سرسید کی تعلیمی تحریک کے مثبت نتائج

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ملت میں علم کا شوق پیدا ہوا

عبدالغفارصدیقی
9897565066
برصغیر ہند کے مسلمانوں پر جن شخصیات نے سب سے زیادہ اثر ڈالا ان میں ایک نمایاں نام سرسیداحمدخاںؒ کا ہے۔اگر مذہبی طبقہ کی جانب سے سرسید ؒ کی مخالفت نہ کی گئی ہوتی تو شاید مسلمانوں کی صورت حال ناگفتہ بہ نہ ہوتی ۔ہمارا مذہبی طبقہ بھی خوب ہے ۔پہلے بڑھ چڑھ کرکسی سسٹم کی مخالفت کرتا ہے پھر اس سے خوب استفادہ کرتا ہے ۔کل جس سرسید کے لیے مختلف القاب و آداب وضع کیے گئے تھے آج انہی کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فارغین مدارس کی معتد بہ تعداد موجود ہے ۔ہر کونے سے صدائے اللہ اکبر سنائی دیتی ہے ۔ہر طرف باریش نوجوان کتابیں لیے گشت کررہے ہیں ۔مسلمانوں میں علم کے حصول کی جانب توجہ مبذول کرانے میں سرسید کی تعلیمی تحریک کا اہم کردار ہے ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام نے مسلمانوں میں حصول علم کا شوق پیدا کیا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ سرسید سے قبل مسلمان تعلیم کی اہمیت سے ناواقف تھے ،یا علم سے نابلد تھے ،تعلیم کے میدان میں مسلمان اپنی ہمسایہ قوم سے کہیں آگے تھے ۔ہندوستان کے دیہاتوں میں تو مسلمان ہی منشی یا مولوی تھے جو تعلیم یافتہ تھے ۔
انگریزوں کی آمد اور ہندوستان میں ان کے اقتدار کی گرفت نے تعلیم کے منظر نامہ کو بدل کر رکھ دیا تھا ۔مسلمان کا ذریعہ تعلیم عربی ،فارسی تھا ،انگریز اپنے ساتھ انگلش لائے تھے ۔اگرچہ انگریز کسی زبان کے مخالف نہیں تھے ،انھوں نے اردو کے لیے بھی کوششیں کیں۔ اردو کا پہلا فورٹ ولیم کالج( کلکتہ) انھیں کی دین ہے ۔وہ چونکہ حکمران تھے اور مذہباً عیسائی تھے اس لیے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے اور مذہب کی تبلیغ کرنے کے لیے انگریزی زبان کی توسیع و اشاعت کو ضروری خیال کرتے تھے ۔سرسید کی دوربیں نگاہیں یہ بھانپ چکی تھیں کہ ہندوستان میں صرف انگریزوں کا راج ہی نہیں ہوگا بلکہ انگریزی کا راج بھی ہونے والا ہے ۔حالانکہ انگریز اس میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے اور ان کے دورے اقتدار میں اردو اور فارسی ہی یہاں کی زبان رہی ،اس کے برعکس ان کے جانے کے بعد انگریزی کا راج قائم ہوگیا ۔ انگریزوں سے تبادلہ خیال کرنے ،ان تک اپنی بات پہنچانے اور ان کے منشاء و مقصد کو بہتر طریقہ سے جاننے اور سمجھنے کے لیے انگریزی جاننا ضروری تھا ۔
سرسید ؒ نے مسلمانوں سے اسی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ انگریزی تعلیم بھی حاصل کرلیں تاکہ حکومت اور حکمرانوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہوسکیں ۔ مسلمان علماء اور مذہبی طبقہ انگریزوں کی صورت دیکھنے کا روادار نہ تھا کجا کہ ان کی زبان سیکھتا۔مسلمان سمجھتے تھے انگریزی زبان اپنے ساتھ انگریزی تہذیب بھی ہمارے بچوں کو سکھادے گی اور پھر مسلمانوں میں ارتداد پھیل جائے گا ۔اگرچہ یہ سوچ اسوہ رسول ؐ کے برعکس تھی ،نبی اکرم ؐ نے غیر قوموں کی زبان سیکھنے کے لیے صحابہ کرام ؓ کو تیار کیا تھا تاکہ غیروں تک اللہ کا دین پہنچا کر فریضہ نبوت کی تکمیل کی جاسکے ۔ سرسید ؒ نے اسی مخالفانہ ما حول میں علم کا چراغ روشن کیا اور ہزاروں مشکلات کو انگیز کرتے ہوئے اپنی تحریک جاری رکھی اور کامیابی پائی ۔آج جو ہم بر صغیر ہندو پاک میں عصری تعلیم کے ہزاروں ادارے اور درجنوں یونیورسٹیاں دیکھ رہے ہیں وہ اسی تعلیمی تحریک کا نتیجہ ہیں ۔
برٹش حکومت کے اثرات بد سے آنے والی نسلوں کو بچانے کے لیے حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ نے30 مئی 1866کو دیوبند میں ایک مدرسہ کا آغاز کیااور 24مئی1875کو محمڈن اسکول کا سنگ بنیاد علی گڑھ میں رکھا گیا ۔دارالعلوم کا قیام دراصل سرسید کی تعلیمی تحریک کے خطرناک نتائج سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے رکھا گیا تھا ۔ایک طرف سرکاری تعلیم گاہوں پر انگریز حکمرانوں کے قبضہ نے وہاں مغربی تہذیب کے لیے دروازے کھول دیے تھے ،دوسری طرف سرسید نے انگریزی کی حمایت کرکے مسلمانوں کو ان اداروں کی طرف راغب کیا تھا ،ایسے میں دینی تعلیم کا تحفظ اورنئی نسلوں کو باطل افکار و نظریات کے حملوں سے بچانا ضروری تھا ،اسی ضرورت کے لیے دارالعلوم دیوبند قائم ہوا تھا ۔اسی فکر کے تحت پھر دوسرے مذہبی ادارے قائم ہوئے ،پھر مسلکی اختلافات کی بنا پر دیگر مسالک کے ادارے قائم ہوئے ،مگر ان سب دینی اداروں کا مقصد ایک ہی تھا کہ نئی نسلوں کو سرسید اور انگریز وں کے افکار سے بچایا جائے ۔نیز مساجد کو امام میسر آئیں ۔میں اس بات کو تو فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ان مذہبی اداروں کی وجہ سے بلا شبہ مساجد کو امام ،مدارس کو اساتذہ ،شادی میںنکاح خواں ،مردوں کو بخشوانے کے لیے فاتحہ خواں میسر آئے ہیں ،لیکن اس طبقہ کی تنگ نظری اور دین کے محدود تصور نے امت مسلمہ کو اقتدار اور بازار سے دور رکھنے میں فعال رول ادا کیا ہے جس کی بدولت آج ہم پسماندگی کی انتہا کو پہنچ رہے ہیں ۔
سرسید کی تعلیمی تحریک کی مخالفت نے امت مسلمہ کو دوتعلیمی نظریات میں تقسیم کردیا ۔ایک وہ نظریہ تعلیم جو دارالعلوم کا ہے اور دوسرا وہ جو سرسید کا ہے ۔فرق یہ ہے کہ سرسید کے یہاں تنگ نظری کے بجائے توسع پایا جاتا ہے ۔وہ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سائنس رکھنے کی بات کرتے ہیں ،لیکن دارالعلوم کا نظام تعلیم ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں بخاری دیتا ہے اور عصری علوم کے لیے کوئی ہاتھ خالی نہیں رکھتا ۔گزشتہ دنوں دارالعلوم کے جو طلبہ انگریزی یا کمپیوٹر سیکھ رہے تھے ان کو حضرت کی زجر و توبیخ کا نشانہ بننا پڑا تھا اور صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ’’ آپ کے والدین نے یہاں انگریزی پڑھنے کے لیے نہیں بھیجا ۔‘‘
یہاں تک تو بات ٹھیک تھی کہ کچھ طلبہ دینی علوم میں مہارت پیدا کریں اور کچھ عصری علوم میں ،لیکن عصری علوم کی مخالفت نے امت کا بیڑہ غرق کردیا ۔اس مخالفت نے عصری علوم کے بعض حاملین میں دین بیزاری پیدا کردی ،اور نہ جانے کتنے ہی اہل علم کمیونزم کا شکار ہوگئے ۔میں سمجھتا ہوں کہ مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور سرسید ہمارے لیے روشنی کا مینار ہیں ۔یہ دونوں مل کر اسلامی نظریہ تعلیم کی تفسیر بنتے ہیں ،دونوں علم و دانش کے اہم بازو ہیں ،دینی تعلیم کے بغیر عصری تعلیم یا انگریزی تعلیم انسان کو خدا بیزار اور آخرت فراموش بنا سکتی ہے اور عصری علوم کے بغیر دینی تعلیم انسان کو ایک نیک مسلمان تو بنا سکتی ہے لیکن اسے دنیا وی امور چلانے کا اہل نہیں بناتی جس کے نتیجہ میں اسباب دنیا پر مسلم مخالف طاقتوں کا قبضہ ہوجاتاہے ۔
سرسید کی تعلیمی تحریک کے مطلوبہ نتائج حاصل ہورہے ہیں ۔گائوں گائوں علم کے دیے جل رہے ہیں ،مسلمان بچے اچھے انگلش میڈم اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ،جب میں کسی بستی سے کوئی اسکول وین نکلتے دیکھتا ہوں اور اس میں معصوم مسلم بچوں کو دیدہ زیب یونیفارم میں جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو ایک طرف میرا دل خوش ہوتا ہے کہ میری قوم کے نونہال پڑھ رہے ہیں ۔لڑکیوں میں تو تعلیم کی شرح اس قدر بلندی کو پہنچ گئی ہے کہ ان کے لیے تعلیم یافتہ رشتہ دستیاب نہیں ہے ۔لیکن دوسری طرف میرا دل اندیشوں اور وسوسوں سے بھرجاتا ہے کیوں کہ وہ جن اسکولوں میں جارہے ہیں وہاں ان کا ایمان محفوظ نہیں ہے ۔معیاری اسکول یا تو عیسائی مشنری کے ذریعہ چلائے جارہے ہیں یا فرقہ پرست غیر مسلموں کے ذریعہ ،موجودہ وقت میں ہندوستانی مسلمانوں کو اکثریت کی جانب سے جن خطرات کا سامنا ہے ،مظفر نگر کے اسکول میں جس طرح کاواقعہ پیش آیا ہے ،اس کو دیکھتے ہوئے سرسید کی تعلیمی تحریک کے نتائج نصف رہ جاتے ہیں ۔سر سید کی تعلیمی تحریک ایک ہاتھ میں قرآن دیتی ہے اور دوسرے ہاتھ میں سائنس ،آج ہمارے ہاتھ سے قرآن چھوٹ گیا ہے ،اس کے بجائے کہیں بائبل اور کہیں وید اور گیتا ہے ۔اس کی تدارک کی بہترین صورت تو یہی ہے کہ مسلمان اپنے تعلیمی ادارے قائم کریں ۔جس طرح بعض افراد و اداروں نے کیے بھی ہیں ،لیکن ابھی ان کی حیثیت اونٹ کے منھ میں زیرہ کی ہے ۔اس میں تیزی لائی جائے ۔ہر شہر میں ایسے مسلمان آباد ہیں جو ادارے قائم کرسکتے ہیں ،ان کے پاس دولت ہے مگر شعور نہیں ۔ کوئی تعلیمی تحریک اٹھے اور منفعت کی بنیاد پران مالدار مسلمانوں کی سرمایہ کاری سے تعلیمی ادارے قائم کرے تو نعم البدل میسرآسکتاہے ۔جب تک یہ نہیں ہوتا تو ہر محلہ کی مسجدمیں دینی تعلیم کے لیے شبینہ (نائٹ ) اسکول قائم کیے جائیں ۔اگر وقت رہتے یہ نظم نہ کیا گیا تو حالات بے قابوہوجائیں گے ۔
سرسید ؒ نے جن حالات میں کام کیا تھا وہ آج کے مقابلہ میں بہت زیادہ خراب تھے ۔آج ہندوستان کے مسلمان جن مشکلات سے دوچار ہیں وہ ان مشکلات سے بہت کم ہیں جو سرسید ؒ کے دور میں مسلمانوں کو درپیش تھیں۔اُس وقت ہم اقتدار کھورہے تھے۔پورا ملک حالت جنگ میں تھا۔انسانوں کی جان پر بنی تھی۔نئے حکمرانوں کے مظالم آسمان پر تھے ۔عصری تعلیم کی مخالفت عروج پر تھی ،آج کے حالات اس قدر سنگین نہیں ہیں ۔آج ہماری تعداد بھی زیادہ ہے،آج ہمارے پاس دولت کی کثرت بھی ہے ،آج ہمارے پاس جمہوری آئین بھی ہے ۔آج مذہبی طبقہ کی جانب سے عصری علوم کی مخالفت میں کسی حد تک نرمی پیدا ہوئی ہے ۔آج مسلمان اپنے بچوں کو پڑھانے کی کوشش کررہے ہیں ،مسلم رفاہی ادارے اور خیر پسند افراد مدد کے لیے تیار ہیں ،اگر ان حالات میں بھی ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو آنے والے دنوں میں یہ سازگار ماحول ناساز گار بھی ہوسکتا ہے۔

 

Comments are closed.