القدس کی آزادی مسلمانوں کے ایمان کا جز ہے

فلسطینی اقتدار کے لیے نہیں بیت المقدس کی آزادی کے لیے شہید ہورہے ہیں

عبدالغفارصدیقی
9897565066
اسرائیل کے صیہونیوں اور غزہ کے مجاہدین کے درمیان سات اکتوبر سے شروع ہونے والا معرکہ ابھی جاری ہے ۔یہ کوئی معمولی جنگ نہیں ہے ،بلکہ یہ مقدس جہاد ہے ۔جنگ اور جہاد میں بڑا فرق ہے ۔جنگیں ذاتی مفادات کے لیے لڑی جاتی ہیں ۔جب کہ جہاد کا مقصد عدل و قسط کا قیام ہوتا ہے ۔جنگ میں کسی اصول اور ضابطہ کی پابندی نہیں کی جاتی ،جہاد میں بچوں ،عورتوں،معذوروں ،جہاد میں حصہ نہ لینے والوں کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا ،فصلوں کو تباہ نہیں کیا جاسکتا۔بھوک و افلاس سے نہیں مارا جاسکتا،اسکولوں ،عبادت گاہوں اور اسپتالوں پر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ فرق آپ کو بدرو احد کی وادی سے لے کر غزہ کے موجودہ معرکہ تک نظر آئے گا ۔صیہونیت کے علم بردار نہ صرف یہ کہ تورات کی جنگی ہدایات کی نافرمانی کررہے ہیں ،بلکہ موجودہ عالمی قوانین کو بھی ٹھینگا دکھارہے ہیں ۔ابھی تک غزہ پر بمباری کے نتیجے میں جو افراد جاں بحق ہوئے ہیں ان میں ،اسی فیصد بچے اور خواتین ہیں ،حماس کے مجاہدین تو دوچار ہی کام میں آئے ہیں ۔غزہ کے اسپتال کو نشانہ بنایا گیا جس میں500مریضوں کی جان چلی گئی ۔ایک قدیم چرچ کو نشانہ بنایا گیا جہاں درجنوں افراد شہید ہوگئے اور سینکڑوں زخمی ہوگئے ۔غزہ کی جانب سے صرف فوجی تنصیبات اور فوج کونشانہ بنایا جارہا ہے ۔
صیہونی بھی اس جنگ کو جہاد ہی سمجھتے ہیں ،وہ بھی زمین اور مال کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں ،بلکہ ان کی مذہبی کتابوں کے مطابق بیت المقدس کو منہدم کرکے وہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کیا جائے گا ،ہیکل کی تعمیر کے بعد ہی دجال آئے گا جو یہودیوں کو نجات دلائے گا ۔چونکہ اس خیال کو مذہب کی سند حاصل ہے ،اس لیے ہر یہودی ہیکل سلیمانی کی تعمیر کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتاہے ۔مسلمانوں کے نزدیک مسجد اقصیٰ جسے بیت القدس بھی کہتے ہیں ،ان کا قبلہ اول ہے ۔اس کی طرف رخ کرکے نبی اکرم ﷺ نے نماز پڑھی اور پڑھائی ہے ۔یہی وہ مسجد ہے جہاں سفر معراج پر جاتے ہوئے نبی ﷺ نے جملہ انبیاء کی امامت کی تھی اور یہیں وہ چٹان (قبۃ الصخراء) ہے جہاں سے سفر معراج شروع ہوا تھا ۔اس لحاظ سے نہ صرف یہ مقامات تاریخی ہیں بلکہ دینی حیثیت رکھتے ہیں ،اسلام میں صرف تین مساجد کی جانب ثواب کے مقصد سے سفر کیا جاسکتا ہے ،ان میں ایک مسجد الحرام ،دوسری مسجد نبوی اور تیسری مسجد اقصیٰ ہے ۔عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش یعنی بیت اللحم یہیں واقع ہے۔ عیسائیوں کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہیں مصلوب کیا گیا اور اسی شہر میں ان کا سب سے مقدس کلیسا Church of Holy Sepulchre ہے۔یعنی اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ وقت میں موجود تینوں آسمانی مذاہب کے لیے یروشلم اور مسجد اقصیٰ و قبۃ الصخراء ان کے دین و ایمان کا حصہ ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔اس شہر پر قبضہ کی جنگ صدیوں پرانی ہے ۔حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں اس کو عیسائیوں سے آزاد کرایا گیا تھا ،جس میں کسی جنگ کی نوبت نہیں آئی تھی ۔خود حضرت عمر ؓ تشریف لائے تھے اور عیسائیوں نے مسجد اقصیٰ کی چابیاں ان کے حوالہ کردیں ۔اس کے بعد اس پر دوبارہ عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا تو صلاح الدین ایوبیؒ نے اس کو آزاد کرکے اسلامی مملکت میں شامل کرلیا تھا ۔عثمانی خلافت کے زوال تک یہ پورا علاقہ مسلم سلطنت کے زیر کنٹرول تھا ۔بعد میں برطانیہ نے قبضہ کرلیا اور 1948میں جب اس علاقہ کو آزاد کیا تو دو حصوں میں تقسیم کردیا جس میں اصل عرب مسلم آبادی کو چالیس فیصد اور غاصب یہودی آبادی کو ساٹھ فیصد رقبہ دے دیا گیا ۔مگر صیہونیت کی توسیع پسندانہ ذہنیت نے کبھی فلسطینیوں کو سکون سے نہیں رہنے دیا ،مغربی ممالک کی مجرمانہ خاموشی ،اور پشت پناہی نے اسرائیل کو جارحیت کے لیے کھلا چھوڑ دیا ،آج اسرائیل نوے فیصدزمین پر عملاً قابض ہے اور باقی دس فیصد حصہ بھی حکماًاسی کے کنٹرول میں ہے ،اس کی مرضی کے بغیر وہاں پانی کی ایک بوند بھی نہیں جاسکتی ،خود غزہ جو حماس کے زیر کنٹرول ہے وہاں ادویات ،خوردو نوش کی اشیاء ،بجلی ،پانی وغیرہ کی بڑی ضرورت اسرائیل سے پوری ہوتی ہے ،اسرائیل کی فوج کا ہر وقت محاصرہ رہتا ہے ،فلسطین کی اپنی کوئی فوج نہیں ہے ۔
حماس ایک اسلام پسند سنی تحریک ہے ۔یہ فلسطین کی سب سے بڑی اور منظم تنظیم ہے ۔یہ 1987میں قائم ہوئی تھی ،اس کے قیام کا مقصد ہی اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کرنا تھا ۔حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے۔پہلا معاشرتی امور جیسے کہ اسکولوں ،ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کے لئے مختص ہے اور دوسرا گروہ اس کی عسکری شاخ، شہید عزالدین القسام بریگیڈ ہے جو فلسطین کا دفاع کرتی ہے۔2006کے انتخابات میں حماس کو الفتح کے مقابلہ زبردست کامیابی حاصل ہوئی ،لیکن امریکہ اور اسرائیل نے الفتح کی پشت پناہی کرکے دونوں جماعتوں میں شدید اختلافات پیدا کرادیے جس کے نتیجہ میں خود فلسطین بھی دوحصوں غزہ اور مغربی کنارہ (ویسٹ بینک) میں تقسیم ہوگیا ۔اس وقت غزہ پر حماس اور ویسٹ بینک پر الفتح کا کنٹرول ہے ۔بعض گروہوں کا خیال ہے کہ حماس کو اسرائیل نے ہی قائم کیا ہے تاکہ خطہ میں امن قائم نہ ہو اور فلسطین کو آزادی نصیب نہ ہو ،بعض لوگوں نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ترکی کے رجب طیب اردگان اور مصر کے سابق صدر مرسی نے اسرائیل سے کوئی خفیہ سمجھوتا کیا تھا جس کے بدلہ میں انھیں امریکہ سے بڑی رقم ملی تھی ۔میرا خیال ہے کہ یہ محض افواہیں ہیں ۔غیب کا علم اللہ کو معلو م ہے ۔اگر حماس کی طرف سے کوئی غیر اسلامی اور غیر انسانی جرم ہوتا ہے تو اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی ۔البتہ موجودہ جنگ میں عام فلسطینیوں کی شہادت اور غزہ کی تباہی پر خاموشی بھی ایک بڑا جرم ہے۔
عیسائیوں کے بالمقابل یہودی اسلام دشمنی میں پیش پیش رہے ہیں ،یہودیوں میں بھی دو بڑے گروپ ہیں ،ایک عرب یہودی ہیں جن کی زبان عربی ہے ،جو مسلمانوں کے ساتھ پندرہ سو سال سے رہ رہے ہیں ،دوسرے وہ یہودی ہیں جو مغربی ممالک سے وہاں جاکر آباد ہوئے ہیں ،ان پر ہٹلر نے ظلم کیا تھا ،اس لیے ان کے اندر انتقام کی آگ ہے ،انھیں کو صیہونی کہا جاتا ہے ،ان کی زبان عبرانی ہے ۔یہ لوگ ہٹلر کے مظالم کا بدلہ مسلمانوں سے لے رہے ہیں ۔
امریکہ اوربرطانیہ اسرائیل کے بڑے مدد گارہیں ۔حالیہ جنگ میں بھی صدرجوبائڈن سمیت امریکہ کے کئی ذمہ داران حکومت نے وہاں کا دورہ کیا اور ہر ممکن مدد کی ہے۔برطانوی صدر نے بھی اظہار عقیدت و محبت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے ۔ان ممالک کی اس مدد کے پیچھے یہودیوں سے محبت کا جذبہ کارفرما نہیں ہے بلکہ وہ نہیں چاہتے کہ اسرائیل کو شکست ہو اور یہودی ایک بار پھر مغربی ممالک کا رخ کرکے وہاں مسائل پیدا کریں ۔بھارتی وزیر اعظم نے اسرائیل سے جس محبت کا اظہار کیا ہے اس کے پیچھے اسلام دشمنی اور امریکہ کی چاپلوسی شامل ہے ۔اسلام دشمنی میں چونکہ یہود سب سے آگے ہیں اس لیے ہمارے ملک کی سماجی تنظیم آر ایس ایس کی اس سے گہری دوستی ہے ۔سنگھ کی ایما پر کئی وفود وہاں کا دورہ کرکے یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ کس طرح عرب مسلمانوں کو اسرائیل نے قابو کیا ہے ؟بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت کے برہمنوں کا شجرہ یہودیوں سے ملتا ہے ۔اسرائیل کی حمایت کرتے وقت سنگھ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ یہودی گائے کھاتے اورختنہ کرواتے ہیں نیز مورتی پوجا کے مخالف ہیں ۔
اس معرکہ میںعرب ممالک کی پوزیشن صاف نہیں ہے ۔ایک طرف تو اپنی مسلم عوام کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے فلسطین اورقبلہ اول کی حمایت کرناان کی مجبوری ہے ،دوسری طرف ذاتی خواہشات کی تکمیل اورمغربی آقائوں کے مفادات کے تحفظ کے پیش نظر وہ اسرائیل کی درپردہ حمایت کرتے ہیں ۔کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا ہے ۔عرب ممالک کے بادشاہ اسلام کے جمہوری اور شورائی نظام سے ڈرتے ہیں ،وہ اسلامی تحریکوں کو دبانا چاہتے ہیں ،انھوں نے مصر میں مرسی حکومت کے خاتمہ میں اہم رول ادا کیا ہے ۔وہ اپنے نصاب تعلیم سے ان آیات قرآنی کو حذف کررہے ہیں جن میں یہود کے جرائم شمار کرائے گئے ہیں ۔
ہمیں ان تمام صور ت حال کو سامنے رکھ کر اس قضیہ کو دیکھنا چاہیے ۔القدس کی آزادی ہمارے دین اور ایمان کا جز ہے ۔یہ معرکہ فلسطینیوں اور مسلمانوں کے لیے جہاد کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس کی حمایت کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔فتح کس کی ہوگی یہ تو وقت بتائے گا ۔لیکن موجودہ معرکہ میں اب تک مجاہدین فتحیاب ہیں ۔ایک چھوٹی سی جمعیت نے سپر پاور کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔اسرائیل کی دفاعی قوت کو سای دنیا ناقابل شکست سمجھتی رہی ہے ،اسرائیل سے دفاعی سازو سامان خریدتی رہی ہے ،ان کے تجربات سے استفادہ کرتی رہی ہے ،ان سے اپنے فوجیوں کو ٹریننگ دلاتی رہی ہے ۔لیکن سات اکتوبر کے پہلے ہی حملہ میں اس کی قوت و طاقت کی ساری پول کھل گئی ہے ۔یہ اسرائیل کی کھلی شکست ہے ۔وہ پہلے ہی دن کے بعد سے مدد کے لیے اپنے آقائوں کو پکار رہا ہے ۔دوسری طرف ایک ایسی تنظیم جس کو کسی ملک کی واضح حمایت حاصل نہیں ،جس کی باقاعدہ فوج نہیں ،جن کے پاس جدید ہتھیار نہیں ہیں ان کی طرف سے مدد کی کوئی اپیل سنائی نہیں دی ہے ۔یہ ان کی فتح نہیں تو اور کیا ہے۔
قرآن کے مطابق یہودی تاقیامت سکون سے نہیں رہ سکتے ،ان پر ذلت اور مسکنت طاری ہے اور رہے گی ۔یوں تو قرآن میں کئی جگہ بنی اسرائیل (یہودی )کے جرائم کا تذکرہ ہے ۔لیکن سورہ آل عمران کی آیت 110تا 115میں ان پر ہمیشہ کے ذلت و پسپائی کا ذکر درج ذیل الفاظ میں کیا گیا ہے ۔
بنی اسرائیل کو منصب امامت سے معزول کرکے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں۔یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے اِن کو مدد نہ ملے گی ۔یہ جہاں بھی پائے گئے اِن پر ذلت کی مار ہی پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں، ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے، اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا، یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔مگر سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اسکے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں یہ صالح لوگ ہیںاور جو نیکی بھی یہ کریں گے اس کی نا قدری نہ کی جائے گی، اللہ پرہیزگار لوگوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘ان آیات کی روشنی میں اہل ایمان کو یقین رکھنا چاہئے کہ اسرائیل کو تاقیامت فتح حاصل ہونے والی نہیں ہے ۔

 

Comments are closed.