حوالے سے یہی خطرہ لاحق رہتا ہے کہ ان کے شوہر ان کی جانب خصوصی متوجہ ہےں اور انہیں ان کی جگہ دے رہے ہیں۔انہیں ان کے شوہرکی محبوبائیں اس کی سیکریٹری، اس کی باس، اپنی پڑوسن اور دیگر ملنے جلنے والی خواتین میں نظر آنے لگتی ہے اور پھر یہی وجہ ہے کہ انہیں ایسا بھی گمان ہو نے لگتا ہے کہ ان کے شوہر اچا نک ان کی جانب سے لا پرواہ ہو گئے ہیں، گھر دیر سے آنے لگے ہیں، کھانا کم کھانے لگے ہیں تو یقیناً باہر سے کھا کر آئے ہونگے وغیرہ وغیرہ۔انہی بوتوں کی وجہ سے وہ اپنے اس شکی مزاج میں مزید پختگی پیدا کر تی چلی جا تی ہیں کہ ان کے شوہر دوسری عورتوں میں دلچسپی لینے لگے ہیں چا ہے ایسا کچھ ہو یا نہ ہو۔
یہ تمام باتیں اس رشتے کو جس نازک مقام پر لے جاتی ہیں وہاں شوہر اور بیوی نہ چا ہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر نے کے خواہش مند ہو جاتے ہیں جو ایک ایسا عمل بن جا تا ہے جس کے بعد حالات بد ست بد تر بنتے چلے جا تے ہیں ابتداءمیں تو ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ سب کو خوشی اور اطمینان دے گا لیکن در حقیقت یہ فیصلہ سب کا سکھ اور چین ختم کر نے کا سبب بن جا تا ہے جہاں شوہر یہ سوچ ر ہا ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس بیوی سے جان چھڑا کر کسی اور اچھی بیوی کا انتخاب کر ے گا وہاں اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے کیونکہ وہ ہر عورت میں اپنی بیوی جیسی ہی خوبیاں تلاش کر تا ہے جو اسے مشکل سے ہی ملتی ہیں جبکہ عورت بعض اوقات ساری زندگی اکیلے ہی گذارنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور بچے در بدر ہو جا تے ہیں نہ ہی ان کی پرورش ہو پا تی ہے نہ ہی وہ ذہنی سکون کے مالک ہو تے ہیں بلکہ اس فیصلے سے ہر ایک کو شدید نقصان اٹھا نا پڑتا ہے۔کسی بھی مشکل کا حل نکالنے کے لئے اس سے مشکل راستہ اختیار کر نا کہیں کی عقل مندی نہیں بلکہ اس مشکل کو کسی آسان اور مذاکراتی طر یقے سے حل کر نا ہی کسی بھی رشتے کی خوبصورتی اور مضبوطی کو واضح کر تا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ اس مسئلے کا حل بھی نکالنے کے لئے طلاق جیسی خطر ناک حد تک نہ جا یا جا ئے جہاں پہنچنے پر ہر ایک ہی اپنی زندگی مشکل میں ڈالتا ہے بلکہ اپنے سے وابستہ لوگوں کو بھی ایک کڑے امتحان میں ڈال دیتا ہے۔بہرکیف حقیقت تو یہی ہے کہ جو عورت اپنے شوہر اور گھر سے محبت رکھتی ہے وہ ہی اسی باتوں میں اور ایسی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی محبت ہر وقت اس خطر ے میں خود کو محسوس کر تی ہے کہ کہیں وہ سب اس سے چھین نہ جائے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی اس کمزوری کو سمجھتے ہوئے انہیں پیار اور محبت سے سمجھائے ان پر غصہ کر نے یا ان کی باتوں پر چیڑنے کے بجائے ان کو یقین دلائیں کہ ان کی زندگی میں اگر کسی کی اہمیت ہے تو وہ صرف وہی ہے جو مجھ سے بہت محبت کرتی ہے میرے گھر کا خیال رکھتی ہے ایسی باتیں نہ صرف بیوی کو اس بیماری سے نکالنے میں بلکہ گھر کے ماحول کو بہتر بنانے اور رشتے کو مضبوط کر نے میں اپنا ایک موثر کردار ادا کر تی ہیں۔شوہروں کو چا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ ہر بات شیئر کریں، انہیں اپنے خطوط پڑھائیں ،انہیں اپنی درازیں چیک کر نے کے مواقع فراہم کریں،انہیں کسی بھی معاملے پر آزادانہ بات اور اظہار کر نے کا حق دیں، انہیں ہر مسئلے اور معاملے سے واقف رکھیں، آفس میں بے جا وقت گذاری سے پر ہیز کریں اپنی بیویوں کو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔انہیں سمجھیں اور انہیں پیار سے سمجھانے کی کوشش کر یں کیونکہ کسی بھی رشتے میں اس چیز کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔جب شوہر اپنی بیویوں کو یہ اہمیت نہیں دیتے ان سے اپنی باتیں اور معاملات چھپاتے ہیں یا ان سے جھوٹ بولتے ہیں تو ان میں یہ شک کر نے کی عادت پیدا ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے نقصان دہ فیصلے کی طرف چلی جاتی ہے جس سے ایک خاندان اور گھر تباہ ہو جا تا ہے۔
جہاں ہم نے شوہروں کو ان کی ذمہ داری اور ان کے کئے جا نے کام یاد دلائے ہیں وہیں ضروری ہے کہ خواتین کو بھی کچھ باتوں سے آگا ہ کیا جا ئے انہیں ان کی زمہ داری اور شوہروں پر موجود ذمہ داری کا احساس دلا یا جائے۔بیویوں کو یہ سوچنا چا ہے کہ اگر ان پر کوئی صرف اپنی سوچ کے مطابق الزامات لگانا شروع کر دیتے ان کی ذات کے ساتھ کسی دوسری ذات کو منسلک کر نے لگیں تو ان پر کیا گذرے گی۔یہی وہ سوچ ہے جو انہیں یہ بتا سکتی ہے کہ اپنے شوہروں کے بارے میں بنا سو چے سمجھے یوں الزامات عائد کر نا کہیں کی عقلمندی نہیں بلکہ معاملا ت کو سمجھنا اور ان کے ہر پہلووں پر غور کر نا بہت ضروری ہے۔خواتین کو چا ہے کہ جب بھی وہ اپنے شوہر وں میں کوئی خامی یا تبدیلی پا ئیں انہیں ایک کاغذ پر تحر یر کرلیں اور اس کے سامنے وہ ممکنہ وجوہات بھی لکھیں جو ایسی صورت میں کسی بھی عام آ دمی کے ساتھ پیش آسکتی ہیں اور پھر فیصلہ کریں اور مثبت پہلوو ¿ں کو سامنے رکھیں۔اگر شوہر دفتر سے گھر دیر سے آر ہا ہے تو یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ دفتروں میں اکثر اوقات کام کی زیادتی اور دباو ¿ کے باعث ایسا ہو سکتا ہے اور اگر وہ اپنا کام محنت اور لگن سے کر رہا ہے تو وہ بھی صرف اس لئے کہ وہ آپ کو اور آپ کے بچوں کو ایک اچھی اور پر سکون زندگی دینا چا ہتاہے۔اگر وہ کسی خاتون کی مدد کر رہا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں بلکہ آپ کو یہ دیکھنا چا ہے کہ آپ کے شوہر انسانی ہمدردی رکھتے ہیں جو ایک اچھا فعل ہے۔اگر شوہر کوئی پرائیوٹ دراز یا ڈائری رکھتا ہے جسے وہ آپ کے ساتھ شیئر نہیں کرتا تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ سے اپنی عشق کی داستا ن چھپا رہا ہے بلکہ بہت سے مرد اپنی چیزوں کو لے کر اسی طرح کی احتیاط بر تتے ہیں اور اسے محفوظ رکھنے کے لئے ایسی دراز یا ڈائری استعما ل کرتے ہیں۔بہرحال اگر ان تمام باتوں کے باوجود بھی کچھ بات ایسی ہے جو آپ کو کسی تشویش میں مبتلا کے ہوئے ہے تو اس کا بہترین حل اسے مل کر بیٹھ کر بات کر نے سے نکالیں ،غصے یا چیخنے چلانے یا اپنی مر ضی سے کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے گریز کریں کیونکہ بہت سی چیزوں کو ہم جس نظریے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ ویسی ہوتی نہیں بلکہ اس بلکل مختلف انداز رکھتی ہیں تو بہتر یہی ہے کہ سامنے والے کا انداز اور نظریہ جاننے کی کوشش کی جائے اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جا ئے۔
بعض خواتین اپنی یہ جاسوسی اور شک دوسروں کے ساتھ بھی شیئر کر تی ہے جس کے باعث انہیں ایسے مشورے اور طر یقے بھی سننے کو ملتے ہیں جو ان کی زندگی کو بر باد کر نے کے لئے کا فی ہوتے ہیں کیونکہ ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا ،آپ کے بہت سے دوست اور رشتہ دار واقعی میں آپ کے خیر خواہ نہیں ہوتے اور جب آپ ان سے اپنے مسائل بیان کرتے ہیں تو اپنی دشمنی نکالنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے اور ان کے یہ مشورے آپ کی زندگی آپ کے حسین رشتے میں تباہی کا سبب بن جا تے ہیں اگر آپ کسی سے کچھ شیئر کر نا ہی چا ہتے ہیں تو اپنے کسی عقلمند خیر خواہ کو ڈھونڈیں۔ “اگر ان تحقیقات، خیرخواہ کی یقین دہانی اور سمجھانے کے باوجود کہ آپ غلط ہیں آپ کو ایسا ہی لگتا ہے کہ آپ کے شوہر کسی اور میں دلچسپی لے رہے ہیں تو آپ یہ مان لیں کہ آپ کو کسی اچھے سائیکولوجسٹ کی ضرورت ہے” آپ ایک بیماری کا شکار ہیں جس کا علاج بہت ضروری ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجو د بھی طلاق یا علیحدگی یا لڑائی جھگڑے کسی بات کا حل نہیں اور یہ آپ کی ہی کی غلطی ہے کہ ٓا پ کے شوہر کسی دوسری عورت کی جانب متوجہ ہوئے کیونکہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب آپ ان کو اس کا موقع اپنے کردار اور افکار سے دیں تو خود پر دھیان دیں ،اپنے طور طریقوں کو شوہر کی پسند اور سمجھ کے مطابق رکھ کر اس کا ساتھ دیں اور پر بے جا شک کے بجائے اعتماد کا اظہار کریں اور پھر اس بات کا اطمینان رکھیں کہ آپ کی یہ تمام خوبیاں اسے کہیں جا نے نہیں دیں گی

Comments are closed.