چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

ڈاکٹر سلیم خان
سفاک اسرائیل نے اپنے ساتھ مغرب کے چہرے پر پڑی فریبی نقاب کو بھی تار تار کرکے پھینک دیا ۔ حماس کے اسرائیل پر حملے کے دس دن بعد پچھلی صدی میں یہودیوں کے سب سے بڑے قاتل جرمنی کے چانسلر اولاف شولس اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی خاطر اسرائیل کے دورے پر آئے۔ اس طرح شولس حالیہ کوحالیہ کشیدہ صورت حال میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی حکومتی سربراہ کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ اس دورے مقصد اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ تھا۔ ان سے قبل جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے بھی اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور وہاں حماس کی طرف سے غزہ میں یرغمالی بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے رشتہ داروں سے ملاقات کی تھی۔ کاش کے وہ غزہ میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کرتیں لیکن اس صورت میں اسرائیل کی بمباری سے مرنے کا خطرہ تھا جو انہوں نے مول نہیں لیا۔ اس کے بعد برلن میں اردن کے شاہ عبداللہ نے جرمن چانسلر سے ملاقات کی ۔ دونوں کی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے دھمکی دی کہ، ”میں واضح طور پر حزب اللہ اور ایران کو خبردار کرتا ہوں کہ وہ اس تنازعے میں مداخلت نہ کریں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ دوسروں کو مداخلت سے منع کرنے والے شولس خوداسرائیل کا دور کرکے اس کی حوصلہ افزائی کیوں کررہے ہیں؟ اس کے ساتھ انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وہ امریکہ اور برطانیہ کو بھی اسرائیل کے حق میں مداخلت کرنے سے روکتے لیکن ایسا کرنا مغرب کے منافقانہ رویہ کے خلاف تھا ۔ جرمن چانسلر نے علامہ اقبال کا اس شعر کی تصدیق کردی ؎
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
اسرائیل میں بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کرنے کے بعدجرمن رہنما مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کرکے ”وار زون‘‘ کی صورت حال پر بات چیت کی تاکہ موجودہ کشیدگی میں اضافے کو روکا اور حالات کو مزید بگڑنے سے بچایا جا سکے۔ جرمن چانسلر کا خیال تھا کہ مسلسل مذاکرت کرتے رہنے سے معاملات طے کرنے اور ایک ایسا نقطہ نظر تیار کرنے میں مدد ملے گی، جو کشیدگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو ۔ ان کو حماس کے یرغمالیوں میں موجود جرمن باشندوں کی فکر ستا رہی تھی لیکن غزہ میں شہید ہونے والوں کا بالکل خیال نہیں تھا کیونکہ یہ لوگ اپنے سوا دوسروں کو انسان ہی نہیں سمجھتے ۔مغربی طاقتوں کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کے اظہارنے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں نہ صرف اضافہ کرنے کے ساتھ ان کی منافقانہ انسانیت نوازی کا پردہ بھی فاش کردیا ۔
جرمن چانسلر شولس کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل آکر وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے مذاکرات کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔ اس کی بابت ایک ہفتہ سے علاقہ میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بتایا کہ صدر بائیڈن اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی یکجہتی اور اس کی سلامتی کے لیے ایک مضبوط عزم کا اعادہ کرنے کے لیے آرہے ہیں۔ بلنکن نے کہا کہ اسرائیل، خطے اور دنیا کے لیے ایک انتہائی اہم وقت پر بائیڈن اسرائیل آرہے ہیں۔ وہ اسرائیل سے جاننا چاہیں گے کہ اسے اپنے لوگوں کی دفاع کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے اور امریکہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کانگریس کے ساتھ کام جاری رکھے گا ۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے تل ابیب میں بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ تقریباً آٹھ گھنٹے تک بات چیت کے بعد تصدیق کی کہ اسرائیل اور واشنگٹن نے غزہ میں امداد کے لیے ایک منصوبہ تیار کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ امریکہ نے غریبوں اور غزہ پٹی میں محصور افراد کو غیر ملکی امداد پہنچانے کے لیے کام کرنے کے خاطر اسرائیل سے یقین دہانی بھی حاصل کی ہے۔
بائیڈن کے دورے سے متعلق امریکہ میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے بھی کہا کہ امریکی صدر فلسطینی شہریوں کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کے بارے میں بھی بات کریں گے۔ یہ اقدام اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر چوبیس گھنٹے کے اندر غزہ میں امداد نہیں پہنچی تو "اصل تباہی” شروع ہو جائے گی۔اسرائیل کے بعد بائیڈن کے بعد اردن جاکر شاہ عبداللہ، مصر کے صدر عبدالفتح السیسی اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات کرنے والے تھے ۔اس دوران غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی میں "انسانی بنیادوں پر جنگ بندی” کا مطالبہ کرنے سے متعلق روس کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی جو وقت کی اہم ترین ضرورت تھی ۔ روسی قرارداد میں قیدیوں کی رہائی، انسانی امداد کی فراہمی اور ضرورت مند شہریوں کے محفوظ انخلاء کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔
سلامتی کونسل کی اس قرارداد کے حق میں پانچ اور مخالفت میں چار ووٹ آئے جب کہ چھ ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ روس سمیت چین، متحدہ عرب امارات، موزمبیق اور گیبون نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیئے جب کہ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جاپان نے قرارداد کی مخالفت کی ۔ ان کے علاوہ البانیہ، برازیل، ایکواڈور، گھانا، مالٹا اور سوئٹزرلینڈ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس طرح قرار داد کے مخالف یعنی جنگ کے حامی صرف چار ممالک تھے مگر ان لوگوں نے ویٹو کا استعمال کرکے اسرائیل کو اپنی جارحیت جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ دے دی ۔ اس قرارداد کے ناکام ہوجانے پر روسی مندوب نے کہا کہ اس کا مقصد ایک ”باعزت” انسانی جنگ بندی کا مطالبہ کرنا تھا لیکن سلامتی کونسل کے اراکین نے اس منصوبے کے بارے میں کوئی تعمیری تجاویز پیش نہیں کیں۔ انہوں نے بجا طور پر سلامتی کونسل کو ”مغربی دنیا کی خود غرضی کا یرغمال” قرار دیا۔ اس کے برعکس امریکی مندوب نے قرارداد کے مسودے میں حماس کی مذمت نہیں کرنے کے سبب اسے منافقت اور ناقابل دفاع پوزیشن قرار دیا۔ سچ تو یہ ہے اس سے پہلے والی نشست میں امریکہ کا اسرائیل کی مذمت کرنے سے کترانا اس کا منافقانہ رویہ تھا ۔
امن کے دشمن برطانوی مندوب نے بھی کہا کہ وہ کسی ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کر سکتے جس میں اسرائیل کے خلاف حماس کے حملوں کی مذمت نہ ہو۔اس کا مطلب تو یہ ہے ان لوگوں کے نزدیک انسانی جانوں کو بچانے سے زیادہ اہمیت مذمت کرنے کی ہے ۔ امریکہ ، جرمنی اور برطانیہ کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے سب سے بڑے اسپتال پر بمباری کرکے پانچ سو سے زیادہ لوگوں کو شہید کردیا ۔ اس بابت پہلے تو اسرائیل کی جانب سے یہ ٹویٹ آیا کہ وہاں حماس کے لوگ چھپے ہوئے تھے اس لیے حملہ کیا گیا مگر بعد میں اسے ہٹا کر یہ کہانی گھڑی گئی کہ حماس کے میزائیل سے وہ دھماکہ ہوا ۔ اسرائیل کی اس سفاکی نے جو بائیڈن کے دورے کی مٹی پلید کردی ۔ اسپتال پر حملے کے بعد مصر، اردن، لبنان، قطر، کویت، سعودی عرب، پاکستان ، ایران اور خطے کے دوسرے ممالک نے اسے وحشیانہ جنگی جرم قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ مصر نےاسپتال میں نہتے فلسطینیوں پر بمباری کو انسانی حقوق ، بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کی کھلی خلاف ورزی قرار دے کر ایک ناقابلِ قبول گھناؤنا جرم بتایا ۔ سعودی عرب کے ساتھ ترکیہ، عمان، قطر اور مصر اور دیگر ملکوں نے بھی اس انسانیت سوز حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ سعودی عرب نے کہا کہ یہ خطرناک پیش رفت بین الاقوامی برادری کو مجبور کرتی ہے کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کو لاگو کرنے میں دوہرہ معیار ترک کرے۔سعودی عرب نے غزہ میں پھنسے شہریوں تک خوراک اور ادویات کی فراہمی کے لیے فوری طور پر محفوظ راہداری کھولنے کا بھی مطالبہ کیا۔
مسلم ممالک کے علاوہ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن اور حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوربن نے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی مذمت کی ۔ کوربن نے کہا کہ غزہ پر قابض اسرائیل کی بمباری ختم کی جائے، ایک منصفانہ اور مستحکم امن کے حصول کی کوشش کی جائے اور غزہ میں معصوم لوگوں کا قتل عام بند کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں عوام کو بنیادی ضروریاتِ زندگی جیسے پانی اور بجلی سے محروم کرنا غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور جنگی جرم ہے۔انہوں نے ملک کے ہر سیاسی رہ نما سے کہا کہ فلسطینی عوام کے جنگی جرائم اور اجتماعی سزاؤں کو معاف نہ کریں ۔اگر آپ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں تو آپ کو غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جو کچھ ہو رہا ہے اسے معاف نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ کینیڈا کی حکومت نے بھی اسپتال پر اسرائیلی بمباری کو وحشیانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کی عالمی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔اسرائیل کی اس مجرمانہ حماقت نے امریکی سفارتکاری کو پٹری سے اتار دیا کیونکہ اردن کے شہر عمان میں امریکی صدر بائیڈن کے ساتھ عرب رہنماؤں کی سربراہی ملاقات منسوخ کر دی گئی ۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ اب عقل کے ناخون لے اور اسرائیل کی پشت پناہی بند کرے ورنہ پوری مسلم دنیا چین اور روس کے ساتھ چلی جائے گی اور مٹھی بھر یوروپی ممالک کے ساتھ وہ عالمی بساط تنہا ہوجائے گا ۔ اس طرح اسرائیل کے ساتھ اس کی چودھراہٹ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اسرائیل کے ساتھ دوستی کادم بھرنے ہندوستان پر بھی غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
Comments are closed.