جمعہ نامہ: مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے : ’’ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر قادر ہے‘‘۔ حماس کے حملے سے اسرائیل کے بہی خواہوں کی تو نیند اڑ ہی گئی ہے مگر فلسطین کے حامی بھی پریشان ہو کر سوال کررہے ہیں کہ آخر اس کی کیا ضرورت تھی ؟ ان میں سے کچھ لوگوں کو اسرائیل کے ردعمل کی فکر ستا رہی ہے اور کچھ تو حماس و نیتن یاہو کے بیچ ساز باز تک پہنچ گئے ہیں ۔ پلوامہ جیسے واقعات کے تناظر میں حماس کے حملےکو دیکھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے پردہ پڑ گیا ہے ۔ وہ حماس کو نہیں جانتے ورنہ ان کو یہ خیال تک نہیں آتا۔ دور دیس میں بیٹھ کر اسرائیلی ردعمل کا قیاس لگا نے والوں سے بہتر اندازہ حماس کو ہے لیکن حریت فکر و عمل کے علمبردار میدانِ عمل کے لوگ ہی یہ فیصلہ کرنے کے حقدار ہیں کہ کب کیا کیا جائے ؟ قرآن حکیم کی اس آیت میں جنگ کے دو جواز پیش کیے گئے ہیں۔ اول تو وہ جنگ کرسکتا ہے جس سے کوئی برسرِ پیکار ہو اور دوسرے جو ظلم کا شکار ہو۔فلسطین کے عوام اور حماس پر یہ دونوں باتیں صادق آتی ہیں۔
آگے والی آیت میں ان مجاہدین کی بابت فرمایا گیا :’’(یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے صرف اس بنا پر ناحق نکالے گئے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)‘‘۔ من وعن یہی صورتحال فلسطینیوں کی ہے۔ وہاں کے لوگوں کا اپنی زمینوں سے بے دخل کیا جانا اور ان کے گھروں پر بمباری کرکے تباہ کرنا ایسے حقائق ہیں کہ جن کا انکار ناممکن ہے۔ ایسے حالات پہلی بار رونما نہیں ہوئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مستقل نہیں رہے تو سوال یہ ہے کہ ان میں تبدیلی کیسے واقع ہوتی ہے؟ آیت کے اگلے حصے میں یہ اسرار کھولا گیا ہے ۔ فرمانِ قرآنی ہے:’’ اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے‘‘۔ اسرائیل کی بابت یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ وہاں کے عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش بیت اللحم میں بھی صہیونیت کے عتاب کا شکارہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حماس کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ ان کی بھی حفاظت کرتی ہے۔ ایسے میں ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ:’’ اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے ‘‘۔
اللہ کا دین اس دنیا میں ظلم و جور کا خاتمہ کرکے عدل و انصاف اور آزادی و مساوات قائم کرنے کے لیے آیا ہے ۔ ایسے میں جو لوگ ان اقدار کو قائم کرنے کی خاطر جنگ و جدال میں اپنے جان و مال کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ان کی سعیٔ جمیل کو خدائے بزرگ و برتر اپنی اور اپنے دین کی مدد قرار دیتا ہے نیز اپنی نصرت و حمایت کی یقین دہانی فرماتا ہے۔ اس کے سا تھ یہ یاد دہانی بھی کی جاتی ہے کہ رب کائنات کسی کا محتاج نہیں بلکہ قوی و عزیز ہے۔ اس دنیا کی آزمائش میں اللہ والوں کو یہ سعادت بخشی جاتی ہے کلمہ حق بلند کریں تاکہ انہیں انعام و اکرام سے نوازہ جائے۔ حق اور باطل کاتصادم ہی وہ انقلابی عمل جس سے حق کوغلبہ عطا کیا جاتا ہے اور بنی نوع انسانی فلاح یاب ہوتی ہے۔اہل حق کو خونخوار بناکر پیش کرنے کا رواج نیا نہیں ہے۔ حماس کے متعلق سارے عالم میں منفی پروپگنڈا زور و شور سے جاری ہے ۔ اس کے برخلاف اللہ کی کتاب گواہی دیتی ہے:’’ (یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے ‘‘۔تاریخ شاہد ہے دنیا میں جب بھی حق کے علمبرداروں کو غلبہ نصیب ہوا عالم انسانیت انہیں فیوض و برکات سے بہرہ مند ہوئی ہے۔
فرمانِ ربانی ہے:’’ جولوگ تم سے جنگ کرتے ہیں تم بھی ان سے راہِ خدا میں جہادکرو اور زیادتی نہ کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔ حماس چونکہ اس حکم کی تائید میں جہاد کررہا ہے اس لیے اس سے زیادتی کا اندیشہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان لوگوں نے اپنے یر غمالیوں سے متعلق اعلان کیا کہ وہ ہمارے لوگوں کے درمیان محفوظ و مامون ہیں یعنی ان کی جان کو اسرائیل کی بے دریغ بمباری کے سوا کسی سے خطرہ نہیں ہے۔ بہت سارے لوگوں کو اسرائیل کے ساتھ طاقت کے موازنہ نے بےچین کردیا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ حماس کے ستائیس ہزار مجاہدین کا مقابلہ کرنے کے لیے کیل کانٹوں سے لیس ایک لاکھ اسرائیلی فوج سرحد پر بھیج دی ہے لیکن یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ اسرائیل کو دورانِ جنگ امریکہ سے مدد لینے کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ یہ حماس کی دوہری فتح ہے کیونکہ اسرائیل کے اندر داخل ہوکر فوجیوں کویرغمال بنا لینا اس کی پہلی کامیابی تھی ۔ ایسی حیرت انگیز کامیابی بھی پہلی بار نہیں ملی ۔پچھلے سال ناٹو کا افغانستان سے نکل بھاگنا لوگ بھول گئے۔ طالبان سے امریکہ کا کیا مقابلہ تھا مگر وہاں بھی اللہ کی یہ سنت نظرآئی کہ : ’’بارہا ایسا ہوا ہے ،ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ زندہ نشانیاں اس لیے ظاہر ہوتی ہیں تاکہ لوگ ان سے سبق لے کربلا خوف و خطر اپنا فرضِ منصبی ادا کریں ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
Comments are closed.