کمنڈل پر منڈل کی ضربِ کاری

 

ڈاکٹر سلیم خان

فلسطین کی بابت گاندھی جی سے لے کر اٹل جی تک سارے لوگ غاصبوں کے خلاف تھے مگر مودی جی ظالموں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ مسلمانانِ ہند اس سے غمگین ہیں لیکن ان کے پاس آئندہ سال حکومتِ وقت اس کی سزا دینے کا موقع ہے۔ اگلے قومی انتخاب مودی سرکار کو سب سے بڑا خطرہ ذات پات کی مردم شماری سے ہے کیونکہ علاقائی جماعتیں تو پہلے ہی اس کا مطالبہ کررہی تھیں مگر اب انہیں کانگریس  کا ساتھ بھی مل گیا ہے۔  یہ دلچسپ سچائی ہے کہ  1881ءمیں پہلی بار انگریزوں نے مردم شماری کرائی تو اس میں ذات کا بھی اندراج تھا۔ یہ سلسلہ ہر دس سال میں 1931 تک جاری  رہا۔  1941 میں جو مردم شماری ہوئی مگر اس کے اعدادو شمار منکشف نہیں کیے گئے۔ آزادی  کے بعد 1951میں جو مردم شماری     ہوئی اس میں درج ذیل ذات یعنی دلت اور قبائل کی معلومات حاصل کی گئی کیونکہ انہیں ریزرویشن دینا ایک آئینی مجبوری   تھی مگر  دیگر ذاتوں پر پردہ ڈال دیا گیا۔

  آئین ساز کمیٹی میں موجود پنڈت جواہر لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل ، ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر اور مولانا ابوالکلام آزاد  جیسے معمر رہنماچونکہ  ہندوستانی سماج سے ذات پات کے نظام کو پوری طرح ختم کرنا چاہتے اس لیے ان کی یہ متفقہ رائے تھی کہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری سے سماج تقسیم ہوگا اور نسلی  بید بھاو کے نظام کو تقویت ملے گی ۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا خیال تھا کہ دس سال تک ریزرویشن دینے کے بعد دلت سماج اور پسماندہ قبائل بھی تعلیمی ، معاشی اور سیاسی سطح پر دیگر  سماج کے برابر ہوجائیں گے۔    اس زمانے میں چونکہ عالمی سطح پر اشتراکیت کا غلبہ تھا اور پنڈت نہرو خود اس کے دلدادہ تھے اس لیے انہیں امید رہی ہوگی کہ ذات کے بجائے طبقہ واری کشمکش سماجی تفاوت کا خاتمہ کردے گی  مگر اصلاح  کا یہ  خواب  شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا ۔ وقت کے ساتھ  نام نہاد اونچی ذاتوں  کی سیاسی و سماجی برتری کے خلاف  غم و غصہ بڑھنے لگا ۔

 اترپردیش کے اندر رام منوہر لوہیا     اور بہار میں کرپوری ٹھاکر جیسے رہنماوں نے اس کے خلاف  پوری قوت سے صدائے احتجاج بلند کی پسماندہ ذاتو ں کو منظم کرنے کی کوشش کی۔  اپنی موت سے قبل  1967میں رام منوہر لوہیا اترپردیش میں کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرکے چودھری چرن سنگھ کو وزیر اعلیٰ بنانے میں کامیاب  ہوگئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب سنگھ نے اقتدار کے گلیارے میں جگہ ملی تھی ۔ یہ بھی  حسن اتفاق ہے کہ اس وقت منڈل اور کمنڈل کے علمبردار  اپنے سارے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر سیاسی مفاد کی خاطر ساتھ  آگئے تھے۔   اس طرح  دو مرتبہ سابق کانگریسی  چودھری چرن سنگھ کبھی کانگریس کے خلاف تو کبھی اس کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بنے ۔ یہاں تک کہ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگا دی ۔ اس کے بعد جب مرارجی دیسائی نے مرکز میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تو اس وقت تک ذات پات کی بنیاد پر قائم ہونے والی  علاقائی جماعتیں اس قدر طاقتور ہوچکی تھیں کہ  ان کے دباو میں مرکز ی حکومت کو دیگر پسماندہ طبقات  کی معاشی، تعلیمی اور سیاسی نمائندگی کا اندازہ لگانے کی خاطر منڈل کمیشن کے قیام کا فیصلہ کرنا پڑا۔ یہ ہندوستان کی مروجہ سیاست کے اندر ایک انقلابی  اقدام تھا ۔

منڈل کمیشن  کی رپورٹ ایک سال میں تیار تو  ہوگئی مگر پھر کانگریس نے چودھری چرن سنگھ کی حمایت کرکے مرارجی کی سرکار گرادی ۔ اقتدار کی  تبدیلی نے  منڈل کی رپورٹ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ۔ کانگریس  انتخاب جیت  گئی تو  اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے دورِ اقتدار میں کمیشن کی  رپورٹ دھول چاٹتی رہی ۔ دس سال کے بعد جب تاریخ نے پلٹا کھایا توپھر ایک بار منڈل اور کمنڈل کے علمبردار ایک ساتھ آگئے ۔ سابق کانگریسی وشو ناتھ پرتاپ سنگھ کی حکومت کو بیک وقت بی جے پی اور اشتراکیوں کی  بیرونی  حمایت حاصل تھی۔    وی پی  سنگھ پر جنتا دل کے اندرموجود حریف  دیوی لال اور ، ملائم سنگھ یادو یا  لالو پرشاد یادو جیسے ابھرتی ہوئی قیادت کا  دباو تھا۔ اس پر قابو پانے کے لیے انہوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔  یہ ایک ایسا زخم تھا جس سے بی جے پی بلبلا اٹھی۔ اسی کے ایماء پر ملک بھر میں اس کے خلاف نام نہاد اونچی ذات کے طلبا نے احتجاج شروع کردیا ۔ دہلی کے اندر ایک طالب علم کو زندہ جلا کر اس کو خود سوزی کا نام دیا گیا ۔    ملک بھر میں ہنگامہ مچ گیا۔

بی جے پی  کےسابق  صدر لال کرشن اڈوانی نے حکومت کی حمایت واپس لیتے ہوئے وزیر اعظم کو اپنے خط میں لکھا  تھا کہ آپ نے تو ہمارے لیے کوئی  راستہ ہی نہیں چھوڑا ۔ اس کے بعد پھر  سرکار گر ی   کانگریس کی مدد سے چندر شیکھر وزیر اعظم بنے لیکن بالآخر  نرسمھا راو کے پاس اقتدار آگیا  ۔    اس طرح منڈل کمیشن  کی سفارشات  دوبارہ  ٹھنڈے بستے میں چلی گئیں۔ رام مندر کی تحریک پہلے وشو ہندو پریشد کا پروجکٹ تھا   اور بی جے پی کو اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے منڈل کے خلاف کمنڈل تھام کر رام مندر تحریک کو پوری طرح اپنا لیا۔ اڈوانی کی رام رتھ یاترا دراصل منڈل کا توڑ تھی۔ اسی کے ساتھ  بہوجن سماج پارٹی کے رہنما کانشی رام نے اترپردیش میں اپنی جڑیں مضبوط کرکے کانگریس کے دلت رائے دہندگان کو اغواءکرلیا تھا۔ بابری  مسجد کے حوالے سے نرسمھا راو   کی سرد مہری نے اتر پردیش کے مسلمانوں کو کانگریس کے خلاف  سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی میں منقسم کردیا تھا۔ ملک بھر کا مسلمان کانگریس اور بی جے پی  کا متبادل تلاش کررہا تھا۔ 

اس سیاسی تناظر میں  نرسمھا راو انتخاب ہار گئے اور بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری مگر اٹل جی کی سرکار اعتماد کا ووٹ حاصل کیے بغیر تیرہ دن میں گر گئی ۔ کانگریس نے اپنی حمایت سے  دیوے گوڑا اور اندرا کمار گجرال وزیر اعظم بنوایا  ۔ یہ سانجھے کی ہانڈی پھوٹی تو  اس کا فائدہ اٹھا کر کانگریس تو اقتدار میں نہیں آسکی مگر بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی کو دوسری بار  وزیر اعظم بننے کا موقع مل گیا ۔  جئے للیتا کی حمایت واپس لینے سے یہ سرکار تیرہ ماہ بعد گری تو  اٹل جی نے کارگل کی تصویر دِ کھا کر پھر انتخاب جیت لیا ۔ این ڈی اے  کی  مخلوط حکومت  میں چونکہ   جارج فرنانڈیس ، نتیش کمار، ممتا بنرجی  اور رام ولاس پاسوان  جیسے لوگ  حکومت میں شامل تھے اس لیے اٹل اور اڈوانی کی جوڑی مودی اور شاہ کی مانند کھلا کھیل فرخ آبادی نہیں کھیل سکی۔ اس دوران کمنڈل  اور منڈل  دونوں  سیاسی ایجنڈے سے غائب تھے۔   اٹل جی کا شائننگ انڈیا  انہیں چوتھی  بار وزیر اعظم  نہیں بنا سکا  اور2004 میں سونیا گاندھی نے کانگریس کو سب سے بڑی پارٹی بنادیا اور  منموہن سنگھ کی مخلوط حکومت عالمِ وجود میں آگئی۔ اس سرکار کے اندر ملائم سنگھ یادو اور لالو پرشاد یادو طاقتور وزراء تھے ۔ اس لیے 2010 میں ان رہنماوں نے منڈل کمیشن کے نفاذ کی خاطر ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کا مطالبہ کیا۔  اس مرحلے میں کانگریس کے پسماندہ رہنما بھی حمایت میں اٹھ کھڑےتھے  اور منموہن سنگھ  بھی تیار ہوگئے کیونکہ جن  نام نہاد اونچی ذات کی ناراضی  کا خطرہ پہلے  تھا وہ اب ختم ہو چکاتھا۔ اترپردیش کےبرہمن بہوجن سماج پارٹی اور بی جے پی میں بنٹ گئے تھے اور راجپوت و بنیا تو ہمیشہ ہی کمل کے ساتھ رہتے تھے۔

  منموہن سرکار نے 2011 میں سماجی و معاشی ذاتوں کی مردم شماری کا فیصلہ کیا ۔4 ہزار 389 روپئے کے بجٹ سے 2013 میں یہ کام پورا ہوا مگر اس کو پیش کرنے سے قبل 2014 میں بی جے پی کو اپنے بل پر حکومت قائم کرنے کا موقع مل گیا۔  اس کے باوجود  2015 میں بہار اسمبلی انتخاب سے قبل سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ایک پریس کانفرنس میں اس رپورٹ کے اعدادوشمار جاری کرنے وعدہ کیا جو آگے چل کر ایک سیاسی جملہ ثا بت ہوا۔ 2016 میں مودی سرکار نے ذاتوں کے اعدادو شمار کے علاوہ رپورٹ کو جاری کیا کیونکہ پلاننگ کمیشن  کے سربراہ کی قیادت میں جس کمیٹی کو جائزہ لینا تھا اس میں ارکان کا تقرر ہی نہیں ہوا۔ اب  مودی سرکار نے نیا بہانہ تلاش کرلیا  تھا۔ اس کے مطابق 1931 کے اندر ملک میں جملہ 4,147 ذاتیں تھیں مگر نئی رپورٹ میں  46 لاکھ ہوگئی ہیں جو ناممکن ہے۔ اس لیے یہ اعدادوشمار خامیوں سے پُر ہے اور اس کی بنیاد پر ریزرویشن  کی پالیسی وضع کرنا مناسب نہیں  ہے۔   اس معاملے مودی  سرکار کا موقف بدلتا رہا ہے۔

ادھو ٹھاکرے کی سرکار نےان اعداوشمار کا استعمال کرنے کی خاطر  جب   عدالت عظمی سے رجوع کیا  تو موجودہ  حکومت کی جانب سے تین بڑے دلائل دئیے گئے۔  پہلا تو یہ کہ پالیسی سے متعلق فیصلوں میں عدلیہ کو دخؒل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ دوسرے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کرانا مناسب نہیں ہے اور تیسرا انتظامی نقطۂ نظر سے یہ بے حد مشکل امر ہے۔   سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ   مردم شماری بی جے پی کے لیے بڑا دھرم سنکٹ ہے۔ پہلے وہ  منڈل کی کھل کر مخالفت کرتی تھی مگر پچھلے دس سالوں میں پسماندہ طبقات کے اندر اس کی پذیرائی بڑھی ہے۔2009 میں  صرف 22فیصد پسماندہ اسے ووٹ دیتے تھے لیکن 2019 میں 44 فیصد نے ووٹ دیا اس لیےاب  وہ اس طبقہ  کی مخالفت کرنے کا خطرہ مول  نہیں لےسکتی اسی کے ساتھ  اسے  نام نہاد اعلیٰ ذاتوں کے رائے دہندگان کی ناراضی کا خوف بھی  ستاتا ہے۔

انتخابی جوڑ توڑ  کے علاوہ ایک  مسئلہ نظریاتی بھی  ہے۔ ہندوتوا کی بنیاد پر ہندووں کو متحد کرنے کا خواب ذات پات کی تقسیم سے بکھر جاتا ہے۔  سنگھ  چاہتا ہے ہندوستانمین  80بمقابلہ 20کی بنیاد پر یعنی ہندو مسلم کی تقسیم پر سیاست کی جائے جبکہ ذات پات کی بنیاد پریہ  85 فیصد پسماندہ اور 15 فیصد غیر پسماندہ کی جنگ بن جاتی ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے 15فیصد ووٹ بھی نہیں ملیں گے کیونکہ  غیر پسماندہ آبادی میں سب سے بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ کانگریس پہلے منڈل اور کمنڈل کے درمیان توازن قائم کرنے کی خاطر چھوٹا کمنڈل تھام لیتی تھی لیکن اب جبکہ وہ نام نہاد اعلیٰ ذات کے رائے دہندگان سے وہ پوری طرح  مایوس ہوچکی ہے اس لیے انہیں  اسی طرح  نظر انداز کررہی جیسے  بی جے پی مسلمانوں کو کرتی ہے کیونکہ اس کو ملت سے کسی حمایت کی امید نہیں ہے۔ ایسے میں مسلمانان ِ ہند دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کرکے  بی جے پی کو بن باس پر اسرائیل بھیجنے کا انتظام کرسکتے ہیں ۔

Comments are closed.