سود حرام کیوں؟

عنیزہ اشرف (ٹیکسلا)
سود حرام کیوں؟ یہ سوال اکثر لوگوں کے ذہنوں میں جنم لیتا ہے، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں سود کی کتنی شدت سے مذمت کی گئی ہے وہیں کچھ لوگ اس بات کی تردید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ پوچھتے ہیں۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ، *اسلام کے احکامات عقل کے مطابق ہیں اور مختلف حکمتیں ہر حکم میں موجود ہیں۔ ان حکمتوں میں کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کا دارومدار تو نہیں لیکن بعض اوقات حکمتوں کے معلوم ہونے سے عمل میں آسانی ہوجاتی ہے۔*
دور حاضر میں جہاں غربت و افلاس عروج پر ہے اس کی بڑی وجہ سودی نظام ہے جس کی وجہ سے غریب دن بدن غریب تر اور امیر امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ سود کے ذریعہ سے ایک شخص کچھ مال بغیر محنت کے حاصل کرتا ہے۔ اس طرح مسلمان بھائی کو قرض دے کر اس سے تعاون کا طریقہ ختم ہوجاتا ہے اور سودی لین دین کی وجہ سے امیر کمزور اور غریب لوگوں سے زیادہ مال حاصل کرتا ہے جبکہ اللہ تعالٰی نے غریبوں کو مال دینے کی تاکید فرمائی ہے۔
سود کو عربی زبان میں "ربا” کہتے ہیں، جس کے لغوی معنی بڑھانا، اضافہ کرنا اور بلند کرنا کے ہیں۔ اور شریعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے: "قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کیلی ( ناپ کر بیچی جانے والی) یا وزنی ( تول کر بیچی جانے والی) چیز کے تبادلے میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہے۔” مثلاً رقم کے عوض رقم لینا، جیسے سو روپے قرض دیا اور دیتے وقت یہ شرط رکھی کہ واپس سو سے زائد دینے ہوں گے، یا قرض دے کر اس سے مزید کوئی فائدہ لینا۔
سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفادپرستی، حرص، خود غرضی، سنگ دلی جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں، بلکہ معاشی و اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید میں سود سے منع کیا گیا ہے: *ترجمہ ” اے ایمان والو سود مت کھاؤ (یعنی مت لو اصل سے) کئی حصے زائد (کرکے) اور اللہ سے ڈرو امید ہے کہ تم کامیاب ہوگے۔” (سورة آل عمران، آیة 130)*
نیز شریعت نے نہ صرف اسے حرام قرار دیا ہے، بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے، قرآن پاک میں ہے *ترجمہ: "اور جو لوگ سود کھاتے ہیں نہیں کھڑے ہوں گے (قیامت کے دن) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان لپٹ گیا ہو( یعنی حیران و مدہوش) یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے۔ پھر جس شخص کو اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا (لینا) وہ اسی کا رہا اور (باطنی) معاملہ اس کا خدا کے حوالے رہا اور جو پھر اس سے تجاوز کرے تو یہ لوگ دوزخ میں جائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔” (القرآن)*
اگرچہ بظاہر تو لگتا ہے کہ سود سے ہمارے مال میں اضافہ ہورہا ہے لیکن درحقیقت سود مال میں نقصان، بے برکتی اور ناگہانی آفات کا باعث بنتا ہے۔ *قرآن پاک میں ہے ترجمہ: "اللہ تعالٰی سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ تعالٰی پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو (اور) کسی گناہ کے کام کرنے والے کو۔” (سورة البقرہ، آیة: 276)*
انہی باطنی نقصان اور معاشی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے اللہ نے سود کو حرام قرار دیا ہے۔ جو لوگ اس ممانعت کے بعد بھی سود جیسے قبیح عمل کرتے ہیں ان کے اس عمل پر قہر و غضب کے اظہار کے لیے اللہ تعالٰی نے اس عمل کو خالق کائنات اور رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔
شریعت نے ہر انسان کو مکلف بنایا ہے کہ وہ جائز و حلال طریقہ سے مال کمائے، کیونکہ کل قیامت کے دن ہر شخص نے اللہ تعالٰی کو مال کے متعلق جواب دینا ہوگا کہ مال کہاں سے کمایا، کہاں خرچ کیا، مال سے متعلق حقوق العباد اور حقوق اللہ میں کوتاہی تو نہیں کی۔
مال کے نعمت اور ضرورت ہونے کے باوجود اللہ نے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مال کو متعدد مرتبہ فتنہ، دھوکے کا سامان اور دنیاوی زینت کی چیز قرار دی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مال و دولت حاصل کرنی کی کوشش ہی نہ کریں۔ ہمیں مال حاصل کرنا چاہیے لیکن حلال اور جائز طریقہ سے، کیونکہ حلال مال جمع کرنا اور اس سے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرنا خود دین ہے۔
بعض لوگ تجارت اور سود میں فرق نہیں کرپاتے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تجارت اور سود میں ایک بال برابر فرق ہے جیسے کوئی شخص ایک کلو اچھی کھجوریں دے کر دوسرے شخص سے کہے کہ مجھے اس اچھی کھجوروں کے بدلے دو کلو ردی کھجوریں دے دو تو یہ سود ہوگا اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ شخص عمدہ کھجور بازار میں جاکر بیچے پھر جو اس سے رقم ملے تو جاکر دوکلو ردی کھجور خرید لے اسلام نے اس عمل کو درست قرار دیا ہے۔
آج ہم مال حاصل کرنے کی چاہت میں اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ ہم اس بات کا اہتمام ہی نہیں کرتے کہ یہ مال حلال وسائل سے آرہا ہے یا حرام وسائل سے، بلکہ کچھ لوگوں نے تو اب سود کو مختلف نام دے کر اپنے لیے جائز سمجھنا شروع کردیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو بڑے بڑے گناہ عام ہوتے جارہے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ سود ہے۔
سودی نظام کی وجہ سے ہماری معشیت تباہ ہوچکی ہے، لوگو میں انسانیت اور ہمدردی کا جذبہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ سود پر رقم لیے والو کو اگر نقصان ہوجائے تو تب بھی سود خور اپنا سود چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات سود پر قرض لینے والے کی تمام کمائی، وسائل، یہاں تک کہ گھر اور گھر میں موجود ضروریات زندگی بھی بک جاتی ہیں، لیکن سود خور کی شقاوت و سنگ دلی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اسے صرف اپنے نفع سے غرض ہوتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود بھی سودی کاروبار اور لین دین سے بچیں اور معاشرے اور ملک سے سودی نظام کے خاتمے کی لیے بھرپور جدو جہد کریں، جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو جماعتیں اسلامی نظام کے قیام کے لیے انقلابی جدو جہد کررہی ہیں ان میں شمولیت اختیار کریں اور ان کی نصرت و اعانت میں اس بدترین گناہ کے استیصال کی کوشش کرنے والے بن جائیں۔
Comments are closed.