حماس اور ہندوستانی دانشور

 

ڈاکٹر سلیم خان

سیاست کی زبان ایک اصطلاح نقصان  بھرپائی کی ہے جسے انگریزی میں ڈیمیج کنٹرول کہتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی  نے اسرائیل اور فلسطین کی جنگ پر ردعمل  کا اظہار کرنے میں جس احمقانہ جلد بازی کا مظاہرہ کیا اس نقصان کی بھرپائی کے لیے وزارت خارجہ کوایک ہفتہ انتظار کرنا پڑا ۔ اپنے پہلے  ردعمل میں  وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے 7؍ اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے ذریعہ کئے گئے حملے پر بریفنگ کے دوران ہندوستان کے دیرینہ موقف کو دہراتے ہوئے  کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کو ‘پرامن بقائے باہمی’ میں رہنا چاہئے۔ وزارت خارجہ  کے ترجمان نے کہا کہ ہندوستان نے ہمیشہ پرامن بقائے باہمی والی ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی خاطر اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو بحال کرنے کا حامی رہا  ہے۔ اس بیان سے ان  اندھے  بھگتوں کو مایوسی ہوئی ہوگی جو اسرائیل کے ذریعہ فلسطین  یا غزہ کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

 انتخاب کےاس  موسم میں جبکہ بی جے پی کی  حالت ویسے بھی پتلی چل رہی ہے اپنے  بھگتوں کی خوشنودی کے لیے وزارت خارجہ سے  یہ ضرور  کہلوایا گیا کہ ہندوستان حماس کی اس کارروائی کو دہشت گردانہ حملوں کے طور پر دیکھتا ہے۔ ویسے وزیر اعظم کے ٹویٹ  میں حماس کے حملے کو  دہشت گردانہ کہہ کر مذمت کرنے کے بعد  اسرائیل سے یکجہتی نے وزارتِ خارجہ کے ہاتھ باندھ دئیے تھے ۔ وزیر اعظم اگر اپنی چونچ بند رکھتے تو شاید یہ  بیان اور بھی زیادہ متوازن ہوتا ۔باگچی سے جب وزیراعظم  مودی کی اسرائیلی  نیتن یاہو  کے ساتھ گفتگو پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو یہ کہہ کر کنی کاٹ گئے کہ وہ  اپنے آپ میں کافی ہے  اور اب کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بیچارے یہ تو کہہ نہیں سکتے تھے کہ سفارتی معاملات میں  ایسا ناٹک نہیں کیا جاتا اس لیے ایسی   نوٹنکی پر تبصرہ کرنا ضروری نہیں ہے ۔ ایسا کہنے پر بعید نہیں کہ سنجے بھٹ کی طرح ارندم باگچی کو  بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جائے کیونکہ مودی اور شاہ کے کام کرنے کا یہی طریقۂ کار ہے۔

  وزیر اعظم کی مجبوری تو یہ ہے کہ  انہوں نے حماس کے حملے سے بوکھلا کر اپنے من کی بات کہہ دی مگر ہندوستان کے  اندردانشوروں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو گوناگوں وجوہات کی بنیاد پر حماس کو دہشت گرد سمجھتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ اس میں سب سے پہلا سبب  تو یہ ہے کہ وہ اپنی محدود معلومات کے سبب فلسطین اور حماس کی تاریخ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ جنگ آزادی سے متعلق عالمی اصول و ضوابط کا انہیں ادراک نہیں ہے۔ ان کے اوپر عدم تشدد کا بھوت سوار ہے اور فلسطین کے حالات کو ہندوستان کے  حالیہ تناظر میں دیکھتے ہیں۔  ان سارے نکات پر تفصیل کے ساتھ گفتگو ہونی چاہیے۔  فلسطین دراصل ہندوستان کی مانند کوئی آزاد و خود مختار ملک نہیں ہے۔  اسرائیل اس کے پڑوس میں موجود پاکستان کی طرح کو ئی متحارب ملک بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر حکومت ہند کا سرجیکل اسٹرائیک دہشت گردی نہیں بلکہ انتقامی کارروائی تھا  تو حماس کا حملہ  دہشت گردی کیسے ہوگیا؟  گھر میں گھس کر مارا کانعرہ لگا کر انتخابی مہم چلانے والے وزیر اعظم کو ایسا دوہرا  معیار اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

فلسطین کی حالت آج سے 76؍ سال پرانے ہندوستان کی سی ہے۔  اس وقت وطن عزیز پر برطانوی یونین جیک لہراتا تھا کیونکہ یہ ملک گریٹ برٹن کی نوآبادیات کا ایک حصہ تھا ۔ ملک کے اندر آزادی کی تحریک کئی  طرح سے چل رہی تھی۔ ایک طرف گاندھی جی عدم تشدد  کی بنیاد پر’کرو یا مرو‘  اور بھارت چھوڑو جیسے نعرے لگا کر جنگ آزادی چھیڑے ہوئے تھے دوسری طرف سبھاش چندر بوس آزاد ہند فوج بناکر جرمنی اور جاپان کی مدد سے   مسلح جنگ چھیڑے ہوئے تھے۔  سوال یہ  ہے کہ اگر سبھاش چندر بوس کا برطانوی استعمار کے خلاف   جرمنی و جاپان سے تعاون و اشتراک  مناسب تھا تو حماس کا ایران و شام  سے مدد لینا کیونکر غلط ہوگیا؟  ونایک دامودر کے ذریعہ حکومتِ برطانیہ سے معافی مانگ کر غاصبوں کے تلوے چاٹنے والے کو اپنے لیے نمونہ سمجھنے والا سنگھ پریوارحماس کی مسلح جدو جہد کو نہیں سمجھ سکتا۔  ہندوستان سے بھی  اگر چین کی مانند برطانیہ ہار کر  بھاگ کھڑا  ہوتا تو شاید یہاں کے لوگوں کو حماس کی جنگ آزادی سمجھ میں آجاتی۔

وطن عزیز میں کئی دانشور حماس کا موازنہ  سنت بھنڈارن والے سے کر تے  ہیں  ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جس طرح اندرا گاندھی  نے اپنے سیاسی فائدےکے لیے خالصتان کی تحریک کو آلۂ کار بنایا اسی طرح نیتن یاہو نے حماس کو استعمال کیا ۔ اس  سے بڑی احمقانہ بات کوئی اور نہیں ہوسکتی ۔ حماس کے بانی شیخ یٰسین کو اسرائیل نے ٹارگیٹ کلنگ کے ذریعہ شہید کیا ۔ اس کے بعد حماس کےسربراہ  عبدالعزیز رنتیسی کو بھی اسی طرح  شہید کیا گیا ۔ کیا کوئی اپنے آلۂ کار کو یکے بعد دیگرے اس طرح موت کے گھاٹ اتارتا ہے اور اس کے باوجود وہ تحریک جاری و ساری رہ سکتی ہے۔ حماس غزہ میں حکومت کرچکی ہے۔ پی ایل اے کے انتقالِ پر ملال کے بعد حماس مغربی کنارے میں بھی بے حد مقبول ہوچکی  ہے۔ اسی لیے پچھلے نو سالوں سے فلسطین میں انتخاب کو ٹالا جارہا ہے تاکہ حماس کو  اقتدار میں آنے سے روکا جاسکے ۔ سچ تو یہ ہے حماس فی الحال فلسطینیوں کی نمائندہ تحریک ہے۔ اس لیے اسے داعش کی مانند کوئی  دہشت گرد گروہ قرار دینا سراسر حماقت ہے۔

حماس کے تازہ حملے کا موازنہ  پلوامہ سے کرکے کچھ لوگ اسے نیتن یاہو کی کارستانی قرار دیتے ہیں ۔ ان  کاخیال ہے  چونکہ یاہو کی مقبولیت بھی مودی کی طرح  بہت کم ہوگئی تھی اس لیے اسی نے یہ حملہ کرواکر سیاسی فائدہ اٹھالیا۔ ایسا کہنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اپنی  75؍ سال کی تاریخ میں بدترین شکست کے لیے اسرائیلی نیتن یاہو کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔    عبرانی ویب سائٹ کے ذریعہ شائع ہونے والے ایک  سروے ہار کرے مطابق 94 فیصد اسرائیلیوں کے خیال  میں  حکومت جنوبی بستیوں کے دفاعی نظام کے خاتمے کی ذمہ دار ہے۔ 67 فی صد جواب دہندگان نےکہا کہ موجودہ جنگ کی ناکامی 1973 میں "اکتوبر کے دن” جنگ (اکتوبر جنگ) کی ناکامی سے زیادہ ہے۔سروے کے مطابق 84 فی صد صہیونیوں کا خیال ہے کہ القسام بریگیڈز کے طوفان الاقصیٰ کے پیچھے حماس کی منظم اور مربوط حکمت عملی ہے۔اسرائیلیوں میں سے 56 فی صد کا خیال ہے کہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو لڑائی کے اختتام پر اپنے عہدے سے استعفی دے دینا چاہئے۔  بن یامین نیتن یاہو اتنا بڑا بیوقوف  تو نہیں ہے کہ  اپنے ہاتھوں سے اپنی  ہزیمت کا ایسا سامان کرے۔

 اسرائیل کے اس  تازہ ترین سروے میں القسام بریگیڈز کے ذریعہ ہونے والے حملے کو پسپا کرنے میں تباہ کن ناکامی کے بعد قابض حکومت اور سکیورٹی اداروں  پر عوامی میں عدم اطمینان ظاہر کیا گیا ہے۔سروے کے مطابق حالیہ حملے  کے بعد 92 فی صد اسرائیلیوں کی اکثریت خوف اور گھبراہٹ میں مبتلا ہے ، ان میں سے ایک تہائی "بہت زیادہ  خوفزدہ” ہے۔ایسے امریکہ اور یوروپ کی شہریت رکھنے والےیہودیوں کا اسرائیل سے خروج لازم ہے۔ ہ خبر یقیناً اندوہناک ہے کہ  غزہ کی پٹی پر صیہونی جارحیت کے فاسفورس بموں سے   شہید  ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 1900 تک پہنچ گئی ہے جن میں 614 بچے اور 370 خواتین شامل ہیں۔ اس کے باوجود حماس کو بدنام کرنے کی خاطر فیک ویڈیوز چلائی جارہی ہیں ۔ اس پر خود بائیڈن کو اپنا بیان واپس لے کر شرمندہ ہونا پڑا ہے۔ اس کے ساتھ اسرائیلی بمباری نے  24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی شمالی پٹی میں کم از کم 13 اسرائیلی اور غیر ملکی یرغمالیوں کی  ہلاکت کا سبب بنی۔ اس دوران  حماس کے عسکریت پسندوں نے بھی  غزہ کی سرحد کے قریب اسرائیلی برادریوں پر یلغار اور راکٹوں کی بوچھاڑ کرکے 1,200 سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ان میں  اسرائیلی فوج کے پانچ انفنٹری بریگیڈز میں سے ایک کے کمانڈر کرنل یوناٹن اسٹین برگ کو بھی  ہلاک  کردیا ۔ یہ تیسرا فوجی جنرل ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی نمائندہ فرانسسکا البانیس نے اسرائیلی حملوں پراظہار خیال کرتے ہوئے  کہا  کہ محصور غزہ کی پٹی کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تباہی کا شکار ہے اور انہیں اسرائیل کی طرف سے اجتماعی نسل کشی کا سامنا ہے۔البانیز کے مطابق  ” غزہ میں فلسطینی آبادی کے ایک بڑے حصے کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ختم کیا جا رہا ہے۔  یہ ایک بدترین درندگی ہے‘‘۔اسرائیل کی طرف سے غزہ کو پانی، بجلی، خوراک اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی بند کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے رپورٹر نے زور دیا کہ غزہ کی محصور آبادی کو بھوکا مارنا اور انہیں ضروریات زندگی سے محروم کرنا جنگی جرائم  میں سے ایک  انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ اسرائیل اور حماس فی الحال حالتِ جنگ میں ہیں ۔ ایسے میں اقدام ہمیشہ ایک فریق کی جانب سے نہیں ہوسکتا۔ اس سے قبل اسرائیل اقدامات کرتا  تھا اور فلسطینی مدافعت کرتے تھے اس بار حماس نے حملہ کر کے غاصب  اسرائیلیوں کو مدافعت کے لیے مجبور کردیا ہے اس لیے ان کا یہ  اقدام قابلِ مباکباد ہے۔  یہ بات ہندوستانیوں کو اس وقت سمجھ میں آئےگی جب افغانستان کی مانند فلسطین بھی اسرائیل کے چنگل سے آزاد ہوجائے گا ۔

 

Comments are closed.