نبی کی اطاعت واتباع، امت کا فریضۂ اولین
فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
صدرآل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
اﷲ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جہاں اپنی کتاب نازل فرمائی ، وہیں اس کی تشریح و توضیح بھی فرمائی ، اور اس کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لئے اپنے پیغمبروں اوررسولوں کوبھیجا ، انبیاء کی حیثیت مرضیاتِ خداوندی کے ترجمان کی ہے ، اور ان کا حق ہے کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور اتباع و پیروی کی جائے ، رسول کی نسبت سے اُمت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے ، رسول بھیجے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید نے صاف طورپر کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اہل ایمان کے لئے سراپا نمونہ ہے ’’ لقد کان لکم فی رسول اﷲ أسوۃ حسنۃ ‘‘ ( الاحزاب : ۲۱) ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی اﷲ کو محبوب رکھنے کا معیار اور خو د اﷲ کے محبوب بننے کا ذریعہ و وسیلہ بھی ہے ۔ ( آلِ عمران : ۳۱)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر آج حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی ہماری اتباع سے چارہ نہ ہوتا ’’ لو أن موسیٰ کان حیا ماوسعہ إلا أن یتبعنی ‘‘ ( مسند احمد : ۳؍۳۸۷) ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و نافرمانی ہی جنت میں داخل ہونے اور اس سے محروم ہونے کی بنیاد ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری پوری اُمت جنت میں داخل ہوگی ، سوائے انکار کرنے والوں کے، لوگوں نے عرض کیا کہ انکار کرنے والے کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے نافرمانی کی اس نے انکار کیا ’’ من أطاعنی دخل الجنۃ ، ومن عصانی فقد ابیٰ‘‘ ( بخاری مع الفتح ، حدیث نمبر : ۷۲۸۰ ) ؛ کیوںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت دراصل اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی خود اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہے ،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا ایک خواب ذکر کرتے ہوئے اس کی تعبیر بیان فرمائی ، اور اس تعبیر میںواضح طورپر بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اﷲ کی اطاعت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اﷲ کی نافرمانی ہے ، ’’ من اطاع محمداً فقد اطاع اﷲ ومن عصیٰ محمداً فقد عصی اﷲ ‘‘ ۔ (بخاری مع الفتح ، حدیث نمبر : ۷۲۸۱)
اتباعِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پہلو فکری اعتبار سے ’’ حدیث ‘‘ کو حجت و دلیل تسلیم کرنا ہے ، قرآن کو ہدایت کے لئے کافی سمجھنا اور اتباع قرآن کے نام پر حدیث کا انکار کرجانا نہایت ہی سنگین قسم کی گمراہی ہے ، حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایسا نہ ہو کہ میں تم میں سے کسی کو اپنی مسہری پر ٹیک لیا ہوا پاؤں کہ جب اس کے پاس میرا کوئی حکم یا میری کوئی ممانعت آئے تو کہے کہ مجھے یہ نہیں معلوم ، ہم تو اس کی پیروی کرتے ہیں جو کتاب اﷲ میں ہے ، ’’ ما وجدناہ فی کتاب اﷲ إتبعناہ ‘‘ ( ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۴۰۶۵ ) اسی طرح حدیث کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے لئے انسان اپنی عقل کوتاہ کو پیمانہ بنائے؛ بلکہ جب بھی کوئی بات حدیث کے ذریعہ پہنچے اسے سرمۂ چشم بنائے ، اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ دین کی بنیاد رائے پر ہوتی تو موزے کے نیچے کے حصہ کا مسح قابل ترجیح ہوتا بمقابلہ اوپر کے حصہ کے ؛ لیکن میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے ( ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۱۶۲ ) ، کیوںکہ انسان کا علم اور اس کی عقل کوتاہ ہے اور رسول کے علم کا ماخذ اور سرچشمہ علم الٰہی ہے ، جس میں نقص اور کوتاہی کا کوئی امکان نہیں !
اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پہلو یہ ہے کہ زندگی کے تمام مسائل میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے طور و طریق کے مطابق عمل کیا جائے ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُصولی طورپر بھی اس کی ترغیب دی کہ میرے طریقہ کو اختیار کرو ’’ علیکم بسنتی‘‘ ( ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۴۰۶۷) ، اور مختلف مسائل کے بارے میں بھی اس کی تلقین فرمائی ؛ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جیسے تم مجھے نماز پڑھتے دیکھو اسی طرح نماز پڑھو ’’ صلوا کما رأیتمونی أصلی ‘‘ ( بخاری مع الفتح ، حدیث نمبر : ۶۰۰۸ ) ، یا جیسے حج کے بارے میں فرمایا کہ شاید پھر اس کے بعد میں حج نہ کرسکوں ، اس لئے مجھ سے طریقۂ حج سیکھ لو ، ’’ لتاخذوا مناسککم ‘‘ ( مسلم ، حدیث نمبر : ۱۲۹۷) ، ائمہ مجتہدین اور فقہاء ومحدثین نے جو محنتیں کی ہیں ، ان کا ماحصل یہی ہے کہ انھوں نے اپنی جستجو و تحقیق کے مطابق سنت ِنبوی کو دریافت کرنے اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے ، اور جو اختلاف رائے واقع ہوا ہے ، وہ سنت کے مقابلہ اپنی رائے کی اتباع نہیں ہے ، بلکہ بعض افعال میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ طریقے منقول ہیں ، فقہاء نے اپنے ذوق اور تحقیق کے مطابق ان میں سے کسی ایک طریقہ کو اختیار کیا ہے ، اس لئے یہ اختلاف بھی اتباعِ سنت کے دائرہ میں ہی ہے نہ کہ اس سے باہر ۔
اتباعِ سنت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کہ معاملات و اخلاق اور زندگی کے دوسرے مسائل میں بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو اختیار کیاجائے ، صحابہ کے جذبۂ اتباع کا حال یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کوئی فعل طبعی طورپر ثابت ہوتا تو اس کی بھی اتباع کرنے کی کوشش کرتے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سواری پر سوار ہونے کے بعدسواری کی دُعاء پڑھی اور دُعا پوری ہونے کے بعد ہنسنے لگے ، دریافت کیا گیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہنسنے کا باعث کیا ہوا ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ اس موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہنسے تھے ( ترمذی ، حدیث نمبر : ۳۱۴۶) ، حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بخاری میں طویل روایت منقول ہے ، اس کا حاصل یہ ہے کہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ان تما م مقامات پر اُتر اُتر کر نماز ادا کرتے تھے ، جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دورانِ سفر نماز ادا فرمائی تھی ۔
گو سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت مقصود نہ ہوتی ؛ لیکن بظاہر احترام سنت کے خلاف کوئی عمل محسوس ہوتا تو یہ بات بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برداشت نہ ہوتی ، عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے ، کہ اگر تمہاری عورتیں مسجد جانا چاہیں تو تم انھیں نہ روکو، ان کے صاحبزادے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے کہ لیکن ہم تو انھیں روکیں گے ، بلال کا مقصد حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہیں تھی ؛ بلکہ مقصود یہ تھا کہ اخلاقی حالات میں جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے ، اس کے پیش نظر میں مسجد جانے سے منع کروں گا ؛ لیکن حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سخت ناراض ہوئے اور راوی کہتے ہیں کہ اس بات پر انھیں اتنا برا بھلا کہا کہ اتنا برا بھلا کہتے ہوئے انھیں کبھی نہیں دیکھا گیا ( مسلم ، حدیث نمبر : ۱۲۵۹) ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا ، امام ابویوسفؒ نے اپنے صاحبزادے سے نقل کیا ، انھوں نے کہا کہ مجھے کدو زیادہ پسند نہیں ہے؛ حالاںکہ اس کا تعلق طبعی پسند و ناپسند سے ہے ؛ لیکن پھر بھی امام ابویوسفؒ کو یہ بات پسند نہ آئی اور ان سے گفتگو کرنا چھوڑ دیا ۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے عمل کرنے کے لئے یہ بات کافی ہوتی تھی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عمل کیا ہو ، حصرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں سونے کی انگوٹھی بنائی ، لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنائی ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حرام ہونے کا اعلان فرمایا اور اپنی انگوٹھی پھینک دی تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں ( بخاری مع الفتح ، حدیث نمبر : ۷۲۹۸) ، اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو احساس تھا کہ یہ صلح اہل مکہ کے حق میں ہورہی ہے ، اور مسلمانوں کو گر کر صلح کرنی پڑرہی ہے ، اس لئے صحابہ رضی اللہ عنہم احرام کھولنے اور سرمنڈانے کو تیار نہیں تھے ، ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مشورے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیمہ سے باہر نکلے ،قربانی فرمائی اور بال منڈایا ، یہ دیکھتے ہی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی اپنے بال منڈا لئے ۔ ( بخاری مع الفتح ، حدیث نمبر : ۲۷۳۱)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کااس قدر لحاظ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معمولی سی ناگواری ان کو متنبہ کرنے کے لئے کافی ہوتی تھی ، حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے جسم پر کسم کے رنگ کی ایک چادر تھی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کسی قدر ناگواری کا اظہار فرمایا ، گھر واپس آئے تو چولہا سلگا ہوا تھا؛ چنانچہ اسی چولہے میں چادر ڈال دی ، دوسرے روز حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عورتوں کو دے دیا ہوتا ، کیوںکہ ان کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں ( ابوداؤد : کتاب اللباس ، حدیث نمبر : ۴۰۶۸) ، ایک انصاری کے مکان کے پاس گذر ہوا جنھوں نے اونچا گنبد نما حجرہ بنا رکھا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ مکان کس کا ہے ؟ لوگوں نے ان انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا ، پھر جب وہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یک گونہ بے رخی برتی ، دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے وجہ دریافت کی ، معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی گنبد نما تعمیر کی وجہ سے گرانی ہوئی ہے ، وہ گھر گئے ، اس عمارت کو ڈھاکر زمین کے برابر کردیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر بھی نہیں کیا ، اتفاق سے چند دنوں بعد پھر وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وہ گنبد والی تعمیر نہیں دیکھی تو وجہ دریافت کی ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے صورتِ حال عرض کردی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ضرورت و مجبوری کی تعمیر کے علاوہ ہر تعمیر آدمی کے لئے وبال ہے ۔ ( ابن ماجہ : ابواب الزہد ، باب فی البناء والخراب، حدیث نمبر : ۴۱۶۱)
اس طرح کی کتنی ہی مثالیں صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی میں موجود ہیں ، لیکن آج مسلمانوں کی صورتِ حال کیا ہے ؟ زندگی کے ہر شعبہ میں سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن ہمارے ہاتھوں سے چھوٹا ہوا ہے ، ہماری زبان حب نبی کے دعوی سے سرشار ہے ؛ مگر ہماری عملی زندگی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طاعت و اتباع سے خالی ہے ، ہماری عبادتیں بے روح ہیں ، ہماری اخلاقی پستی غیر مسلم معاشرہ کو بھی شرمندہ کرتی ہے ، معاملات میں ہم اس قدر کھوئے اور حلال و حرام کی سرحدوں سے بے پرواہ ہیں ، دوسری قومیں ہم سے معاملات کرنے میں تأمل کرتی ہیں ، غرض ہمارا دین کتابوں میں ہے نہ کہ ہماری زندگی میں ، قول و فعل کا یہی تضاد دوسری قوموں کے دامن اسلام میں آنے سے رکاوٹ بنا ہوا ہے ، اس لئے اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ ہم عملی طورپر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا راستہ اختیار کریں اور دوسری قوموں کی اتباع اور ان کی نقل سے اپنے آپ کو بچائیں !
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.