ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم مودی کو غزہ کے اسپتال پر بمباری کے بعد اپنی غلطی سدھارنے کا نادر موقع ملا۔ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اسپتال پر حملے سے شہید ہونے والوں کے تئیں اپنے رنج و غم کا اظہار کرنے کیا اور اس کی مذمت کی ۔ اس کو کافی نہیں سمجھا گیا اس لیے انہوں نے ازخود محمود عباس کو فون کرکے ان سے بات چیت کی۔ نیتن یاہو اور محمود عباس کی گفتگو میں بہت بنیادی فرق تھا ۔ پہلا فون اسرائیل سے آیا، جس میں وہاں کے حالات سے آگاہ کیا گیا تھا اور دوسرے میں پہل خود مودی کی جانب سے کی گئی تھی ۔ نیتن یاہو سے فون پر گفتگو درمیانی پڑاو تھا مگر آگے چل کرہوا کا رخ تبدیل ہونے پر وزارتِ خارجہ نے حماس کے حملے کو دہشت گردی قرار دینے کے ساتھ فلسطین کی آزاد ریاست کے حق میں ہندوستان کے سابقہ موقف کا اعادہ بھی کردیاتھا ۔ اس طرح گویا توازن قائم کرنے کی شروعات ہوئی جو بالآخر گزشتہ غلطی کا احساس کرنے کے بعد اصلاحِ حال کی سعی میں غزہ کے لیے امدادی قافلہ پر منتج ہوئی لیکن اس وقت تک بہت تاخیر ہوچکی تھی۔ اس بیچ ساری دنیا کے سامنے وزیر اعظم کے سینے میں مسلمانوں کے خلاف چھپا بغض و کینہ کھل کر سامنے آچکا تھا۔ اس صورتحال پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
آخرِ شب دید کے قابل تھی بِسمل کی تڑپ صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
ابتداء میں اسرائیلی حکومت کی گیدڑ بھپکی سے ساری دنیا بشمول حکومتِ ہند کو یہ توقع تھی کہ اب چند گھنٹوں کے اندراسرائیل کے لاکھوں فوجی غزہ میں داخل ہوکر اپنی فتح کا پرچم لہرا دیں گے اور اس کے بعد حماس نام کی کسی شئے کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ بعید نہیں کہ اس منظر کو براہِ راست نشر کرنے کی خاطر گودی میڈیا کے صحافیوں کو اسرائیل روانہ کیا گیا ہو تاکہ اس جشن کی آڑ میں پانچ صوبوں کا انتخاب جیت لیا جائے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں 19؍ سالہ طویل حکومت کے دوران ہر محاذ ناکامی کے بعد بی جے پی میں ووٹ مانگنے کے کی جرأت تو ہے نہیں ،اس لیے وہاں زعفرانی سیاستداں مقامی اور صوبائی مسائل کے بجائے اسرائیل اور حماس کا شور مچا رہے ہیں ۔ ان لوگوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسرائیلی فوج اب بھی غزہ میں داخل ہونے ہمت نہیں جٹا پارہی ہے۔ امریکی صدر بائیڈن کے منع کرنے پر ان کے حوصلے اور بھی پست ہوچکے ہیں۔
غزہ کے معاملے میں امریکی صدر جو بائیڈن کی منافقت بامِ عروج پر ہے۔ ایک طرف تو وہ امداد کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری جانب حماس کے قلع قمع کا عزم بھی کرتے ہیں لیکن ان کی نیت کا فتور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یکے بعددیگرے تین مرتبہ سامنے آیا۔ پہلے اجلاس میں امریکہ نے حماس کے حملے کی مذمت تو کررہا تھا مگر اسرائیلی بمباری پر کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ روس اور چین نے اسرائیل کی مذمت پر بھی اصرا رکیا تو سلامتی کونسل نے اجلاس کے بعد کوئی بیان ہی جاری نہیں کیا۔ اس کے بعد یو این ایس سی میں روس نے جنگ بندی اور انسانی بنیادوں پر راحت کا سامان پہنچانے کے لیے تجویز پیش کی۔ اس کے حق میں پانچ ممالک تھے جبکہ مخالفت میں چار ہی تھے۔ بقیہ ۶؍ لوگوں اپنے آپ کو دور رکھ لیا تھا تاکہ پاسباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی۔ یہ تجویز منظور ہوجاتی اگر ویٹو کا حق نہ ہوتا مگر اس کو امریکہ اور برطانیہ دونوں نے ویٹو کردیا تاکہ اسرائیلی بمباری کو کھلی چھوٹ مل سکے ۔ یہ اسپتال پر بمباری سے پہلے کی بات ہے۔
اسپتال پر بمباری کے بعد دوسری تجویز سلامتی کونسل کے سربراہ برازیل کی جانب سے پیش کی گئی۔ برازیل اس قدر فکرمند تھا کہ اس نے امریکہ اور برطانیہ کی شرائط کو قبول کرتے ہوئ۷؍ اکتوبر کے حملے کی مذمت کردی تاکہ امریکہ کو پھر سے ویٹو کرنے کا موقع نہ ملے۔ اس نے احتیاطاً اسپتال کی بمباری کا ذکر بھی نہیں کیا۔ اس تجویز کے حق میں پندہ میں سے بارہ ارکان آگئے۔ روس اور برطانیہ نے ووٹ دینے سے احتراز کیا۔ روس کو غالباً ۷؍ اکتوبر کے حملے کی مذمت پر اعتراض رہا ہوگا۔ برطانیہ کو بھی مخالفت کرنے میں شرم محسوس ہوئی مگر امریکہ کو عار نہیں آئی ۔ وہ اکیلا ملک جنگ بندی کےخلاف تھا مگر پھر سے ویٹو پھر ویٹو کا استعمال کردیا۔ اس بار یہ اصرار تھا کہ اسرائیل کے اپنی مدافعت کا حق تسلیم کیا جائے۔ یہ صرف بہانہ بازی تھی اگر اسے بھی مان لیا جاتا تو جنگ کو جاری رکھوانے کی خاطر کوئی اور بہانہ تراش لیا جاتا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا مدافعت کا حق صرف اسرائیل کو ہے ؟ اورفلسطینیوں کو نہیں ہے؟ اس کے علاوہ بچوں ، بزرگوں اور خواتین پر فاسفورس بم برسانا کون سی مدافعت ہے۔ اس کو تو ساری دنیا میں سرکاری دہشت گردی یا اجتماعی سزا کہتے ہیں لیکن اسرائیل اگر اس جرم کا ارتکاب کرے تو اسے مدافعت کا خوبصورت نام دے دیا جاتا ہے۔
اسرائیل کی اسی بربریت کے خلاف مسلم ممالک کے علاوہ یوروپ کےکئی شہروںمیں مظاہرے ہوئے ۔ امریکہ کے اندر تو کچھ مقامات پر یہودیوں تک نے احتجاج کیا اس کےباوجود یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ آخر حماس نے یہ حملہ کیوں کردیا؟ اس معاملے کو سمجھنے کے لئے ایک واقعہ پر نظر ڈالیں۔ بیت المقدس کےقریب شیخ جراح نامی محلہ میں یعقوب نامی ایک اسرائیلی آبادامریکہ سے آ کر فلسطینی کرد خاندان سے ایک گھرلے لیتا ہے۔اپنے غاصبانہ قبضے کے بعد وہ کہتا ہے کہ ‘ اگر میں تمہار اگھر نہیں چراوں گا تو کوئی دوسرا چرا لے گا یعنی اپنے قبضے میں لے لے گا ۔ اس لئے مجھے ہی بیچ دو‘۔دنیا بھر سے آنے والے یہودی آباد کاروں نے مقامی باشندوں کے گھروں کو اسی طرح ہتھیا رکھا ہے ۔ فلسطینیوں کی اپنی رقم سے خریدی گئی زمین پر بنے گھر ان سے دھمکا یا بلیک میل کر کے لے لیے جاتے ہیں ۔ حکومت سر پرستی میں لوٹ کھسوٹ کا یہ ننگا ناچ برسوں سے جاری ہے۔ اسرائیل کے کئی وزیر بشمول سموتریچ فلسطینی شہریوں کے گھروں کو قبضے میں لینے کی کھلے عام حمایت کرتےہیں ۔ اس پالیسی کو فلسطینیوں کی بے دخلی کانام دیا گیا ہے۔
اسرائیلی آباد کاروں کے ذریعہ مقامی فلسطینیوں کے خلاف جرائم اور حملوں کا ارتکاب عام ہے۔ اس ظلم اور جبر میں آئے دن غاصبوں کے بجائے مظلوموں کی گرفتاریاں ۔ چھاپے، پھانسیاں، جائیدادوں کی ضبطی اور گھروں کی مسماری ہوتی ہے۔یہودی آباد کار فوجی سرپرستی میں حملے کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں صرف سال 2023 کے دوران اب تک 600 حملے ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق 2022 میں 399 فلسطینیوں کے گھروں پر قبضے کیے گئے ۔اسی طرح اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے میں چار لاکھ نوے ہزار یہودی آباد کار ناجائز طور پر بسائے گئے ۔حتی کہ مسجد اقصی پر یہودی لوگ بشمول یہودی خواتین مسلسل حملے کرتے ہیں۔ اس طرح کے خوف اور دھمکیوں کی فضا مسلسل جاری رہتی ہے۔ تو آخر اسے کنب تک برداشت کیا جائے ۔ یہ آتش فشاں کبھی نہ کبھی تو چھلکنا ہی تھا سو اب چھلک گیا۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ اب یہ حالت ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے نمائندہ نے کہہ رہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بمباری کر کے اپنے آباد کاروں و فوجیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
حماس کے حملے کواسرائیل اپنا’نائن الیون’ قرار دے رہا ہے جب کہ فلسطینی اسے ’طوفان الاقصیٰ‘ کے نام سے دیاکرتےہیں ۔ اسرائیل مسیحیوں پر بھی حملےکرتا ہے مگریوروپ اور امریکہ کے عیسائی ممالک اپنے سیاسی مفاد کی خاطر مسلمانوں تو دور عیسائیوں کی جانب بھی توجہ نہیں دیتے۔ اسرائیل کی بمباری نے جس نو سوسالہ قدیم گرجا گھر کو تباہ کیا وہ اپنی مدافعت تھی؟ 2006 میں حماس کی کامیابی کے بعد سے غزہ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے ۔ سترہ سال سےجاری اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے 23 لاکھ لوگ بنیادی اشیائے ضرورت سے محروم ہوگئے اور بے روزگاری و غربت کی شرح 65 فیصد پرپہنچ گئی۔غزہ کے اس طویل محاصرے کی وجہ سے وہاں صحت کے بھی غیر معمولی مسائل پیدا ہوگئے کیونکہ مریض علاج کے لئے باہر نہیں جا سکتے اور نہ ادویات کی فراہمی ہوتی ہے۔ اسرائیل کی طرف سے زیر محاصرہ غزہ پر بار بار جنگ مسلط کرکے بمباری کی گئی اور ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا گیانیز دسیوں ہزار مکانات تباہ کیے گئے۔ برطانوی رکن پارلیمان جارج گیلوے کے مطابق یہ مسئلہ نیا نہیں بلکہ اس وقت سے ہے جب اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کرکے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کر نے کے لیے قتل عام کیا تھا۔ انہوں ۷؍اکتوبر حملے کی بنیاد پر اسرائیل کادفاع کرنے والوں سے پوچھا کیا دنیا فلسطینیوں سے یہ توقع کرتی ہے کہ وہ اسرائیلی محاصرے اور مسلط کردہ موت کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں تاکہ یہودی آباد کارانہیں زندہ جلا دیں یا پھر مسجد اقصی کو ہی شہید کر دیں ۔یہ نہیں ہوسکتا ۔جارج گیلوے کا پیغام یہی ہے کہ اب اسرائیل اگر ظلم کرے گا تو وہ خود بھی چین کی نیند نہیں سوسکے گا اور اسی کے بطن سے فلسطین کی آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
Comments are closed.