اسرائیل کے غیر انسانی حملوں پر عالم اسلام اور اقوام عالم کی بے حسی

جاویدجمال الدین
گزشتہ آٹھ دنوں سے حماس کے حملوں کے جواب میں صہیونی حکومت کے غیر انسانی حملوں کے ساتھ ساتھ غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کے الٹی میٹم کو خطرناک اور تشویشناک قرار دیا جاسکتا ہے ،اوراس پر عالم اسلام اور اقوام عالم کی بے حسی تشویش میں مزید اضافہ کردیے ہے اور ان فلسطینیوں کا دور دور تک کوئی پُر سان حل نہیں ہے۔البتہ ماضی کی طرح اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور سعودی عرب نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔جبکہ سعودی عرب نے اسرائیل کیساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے بات چیت معطل کردی اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل کی جانب سے انخلاء کا الٹی میٹم پر ایک بیان جاری کیا ہے،لیکن اس ضمن میں یواین او کے رول پر کوئی خاص بات نہیں کہی ہے۔
عالم اسلام میں ان حملوں کے خلاف سخت بے چینی پائی جاتی ہے،امریکہ نے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کردیا ہے،پھر بھی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا مشن سفارت کاری جاری ہے، جوکہ فلسطینی صدر، اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور قطر کے وزیر اعظم سے ملاقاتوں کے بعد سعودی عرب پہنچ گئے۔امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قطر کے وزیراعظم نے خبردار کیا کہ اسرائیل غزہ کشیدگی کا دائرہ وسیع ہونے کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوں گے،اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ عام شہریوں کو براہ راست نشانہ نہیں بنانا چاہیے، حماس کے قبضے میں یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی کیلئے قطری کوششوں کی ستائش بھی کی ہے۔ پریس کانفرنس میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی بات کہنے والے امریکی وزیر خارجہ نے اس موقع پر یہ نہیں بتا یا کہ زمینی سطح پر اسرائیل اس جارحانہ رویہ کو روکنے کے لیے انہوں نے کیا اقدام کیا ہے۔
اس درمیان روس کا موقف بالکل واضح رہا ہے ،روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھی اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کو ناقابل قبول قرار دے دیا۔انہوں نے بھی سعودی عرب کی طرح اسرائیل کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کو مسترد کردیاہے۔واضح رہے کہ اس معاملہ میں سعودی وزیرخارجہ فیصل بن فرحان نے برطانوی ہم منصب اور یورپی یونین کے اعلیٰ عہدے دار کو فون پر مطلع کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پابندی کرے۔ غزہ کی ناکہ بندی ختم اور امدادی اشیاء کی ترسیل کی اجازت دی جائے۔اسرائیل نے سخت ناکہ بندی کردی ہے اور غزہ میں انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے۔برطانیہ کی۔مجرمانہ خاموشی پر سعودی وزیر خارجہ نے برطانیہ سے کہاہے کہ وہ عالمی امن و سلامتی کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرے۔
دوسری طرف اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کے سبب سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا عمل منجمد کر دیا ہے۔جوکہ قابل ستائش قدم ہے،اس بارے میں ایرانی وزیر خارجہ نے لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ سے ملاقات کی، حزب اللہ نے حماس کردی ہے۔انہوں نے حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں جنگ سے دور رکھنے کی تلقین کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے خلاف جنگ میں حماس کی مدد کرنے کیلئے مکمل طور پر تیار ہیں۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کو 24 گھنٹے میں غزہ خالی کرنےکا حکم دے رکھا ہے جبکہ فلسطینیوں نے اسرائیلی الٹی میٹم کو مسترد کرتے ہوئے اپنے علاقے چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
اس طرح سعودی عرب نے بھی اسرائیل کی جانب سے سویلین آبادی کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کو مسترد کر دیا ہے اور اس حوالے سے سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے برطانوی ہم منصب اور یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیدار کو واضح طورپر کہا ہے کہ اسرائیل عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پابندی کرے اور غزہ کی ناکہ بندی ختم کر کے امدادی اشیا کی ترسیل کی اجازت دی جائے۔عالمی میڈیا کے مطابق اسرائیل کے فلسطین پر پے درپے حملوں اور غزہ میں ہونے والی تباہی کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے کی جانے والی بات چیت کو معطل کردیا جس سے امریکہ کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ سعودی عرب بات چیت کا خاتمہ نہیں کررہا البتہ فلسطین میں جاری لڑائی کے رکنے تک بات چیت کو روکا گیا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے فلسطین کے معاملے پر ایرانی صدر سے بھی گفتگو کی تھی۔جوکہ ایک نیک شگون ہے،حال۔میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات استوار ہوئے تھے۔
اس حوالے سے یو این سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو غزہ سے انتہائی مختصر نوٹس پر بڑےپیمانے پر انخلاء کے تباہ کن انسانی اثرات مرتب ہو سکتےہیں۔انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ انخلا کا حکم کم ازکم 11 لاکھ فلسطینیوں پر نافذ ہوگا، متاثرہ علاقے پہلے ہی اسرائیلی محاصرے اور بمباری کی زد میں ہیں، متاثرہ فلسطینی علاقے ایندھن، بجلی، پانی اور خوراک سے بھی محروم ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں 2 لاکھ سے زائد لوگ اقوام متحدہ کے تحت پناہ گاہوں میں رہ رہےہیں، فلسطینیوں کو اسکولوں، ہیلتھ سینٹرز اور کلینکس میں بھی رکھا گیا ہے، انخلا کے اسرائیلی حکم کا نفاذ ہزاروں بچوں پر بھی ہوگا، غزہ کی تقریبا نصف آبادی 18 سال سےکم عمر افراد پرمشتمل ہے اور غزہ کا شمار دنیا کےسب سے زیادہ گنجان آباد مقامات میں ہوتا ہے،اققام۔متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیل کے غزہ خالی کرنے کے الٹی میٹم کو انتہائی تشویشناک اور خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ متاثرہ فلسطینی علاقے پہلے ہی اسرائیلی بمباری سے ملبےکا ڈھیر بن چکے ہیں۔
واضح رہےکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری لڑائی میں اب تک اسرائیلی فضائیہ کی بمباری میں 2 ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں 500 سے زائد بچے بھی شامل ہیں، فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی بمباری میں زخمیوں کی تعداد 6 ہزار 388 سے تجاوز کرگئی ہے۔
اسرائیل کا غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کا حکم خطرناک ہے، اسکے تباہ کن اثرات ہو سکتےہیں۔پہلے ہی غزہ پر اسرائیلی بربریت رکوانے کیلئے روس بھی دیگر ممالک کی طرح میدان میں آگیاہے۔جبکہ روس نے ایک قدم آگے بڑھ کر فلسطین اسرائیل لڑائی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کا مسودہ پیش کردیا۔روس کی جانب سے اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں مسودہ پیش کیا گیا۔روس کی جانب سے پیش کیے گئے مسودے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی جائے، شہریوں پر تشدد اور ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کی جائے،سعودی عرب نے بھی اسرائیل کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کو مسترد کردیا ہے۔جیسا سے پہلے تذکرہ کیا گیا ہے کہ سعودی وزیرخارجہ فیصل بن فرحان نے برطانوی ہم منصب اور یورپی یونین کے اعلیٰ عہدے دار کو فون کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پابندی کرے، غزہ کی ناکہ بندی ختم اور امدادی اشیا کی ترسیل کی اجازت دی جائے۔اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل کی جانب سے 24 گھنٹوں میں غزہ خالی کرنے کی دھمکی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 24 گھنٹوں میں لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی نئے انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں پمفلٹس پھینکے تھے جن میں لکھا تھا کہ اپنے گھر فوری چھوڑ دو اور غزہ کے جنوب میں چلے جاؤ۔
البتہ مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں حماس کا ساتھ دینے کیلئے مکمل طور پر تیار ہیں۔
اس طرح برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بیروت کے مضافات میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئےحزب اللہ کے نائب رہنما نے کہا کہ وہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں حماس کا ساتھ دینے کیلئے ’مکمل طور پر تیار‘ ہیں۔حزب اللہ کے نائب رہنما کا کہنا تھا کہ وہ ’وقت آنے پر‘ مداخلت کریں گے۔ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے ہمسایہ ملک لبنان کا دورہ کرکے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جاری جنگی جرائم بلاشبہ اجتماعی ردعمل کا باعث بنیں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے حزب اللہ کی طرف ممکنہ اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی ناکہ بندی اور اسرائیلی جنگی جرائم کے نتیجے میں نیا محاذ کھلنا ممکنہ حقیقت ہے۔خبرداربھی کیاگیا کہ اسرائیل نے غزہ پر حملے بند نہ کیے تو جنگ میں نیا محاذ کھل سکتا ہے۔
ویسے یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں امریکہ سے لیکر افریقہ اور ایشیاء سے لیکر یورپ تک مختلف ممالک میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں جس میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی، نیویارک کے ٹائمز اسکوائر پر ہزاروں افراد نے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ریلی نکالی جبکہ سٹی یونیورسٹی نیویارک کے طلبا بھی فلسطینیوں کی حمایت میں نکلے اور ریلی کے شرکا نے فری فلسطین کے نعرے لگائے۔برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی فلسطین میں اسرائیلی بمباری کے خلاف احتجاج کیا گیا جس میں ہر رنگ و نسل کے سینکڑوں افراد نے شرکت کی اور فلسطین پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھائی۔
فرینکفرٹ میں فلسطین کی حمایت میں ریلی پر سماجی کارکن کو گرفتار کیا گیا ا ور ترکیہ میں بھی فلسطینیوں سےاظہار یکجہتی کی گئی۔جنوبی افریقہ میں بھی غزہ میں اسرائیلی بربریت کے خلاف احتجاج کیاگیا جس کی قیادت نیلسن منڈیلا کے پوتے نے کی۔یمن میں لاکھوں افراد نے فسلطنیوں کے حق اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا جبکہ عراق کے دارالحکومت بغداد کا تحریر اسکوائر مظاہرین کے نعروں سے گونج اٹھا، اردن میں ہزاروں مظاہرین کی جانب سے اسرائیلی سرحد کی طرف مارچ کیا گیا جسے روکنے کیلئے اردنی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر شیلنگ کی۔جبکہ تہران میں احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے لیے بڑی تعداد میں لوگ آزادی اسکوائر پہنچے جبکہ جنوبی ایشیا ء کے ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں سمیت مصر، شام، قطر، الجزائر اور تیونس میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کیاگیا۔اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں مظلوم فلسطینیوں کے لیے درد وفکرمندی ہے اور جہاں تک وطن عزیز کامعاملہ ہے،اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے چند روز بعد ہندوستانی دفتر خارجہ نے ایک آزاد فلسطین کی حمایت میں بھی بیان دے دیا ہے کیونکہ اسرائیل بر بریت کیخلاف عام لوگوں کی برہمی کا اسے بھی احساس ہوا ہے جوکہ ایک اچھی پہل ہے۔عام۔جائزہ میں عالم اسلام اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی تشویشناک ہے ۔
[email protected]
9867647741

Comments are closed.