ذات پات کی مردم شماری کا پس منظر اور پیش منظر

 

ڈاکٹر سلیم خان

افتخار عارف کہتے ہیں ’ مشکیزے  سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے‘ اسی طرح منڈل اور کمنڈل کی رقابت  بھی کم  قدیم نہیں  ہے۔ منڈل ملک میں سماجی انصاف کی علامت ہے جبکہ کمنڈل ہندوتوا  کے نسلی تفریق و امتیاز  کی نشانی ہے۔  آریہ قوم  کا مشرق وسطیٰ سے گنگا کی وادی میں وارد ہونا تو تقریباً تسلیم شدہ حقیقت ہے مگر ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے غائب ہوجانے والے دو قبائل میں سے ایک تھے۔ ہندوستان میں آنے کے بعد ان لوگوں نے وہی کیا جو نازی جرمنی کے چنگل  سے نکل کر فلسطین  میں موجودہ دور کے صہیونی کررہے ہیں۔  وہ موسیٰ ؑ کی شریعت کو چھوڑ کر  اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والے  فرعون کی حکمت عملی پر چل پڑے۔ فرعون سے متعلق ارشادِ ربانی ہے : ’’ واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘۔ قدیم  ہندوستان میں موقع پاتے ہی آریہ قوم فرعون بن گئی  ۔ وہ  مقامی باشندوں  کے ساتھ وہی سب کرنے لگی جو فرعون ان کے ساتھ کرتا تھا ۔   

  آریہ نسل کے غاصبوں نےنسلی تفریق   کی بنیاد پر اس ملک کے باشندوں کو اپنا غلام بنانے کی کامیاب کوشش کی اور جن پر زور نہیں چلا انہیں بزورِ قوت جنوبی ہند میں ڈھکیل دیا۔ وہ لوگ آج بھی خود  کو آریہ قوم کی حریف نسل یعنی دراوڑ کہتے ہیں۔  عصرِ حاضر میں سناتن کے خلاف تمل ناڈو اور کرناٹک سے اٹھنے والی آوازیں   اسی  تشخص اور حریت فکر کا نمونہ ہیں ۔ شمالی ہند میں اس ظالمانہ رویہ  کے خلاف  بودھ اور جین مذاہب نے بغاوت کی تو ان میں سے اول الذکر کا اگل دیا یعنی  دیس نکالا کردیا ۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ  بدھ مت ایشیا کے مشرقی ممالک میں تو خوب پھلا پھولا مگر اس ملک میں اس کی بیخ کنی ہوگئی ۔ یہ ایک منصوبہ بند کوشش کا نتیجہ ہے اور اس کارنامہ کے لیے شنکر اچاریہ کی خوب تعریف و توصیف کی جاتی ہے۔ ان کو  مذہب کا بہت بڑا محافظ سمجھا جاتا ہے۔    موخرالذکر جین مت   کواس  طرح نگل لیا گیا کہ اس کی شناخت ہی ختم ہوگئی اوراب یہ حال ہے کہ  جین اور ہندو کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں رہا۔  سکھوں پر بھی یہ داوں آزمانے کی کوشش کی گئی مگر اس میں کامیابی نہیں ملی ۔

آریہ نسل پرست  تعداد میں کم تھے اور آج بھی کم ہی ہیں۔  اس لیے مدمقابل کو اپنے  سےچھوٹا کرنے کے لیے انہیں منقسم کرنا ضروری تھا ۔ وطن عزیز میں  عوام کو تقسیم کرنے کے لیے    ذات پات کی بنیاد بناکراسے مذہبی تقدس عطا کیا گیا ۔ شرک ، اوتار اور پونر جنم کے مثلث کی مدد سے  ایک  ایسا سماجی احرام  تعمیر کیا گیا جس میں  سب سے اوپر برہمن  تھے ۔ ان کا کام کرم کانڈ کے ذریعہ عام باشندوں کو  باطل عقائد کے چنگل میں  پھنسا کر غلام  بنائے رکھنے  کی سازش رچنا تھا ۔ اس کے نیچے شتری  طبقہ سرکار دربار  چلاتا  اور جنگ و جدال  کرتا  تھا۔ ویش تجارت کرتے اور شودر کھیتی باڑی و مزدوری کیا کرتے تھے۔ یہ تقسیم پیشہ ورانہ نہیں بلکہ نسلی  تھی۔ اسی لیے شودروں کے کان میں کو اشلوک پڑنے  کی سزا کے طور پر سیسہ پلاکر ڈال دیا جاتا تھا اور ایک لویہ کا انگوٹھا کاٹ کر اپنے گرو کے چرنوں میں رکھ دینا قابلِ تعریف سعادتمندی کہلاتا تھا حالانکہ یہ حرکت  تیراندازی   سے کنارہ کشی  کے مترادف  تھی۔

یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ ایک لویہ نے برضا و رغبت ایسا  کیا ہو۔ بعید نہیں کہ زبردستی اس کی انگلی کاٹ کر الزام اسی کے سر منڈھ دیا گیا ہو جیسا کہ آج کل ہوتا ہے  ۔ اس سے  آگے بڑھ کر یہ حماقت  خوشنما بنا دی  گئی تا کہ دوسروں کو بھی اس سے اپنے آپ پر ظلم کرنے کی ترغیب ملے اوراگر کوئی انکار کرے تو اس پر زور زبردستی کرنے کا جواز فراہم ہوجائے ۔ اس طرح  ظالموں کی پردہ پوشی ہو تی رہے۔ یہ سب فی الحال ہورہا ہے اس لیے اس کا سمجھنا آسان ہوگیا ہے ۔ منی پور کے اندر نہ تو مظلوم خواتین کو بلوائیوں کے حوالے کرنے والے پولیس کے اہلکاروں کو سزا دی جاتی ہے اور ان کی عصمت  تار تار کرنے والوں کو پکڑا جاتا ہے بلکہ جس نے اس ظلم کو ویڈیو بناکر اجاگر کیا اسی پر کارروائی ہوتی ہے۔ محمد زبیر اس طرح کی زیادتی کا شکار کئی بار ہوچکے ہیں۔  اب یہ بات طشت ازبام ہوچکی ہے کہ  ہندوتوا  نوا ز پھر سے ملک کو اسی تاریک دور میں لے جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔انہیں افسوس ہے کہ مسلمانوں اور انگریزوں نے اس ظلم وجبر کی چکی کو روک دیا اس لیے وہ ایک ہزار سال پرانے ہندوستان میں لوٹ جانا چاہتے ہیں جس کی بابت خود موہن بھاگوت اعتراف کرچکے ہیں کہ اس وقت سے ہندو سماج میں  انسان کو انسان  ہی  نہیں سمجھا جاتا تھا۔   

مسلم حکمرانوں نے ان لوگوں  کا سیاسی زور تو  توڑا مگر سماجی سطح پر اس رویہ کی  مکمل بیخ کنی نہیں کرسکے اور انگریز بھی اس کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے۔  اس لیےمعاشرے کے اندر یہ گھچڑی ٹھنڈی آنچ پر پکتی رہی  ۔منڈل تحریک دراصل اسی ظالمانہ طرز فکر کے خلاف بغاوت کی ایک کڑی ہے۔  اس بات کا قوی امکان  ہے رب کائنات اس کے ذریعہ اس بشارت کو بروئے کار لے آئے کہ جس کے بارے میں کہا گیا:’’ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں‘‘۔ واللہ اعلم ۔  وطن عزیز میں اپنے نسلی تسلط کو برقرار رکھنے کی خاطر جو تحریکات مصروفِ عمل ہیں وہ اس خطرے سے بخوبی واقف ہیں۔   یہ تلخ  حقیقت ہے کہ کانگریس پارٹی اپنے دورِ اقتدار میں  سماجی  ، معاشی و تعلیمی حیثیت سے پسماندہ  طبقات کی پیمائش کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرسکی ۔ اس کے برعکس اس نے مردم شماری کے اندر سے ذات پات کا کالم ہی نکال دیا ۔ مودی سرکاربہار میں ذات پات کی مردم شماری سے  کس قدر ہیبت زدہ  ہے    اس کا اندازہ  لگانے کے لیے ساڑھے تین گھنٹے کے اندر اس پر وزیر اعظم کا ردعمل  قابلِ توجہ ہے۔یہ اس  وزیر اعظم  کی چستی ہے جو پانچ ماہ سے منی پور میں جاری تشدد پر من کی بات کہنے سے کترا رہا ہے۔

مودی نے مردم شماری پرکہا   کہ ترقی کے دشمن ذات پات کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرکے عوام کا استحصال کرتے ہیں ۔ عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرکے ہندووں کا جذباتی استحصال تو بی جے پی  پسندیدہ مشغلہ ہے جس میں وہ دن رات مشغول رہتی ہے۔وزیر اعظم کا دوسرا بیان اور بھی مضحکہ خیز ہے۔  انہوں نے فرمایا ان کو برا بھلا کہنے والے دراصل پسماندہ طبقات کو گالی دیتے ہیں حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ  اپنے پسماندہ ذات سے تعلق کے باوجود   استحصال کرنے والے نظریہ کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد تو انہوں نے حد کردی ۔ وہ بولے منموہن سنگھ کہتے تھے قومی وسائل پر سب سے پہلا حق اقلیتوں کا ہے لیکن اب کانگریس  پسماندہ طبقات کی خوشنودی کے لیے  مسلمانوں کو پس پشت ڈال رہی ہے۔ تعجب کی بات ہے  مسلمانوں کے لیے مگر مچھ کے آنسو  وہ رہنما  بہا  رہا ہے جس نے اپنی کابینہ سے دونوں مسلم وزراء کو نکال باہر کیا ۔ بلقیس بانو کے مجرمین کو رہا کروایا ۔ اس کا داہنا ہاتھ  گجرات فساد پر کھلے عام  فخر جتانے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔  یہ دراصل  مودی کی بوکھلاہٹ  کا نتیجہ ہے۔  کانگریس پہلے منڈل اور کمنڈل کے درمیان توازن قائم کرنے کی خاطر چھوٹا کمنڈل تھام لیتی تھی لیکن اب جبکہ وہ نام نہاد اعلیٰ ذات کے رائے دہندگان سے وہ پوری طرح  مایوس ہوچکی ہے اس لیے انہیں  اسی طرح  نظر انداز کررہی جیسے  بی جے پی مسلمانوں کو کرتی ہے کیونکہ اس کو ملت سے کسی حمایت کی امید نہیں ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ سنگھ پریوار اس سال کی گاندھی جینتی کو کبھی بھول نہیں سکے گا ۔اس لیے کہ بی جے پی کے سابقہ حلیف نتیش کمار  نے اس کی شہ رگ پر خنجر رکھ دیا ہے۔  یہ فریبی جتھا ملک کے پسماندہ طبقات کے پاس ان کا  ہمدرد بن کر جاتا ہے اور  استحصال کرتا ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے اعدادو شمار اگر زیر بحث آجائیں تو یہ پتہ چل جائے گا کہ ان طبقات کی تعداد کتنی کم  ہے۔ اس کے بعد سرکار دربار میں ان کی  عدم موجودگی  پربھی  گفتگو ہوگی جو ان کے سمِ قاتل بن جائے گی۔ راہل گاندھی کہہ رہے ہیں 62 فیصدپسماندہ ذاتوں سے جملہ  90 میں سے صرف  3 مرکزی سکریٹری آتے ہیں اور ان کا  5فیصد بجٹ پر اختیارِ عمل ہے۔ ان حقائق سے انکار ممکن نہیں    اس  لیے سنگھ کی  زبان پر قفل لگاہوا ہے۔ اس کو اپنی  صد سالہ محنت پر پانی پھرنے کا اندیشہ لاحق ہوگیا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ  مشیت  ایسے وقت میں  انصاف  کررہی ہے کہ جب   سنگھ پریوار نے ایک پسماندہ شخص  کو وزیر اعظم بناکر  تیر بہ ہدف تو  چلایا مگر وہی  اس کے سینے میں پیوست ہوا چاہتا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ مودی جی کے سنہری دور میں سنگھ کی جڑ کٹنے کا انتظام ہوجائے گا۔  مکرو فریب کرنے والے لوگ اپنی چال چلتے ہوئے بھول جاتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات خیر الماکرین ہے۔

Comments are closed.