اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست

ڈاکٹر محمد احمد چشتی
اسرائیل مغربی ایشیاء کا یہودی جمہوریہ ملک ہے جسکا قیام 14مئی 1948 کو ہوا۔اسرائیل کے سفارتی تعلقات 157 ممالک کیساتھ ہیں اور 100 سے زیادہ سفارتی مشن بھی دنیا بھر میں موجود ہیں۔اسرائیل دنیا کی 43ویں بڑی معیشت ہے۔اسرائیل کا کل رقبہ 20770مربع کلومیٹر ہے جبکہ اسرا?یل فلسطین،شام،مصر اور اردن کے کچھ علاقوں پر قابض ہے جن کا رقبہ 7000مربع کلومیٹر ہے۔ اسرائیل کی کل آبادی 95لاکھ ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہولوکاسٹ سے ڈر کر پوری دنیا کے یہودی بھاگ کر فلسطین اکٹھے ہوئے تو یہاں کا امن خراب ہونے لگا۔اسوقت فلسطین سمیت یہ علاقے برطانیہ کے زیر تسلط تھے۔ عرب و یہودی کشیدگی کی وجہ سے اقوام متحدہ نے 1947 میں برطانیہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرے۔ برطانیہ یہ تقسیم کیئے بغیر ہی فلسطین سے نکل گیا اور پھر 14مئی 1948 کو اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے علیحدہ ملک اسرائیل کا اعلان کر دیا۔عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنے س انکار کر دیا۔ عرب ممالک اور اسرائیل میں جنگ چھڑ گئی۔ ایک سال بعد جنگ بندی کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا اور غزہ کے کچھ حصے پر اردن،مصر اور اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ 1967 میں ایک بار پھر جنگ ہوئی اور اسرائیل نے غزہ سمیت فلسطین کے بیشتر علاقے پر قبضہ کر لیا اور یہودیوں کی آباد کاری شروع کر دی گئی۔ 2005 میں ایک معائدے کے تحت اسرائیل نے غزہ کا کچھ علاقہ چھوڑا۔
اقوام متحدہ نے یروشلم کو بین الاقوامی شہر قرار دیکر اسرائیل و فلسطین جنگ کا ہمیشہ کیلئے آغاز کر دیا۔ یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہو گی کیونکہ یہودی سمجھتے ہیںکہ موجودہ مسجد اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی تھا اور انکا مقدس تابوت سکینہ اسی ہیکل میں رکھا گیا تھا۔
تابوت سکینہ کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کو دیا گیا اور ان سے حضرت داؤد علیہ السلام تک پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ صندوق حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس تھا تو اس میں لوح قرآنی اور موسیٰ علیہ السلام کا عصا بھی تھا، اور تورات، کوہ سینا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تختیاں، اور وہ برتن بھی تھا جس میں آسمانوں سے من و سلویٰ اترا کرتا تھا۔ اسرائیلی تابوت سکینہ کو اپنے قبلہ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔
تاریخ کی کتابوں کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام نے تابوت سکینہ کے تحفظ کیلئے ایک مضبوط عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ عمارت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں مکمل ہوئی اور اسے ہیکلِ سلیمانی کا نام دیا گیا۔ اہل بابل اپنے حملے کے بعد تابوت سکینہ کو اپنے ساتھ لے گئے اور ہیکل کو مکمل تباہ کر دیا گیا۔یہودی تب سے تابوت سکینہ کی تلاش میں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جب یہ تابوت یہودیوں کو مل جائے گا تو وہ پوری دنیا پر حکومت کریں گے۔
جبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول بھی مسجد اقصی ہے اور واقعہ معراج میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارے انبیاء کی یہاں امامت کرائی اور یہاں سے عرش پر روانہ ہوئے۔ اسی لیئے دونوں ممالک سمیت پوری دنیا کے یہودیوں اور مسلمانوں کیلئے یروشلم اہم شہر ہے۔اسکے علاوہ مسیحی بھی یروشلم کو اپنا مقدس مقام مانتے ہیں اور انکا ماننا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو یروشلم میں موجود چرچ میں صلیب والا معاملہ پیش آیا تھا۔
یہودی موجودہ مسجد اقصی کو گرا کر پھر سے ہیکل تعمیر کرنا چاہتے ہیں جبکہ آج تک دلیل سے یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ ہیکل سلیمانی واقعی اسی جگہ پر تھا۔
حماس ایک تنظیم ہے جسکی بنیاد 1987 میں رکھی گ?ی اور تب سے حماس اسرائیل کیساتھ بیشتر لڑا?یاں لڑ چکی ہے۔ حماس کی اکثریت غزہ میں ہے اور غزہ فلسطین کا ایک بڑا شہر ہے جسکی آبادی 20 لاکھ ہے۔
چونکہ اسرائیل نے یروشلم پر مکمل قبضہ کر رکھا ہے اور یروشلم میں مسجد اقصی تک مسلمانوں کو رسائی نہیں دی جاتی اور یہی بات کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ بنتی ہے۔ اسرائیل عالمی طور پر دہشتگردی کرتے ہوئے ہمیشہ فلسطین اور ہمسایہ عرب ممالک میں قتل عام کر چکا ہے۔ اگر یروشلم مسئلہ حل نہ کیا گیا تو یہ جنگیں کبھی ختم نہیں ہوں گی اور لاکھوں مزید بیگناہ جانیں جاتی رہیں گی۔ اسلامی ممالک کو مشترکہ و متفقہ طور پر فلسطین مسئلے کے حل کیلئے حکمت عملی بنانی چاہیئے۔ یہودی شریر ہیں اور وہ مسجد اقصی گرانا چاہتے ہیں اور یہی بات جنگ کی وجہ بنتی ہے۔ اگر وہ مسجد اقصی مسلمانوں کے حوالے کر دیں اور ہیکل کسی اور جگہ تعمیر کریں تو جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
Comments are closed.