یوم سرسید: غور و خوض کے چند پہلو

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
[email protected]
یہ ایک بدیہی صداقت ہے کہ نوع انسانی کی تہذیب و ترقی اور صالح ثقافت و تمدن کے ارتقاء کی داستان بدون علم و دانش اور فضل و کمال کے مکمل نہیں ہوسکتی ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ اب تک کائنات میں جن معاشروں اور قوموں کی قدر و منزلت اور تفوق و رتبہ ، فضیلت و برتری قائم ہے وہ صرف اور صرف علمی ، تحقیقی ، فکری اور نظریاتی توسع ، اور تہذیبی تنوع کی وجہ سے ہے ۔ لیکن آج فکری اور نظریاتی سطح پر ہمارا ان پڑھ معاشرہ نہیں بلکہ اصحاب علم وفضل کا طبقہ کہاں کھڑا ہے خود اپنا محاسبہ کرے؟ معاشرتی تجزیہ کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اداروں ، تدریسی نصابوں میں ہی جمود و تعطل نہیں ہے بلکہ فکر و نظر اور زبان و بیان میں بھی وہی فکری تنزلی اور مسلکی عصبیت نظر آتی ہے ۔ جو یقیناً ہم سب کے لیے اور حساس معاشرے کے لیے آج کا نہایت قابل غور پہلو ہے ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی اور معمار قوم سرسید نے جس فکری اور عملی ورثے کی بنیاد رکھی تھی، کیا آج اس ورثے کی نام نہاد امین و پاسبان مخلوق ،ان کی چیزوں اور ان کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہے ؟ ہمیں اپنے کردار و عمل کا واقعی سنجیدگی سے موازنہ کرنا ہوگا اور پھر دیکھنا ہوگا کہ سرسید نے قومی فلاح و بہبود اورترقی کی معراج تک قوم و ملت اور ملک کو پہنچانے کے تئیں کن اصولوں کو مد نظر رکھ کر کام کیا تھا ۔ سال بھر میں ایک پروگرام کرنے اور سر سید کے یوم پیدائش پر جشن منانے سے قوم و سماج کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ہے ۔ ٹھیک ہے جشن سید منایا جائے اور انہیں خراج عقیدت بھی پیش کیا جائے، لیکن کیا ہم اس موقع پر سر سید کے پیغام کو آگے بڑھانے اور علم کی شمع روشن کرنے کا بھی کوئی منصوبہ مرتب کرتے ہیں؟ ہر گز نہیں ۔ غور کیجیے کہ حقیقت میں ہم سر سید کے عاشق صادق ہیں تو ہر سال کم از کم ان علاقوں میں جہاں تعلیم و تربیت اور علم و ادب کے ادارے نہیں ہے ایک ادارہ قائم کردیا جائے ۔ زیادہ بڑھا نہیں صرف انٹر کالج تک ۔ ذرا تصور کیجیے آزادی کے بعد سے اگر ہم یہ کام کرنا شروع کر دیتے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اب تک ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال وہ نہیں ہوتی جو اب ہے ۔ تعلیمی میدان میں ہماری قوم کس قدر پستی ، تنزلی اور سطحیت کا شکار ہے اس پر کبھی نگاہ تدبر ان افراد نے ڈالی ہے جو سرسید کے جانشین کہلائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم حکومتوں سے شکایت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے حصول تعلیم کے اس قدر مواقع نہیں دیئے، جس قدر ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو ملنے چاہیے۔ حکومتوں سے سوال کرنے سے قبل ہمیں خود اپنے حالات کا تجزیہ کرنا ہوگا اور جو وسائل و ذرائع ہمیں ملے ہیں ان کو استعمال کرتے ہوئے تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ سر سید کے پورے لٹریچر اور ان کی کتابوں کو پڑھ لیجیے انہوں نے کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ میں یہ ادارہ تعمیر کرکے جارہاہوں اس میں اقرباء پروری داخل کردینا۔ اس کی منفعت کو چند ہاتھوں میں محصور کر دینا ۔ برادری ، ذات اور علاقائیت کے نام پر ادارہ کا وقار مجروح کردینا ۔ لیکن آج یہ سب چیزیں اس قومی اور ملی ادارے میں پائی جارہی ہیں اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ پائی جارہی ہے ۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں نہ سر سید سے کوئی محبت ہے اور نہ سر سید کے اس ادارے سے جسے آج عالمی سطح پر دانش گاہ علی گڑھ کے نام سے یاد کیا جاتاہے ۔ جب ہم اس ادارے کی وسعت و پھیلاؤ کو محدود کرتے ہیں اور ادارے کے مفاد کے مقابلے اپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں تو یقیناً روح سید مجروح ہوتی ہوگی! یاد رکھنا ہوگا! علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک قومی اور ملی ادارہ ہے اس کے خمیر میں ان ہستیوں اور بزرگوں کی روح شامل ہے جنہوں نے ہمیشہ ملک و قوم اور ملت و انسانیت کے حقوق کو ترجیح دی ،خواہ انہیں کتنا بھی بڑا خسارہ اٹھانا پڑگیا ہو۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہم اس قومی ،عوامی ، اجتماعی اور تحریکی ادارے کی وسعتوں اور اس کی قدروں کو محض معمولی مفادات کے آگے روند ڈالتے ہیں ۔
لیکن یہ واقعہ ہے کہ تاریخ میں ایسے کردار ہمیشہ موجود رہے ہیں جنہوں نے وہیں کھایا اور وہیں چھید کیا ہے ۔ آج بھی سرسید کے اس ادارے میں ایسی موقع پرست اور مفاد پرست ہستیاں موجود ہیں جو بظاہر تو بڑی بھولی بھالی اور مخلص و صادق نظر آتی ہیں ، نیز قوم و ملت کے لیے بھی ان کی تقریر و تحریر سے ہمدردی کے خوشے پھوٹتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ گویا یہ طبقہ ایسا ہے جسے موقع مل جائے تو ایک لمحہ میں ادارہ فروخت کرسکتا ہے۔ اس طبقہ کو پہچاننا بہت ضروری ہے تاکہ کسی بھی طرح سے یہ لوگ ملت کے اس اثاثے کو خرد برد نہ کرسکیں ۔
المیہ یہ بھی ہے کہ قومی اور ملی نوعیت کے آج جتنے بھی ادارے ہیں تقریبا ان کی صورت حال تشویش ناک حد تک مجروح ہوچکی ہے ۔ انہیں بیرونی اور باہری طاقتوں نے کم بلکہ ان کے اندر کے عملے نے نقصان زیادہ پہنچایا ہے ۔ شرمناک بات یہ ہے کہ اجتماعیت اور عوامی بہبود جن اداروں کا امتیاز تھا آج ملکی سطح پر ان پر نظر ڈال لیجے تو اندازہ ہوگا کہ ان اداروں کی یہ صفت حسنہ تو اب پوری طرح معدوم ہوچکی ہے۔ افرا تفری اور خود غرضی کا یہی حال باقی رہا تو جہاں ابھی بھی تھوڑا بہت اجتماعی مفادات کا خیال کیا جاتا ہے، چند برسوں میں وہاں سے بھی رخصت ہوجائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ اس کیفیت سے عوامی اور قومی اداروں کو کس طرح محفوظ و مامون رکھا جائے ؟ ہماری بد دیانتی اور بد عہدی کا سلسلہ بہت دراز ہے، اس کو اب روکنا ہوگا اور قومی اداروں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا ، تبھی جاکر معاشرتی سطح پر امن و امان اور اخوت و ہم ہنگی پیدا ہوسکے گی ۔ ہمیں سر سید اور ان کے رفقاء کار نے جو درس دیا ہے اور جس فکری و نظریاتی پاکیزگی کا انہوں نے عملی مظاہرہ کیا ہے اس کا عشر عشیر بھی ہمارے یہاں موجود نہیں ہے ۔
یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جن پاکیزہ روایات ، قومی مفاہمت ، انسانی حقوق اور سماجی حقوق کی بازیابی کے لیے جانی جاتی تھی، کیا وہ تمام چیزیں اور ان کا احساس لطیف آج بھی ہمارے وجود اور زبان و بیان میں موجود ہے، یا پھر وہ تمام باتیں اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں ؟ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ اب یونیورسٹی کی ان روایات کو جن سے نوع انسانی کے حقوق کے تحفظ و صیانت کی بو آتی تھی ۔ یا اس ادارہ کا جو تہذیبی اور تاریخی ورثہ رہا ہے وہ اب کہیں نہ کہیں مفقود ہوتا نظر آرہا ہے اس لیے ان تمام احساسات اور جذبات کو آج زندہ کرنے کی ہی ضرورت نہیں بلکہ ماضی کی طرح اپنے تمام تقدسات اور مفاخرا نہ اعمال جلیلہ میں از سر نو روح پھونکنی ہوگی ۔ ذرا سوچیے کہ جو چیزیں ہمیں دیگر اداروں سے ممتاز کرتی ہیں اگر اس ادارے سے وہ چیزیں ہی ختم ہو جائیں تو پھر ہماری وجہ ترجیح کیا بچے گی ؟ تعلیم و تربیت اور حصول علم کے تو ملک اور بیرون ملک میں بہت سارے ادارے ہیں لیکن ان میں وہ سوز ، درد اور جذبہ نہیں یا کہیں کہ وہ انسانیت اور رواداری کی تعلیمات نہیں جو سرسید کے اس ادارے سے ملتی ہیں ۔ سر سید نے قوم کے روشن مستقبل کے لیے جس تحریک کو وجود بخشا اور اسے ایک تناور درخت بنایا آج اس کی جڑیں ایک بار پھر متزلزل ہوتی نظر آرہی ہیں ۔ لوگ اس کی طرف شکوک وشبہات سے دیکھ رہے۔ پوری تہذیب زد میں ہے ۔ کچھ اپنے اور کچھ بیگانوں کی ذاتی منفعت اور حرص نے اسے بہت حد تک متاثر کرڈالا ہے اس لیے اس قومی ادارے کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا ۔ نیز جشن یوم سرسید کے موقع پر مزید جدید تعلیمی ادارے کھولنے کا عزم مصمم کرنا ہوگا تبھی صحیح معنوں میں ہم روح سید کو عافیت و چین پہنچا سکیں گے ۔

Comments are closed.