غزہ  کی کشمکش : بائیڈن ، رئیسی ، ھنیہ اور بھاگوت

 

ڈاکٹر سلیم خان

اسرائیل نےغزہ میں جو تباہی و بربادی مچائی اس کی تفصیل  یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس آبزرویٹری نے اس طرح بیان کی کہ  خونریز فضائی اور توپ خانے کے حملوں نے اسے جہنم کے گڑھے میں تبدیل کر دیا ہے۔ آٹھ دن کے اندروہاں 6000 سے زیادہ بم گرائے گئے جو ایک ایک چوتھائی  ایٹم بم  کے برابر ہیں۔وہاں پر انتہائی پیچیدہ انسانی حالات میں موت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں اور زندگی کی بنیادی ضرورت پانی تک بند کردیا گیا ہے ( یہ سہولت  بعد میں بحال ہوئی)۔ رپورٹ کے مطابق کسی پناہ گاہ کے بغیر غزہ  کے شہری بجلی، پانی، مواصلات اور انٹرنیٹ  سے محروم  کردئیے گئے ہیں۔یورو- میڈیٹیرینین آبزرویٹری نے آٹھویں دن  یہ اعداوشمار دئیے تھےکہ  کم از کم 2,370 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 721 بچے اور 390 خواتین شامل تھیں، جب کہ 9,250 دیگر زخمی ہوے۔ ان میں  نصف سے زیادہ بچے اور خواتین ہیں۔انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹر نے 2,650 رہائشی عمارتوں میں  تقریباً 70,000 رہائشی یونٹس کے شدیدیا جزوی طور پر نقصان  کی خبر دی ۔اس سے بارہ لاکھ لوگوں کے بے گھر ہونے کا اندازہ ہے ۔ تباہ شدہ عمارتوں  میں  65 سرکاری ہیڈکوارٹرشامل ہیں نیز 71؍ا سکولوں ،145 صنعتی تنصیبات اور 61 میڈیا ہیڈکوارٹرز کو بھی زمین دوز  کر دیا گیا۔

فضائی حملوں سے ایک چھوٹے سے علاقہ کو اس قدر تباہ  و تاراج کرنے کے باوجود اسرائیلی فوج نے  غزہ پٹی میں زمینی کارروائی کا منصوبہ   ملتوی کر دیا ۔ امریکی اخبار ‘نیو یارک ٹائمز’ کے مطابق  تین سینئر اسرائیلی فوجی افسران نے بتایا کہ   منصوبے کے مطابق اسرائیلی فورسز کو غزہ شہر پر قبضہ کرنے اور پٹی کی موجودہ قیادت کو تباہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس  مقصد کے حصول کی خاطر لاکھوں  اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ  ٹینکوں، سیپرز اور کمانڈوز کو آپریشن میں  شریک ہونا  تھا ۔  اس کارروائی کو ملتوی کرنے کی وجہ موسم کی خرابی بتایا گیا ۔ آج کل گوگل کی مدد سے کسی بھی شہر کے موسم کا حال بہ آسانی جانا جاسکتا ہے۔ اس اعلان کے بعد غزہ کا موسم دیکھا گیا  تو وہاں سورج روشن تھا ۔اس سے سرجیکل اسٹرائیک کے دوران بادلوں کے سبب راڈر کے نظام کی ناکامی کا لطیفہ یاد آگیا ۔ ویسے التواء کی اصل  وجہ  کا اشارہ بھی  نیویارک ٹائمز کی خبر میں حماس کے ایک اہلکار کے حوالے سے موجود ہے۔   خبرکے مطابق حماس  کے جنگجو  غزہ شہر میں پوشیدہ  زیر زمین سرنگوں سے اچانک نکل کر اسرائیلی فوجیوں پرحملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

 یہ ایک حقیقت ہے آسمان سے تباہی و بربادی کے بعدجب  زمین پر دو بدو جنگ کا موقع  آتا ہے تو اسرائیل شکستِ فاش سے دوچار ہوجاتا ہے۔ ماضی میں بارہا ایسا ہوا ہے اور ایک بار پھر اسی  اندیشے نے    27 ہزار فلسطینی مجاہدین کے مقابلے  3؍ لاکھ کی فوج  کو آگے بڑھنے   سے روک دیا  ۔   امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی اس کا اندازہ  ہے اس لیے انہوں نے دو باتیں کہیں ۔ پہلی تو یہ  کہ حماس کو تباہ ہونا چاہیے لیکن ساتھ ہی  فلسطینی ریاست کے لیے راستہ بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کا غزہ پر دوبارہ قبضہ ایک بڑی غلطی ہوگی۔ صدر بائیڈن کے اس  بیان نے تل ابیب میں موسم خراب کردیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی زمینی کارروائی کو ملتوی کرنا پڑا۔  اسرائیل کا سب سے بڑا  حامی امریکہ  رہا ہے ۔ اس بار بھی وہ  اپنے دو جنگی جہاز اسرائیل کی سمندری سرحد کے قریب بھیج چکا ہے۔ کئی لڑاکا طیارے بھیجنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ تاہم اب صدر جو بائیڈن کا غزہ پر قبضہ نہ کرنے کے بارے میں اسرائیل کے اپنے بیان سے یہ  سوال پیدا ہوگیا ہے  کہ کیا  مشرق وسطیٰ کے  دیگرممالک سے وابستہ  مفاد  انہیں یہ بیان دینے پر مجبور  کر رہا ہے یا وہ انتخاب سے قبل کسی ایسی جنگ میں ملوث نہیں ہونا چاہتے جس میں فتح ناممکن ہے ۔

امریکہ میں قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کو بتایا کہ اس تنازعے کے بڑھنے اور شمال میں دوسرا محاذ کھولنے کی وجہ سے ایران کی جنگ میں شمولیت کا خطرہ ہے۔ یہ اندیشہ مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ  میں حماس کے رہنما  اسماعیل ھنیہ  سے ملاقات کرچکے ہیں۔ اس میٹنگ میں غزہ کی پٹی کے 16 سال سے جاری محاصرے اور فلسطینی عوام کے ان کی سرزمین، وطن اور مقدسات کے تمام سیاسی حقوق کی بحالی  تک اپنی جدو جہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ اس موقع پر اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ اس جنگ کے بعد فلسطینی کاز اور مزاحمت کی سطح پر ایک نئی تاریخ رقم ہوگی ۔انہوں نے فلسطینی عوام کی امنگوں اور ان کی مزاحمت کا حوالہ دیتے ہوئے غزہ میں مشکل انسانی حالات کے باوجود پر عزم رہنے کی تلقین کی ۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے نہتے عوام اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی وحشیانہ جارحیت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔

 ایرانی وزیر خارجہ نے 7؍ اکتوبر کو حاصل کی گئی تاریخی فتح کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطینی عوام کی طرف سے ریکارڈ کی گئی ایک نئی اور شاندار تاریخ نیز فلسطینی کاز کے لیے ایک نئی شروعات ہے۔اللہیان نے اسرائیلی  جارحیت کے خلاف فلسطینی عوام کی استقامت کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایران فلسطینی کاز اور غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے بھی  اتوار کو خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے غزہ پٹی پر حملے جاری رکھے تو تنازع میں مزید اضافہ ہو گا۔ رئیسی نے فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ فون پر گفتگو میں کہا کہ اگر صیہونی حکومت ان جرائم جاری رکھ کر اپنی شکست کی قیمت چکانا چاہتی ہے تو جنگ میں توسیع ہو گی۔ایرانی صدر نے فلسطینی عوام کی حمایت میں نکالی جانے والی ریلی کو روکنے پر فرانسیسی حکومت پر تنقید بھی  کی ۔  ایرانی ویب سائٹ کے مطابق فرانسیسی صدر نے  بھی غزہ پٹی میں بحران کی شدت پر تشویش کا اظہار کیا اور ایران سے خطے کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے اپنا بااثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ۔ تاہم رئیسی نے کہا کہ ’’مزاحمتی  گروپ اپنے فیصلے خود لیتے  ہیں۔‘‘

غزہ کی حمایت میں جہاں ایران، مصر، سعودی عرب  اورچین یا روس جیسے ممالک ہیں وہیں امریکہ کے بعد برطانیہ نے  بھی اسرائیل کی مدد کے لیے دو جنگی بحری جہاز اور نگرانی کرنے والے طیارے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے ترجمان نے پیر کو اعلان کیا کہ حماس کے اچانک حملے کے بعد برطانیہ  بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہ کر تشدد کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ وہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کو استعمال کرنے اور تشدد کے خاتمے کے لیے متناسب اقدامات کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ رشی سونک اور پی ایم مودی کے بیانات میں یکسانیت کے باوجود   برطانوی رکھ رکھاو اور احتیاط  واضح نظر آتا  ہے۔   ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ  اسرائیل تو  پہلے ہی فوجی اعتبار سے بہت جدید اور انتہائی مضبوط   ملک  ہے اور اس پر حملہ کرنے والی صرف ایک چھوٹی سی تنظیم ہے پھر بھی  اسرائیل کو دوسرے ممالک سے فوجی مدد کیوں  درکار ہے؟   اسرائیل کے ساتھیوں نے مدد  کا اعلان کرکےاس کی طاقت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے ابھی تک فلسطین اور اسرائیل تنازع  پر اظہار خیال تو نہیں کیا مگر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے 13؍  اکتوبر کو اپنے جموں و کشمیر کے دورے پر ایک ایسا بیان دے دیا جو  بلا واسطہ حماس  کی حمایت میں چلا جاتا  ہے۔  موہن بھاگوت نے عدم تشدد پر زور دینے کے ساتھ  یہ بھی کہا کہ جو بھی طریقہ ضروری ہے اسے ان لوگوں سے نمٹنے کے لیے اپنانا ہوگا جو سماج اور قوم کو نقصان پہنچانا یا توڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح پیسہ غریبوں کی مدد کے لیے دیا جاتا ہے اسی طرح کمزوروں کی حفاظت کے لیے طاقت کا استعمال  کیا جانا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ کہ یہ  اقدار ہمارے مذہب میں شامل ہیں۔ وہ بولے  جہاں کمزوروں کو ظالموں سے بچانے کی ضرورت ہے وہاں ضرورت کے مطابق طاقت کے استعمال کے لیے بالکل تیار رہنا چاہیے۔اگر ہم دنیا میں کمزوروں کو ظالموں سے بچانا ہے تو ہاتھوں میں ہتھیار رکھنا ہی ہوگا۔ ، اس سلسلے میں ہر ایک کو اپنی حفاظت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔    سنگھ سربراہ کے بیان میں  تین باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں ۔ سب سے پہلے انہوں اس اصول کا اطلاق  سرزمین ہند تک محدود کرنے کے بجائے دنیا بھر کے مظلوموں کے تحفظ پر کیا ۔ اس لیے اسے  غزہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہاں مظلوم فلسطینی ہیں اور حماس ان کو ظالم صہیونیوں کی غلامی سے نکالنے کی خاطر مسلح جدوجہد کررہی ہے ۔  موہن بھاگوت نے بھی اس ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔ ان کی یہ تقریر بلواسطہ تو فلسطینیوں کے حق میں نہیں ہے مگر بلا واسطہ ان کے موقف کی حمایت کرتی ہے ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ  یہ بیان دورانِ  جنگ ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے منظر عام پر آگیا جو آنکھ موند کر اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں ۔   یہ عجیب اتفاق ہے کہ  ایک طرف بھاگوت مسلح جدوجہد کی تائید کرتے ہیں اور دوسری جانب بائیڈن غزہ  پر قبضہ کر نے روکتے ہیں۔ ھنیہ جب  عزم و حوصلے اظہار کرتے ہیں تو  رئیسی اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں ۔

Comments are closed.