جمعہ نامہ:  نمازِ عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے: ’’اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو‘‘۔ اس آیت میں  اہل ایمان  کو  اسرائیل جیسے دشمنوں    سے مقابلے کےلیےحتی والوسع اسلحہ  اور آلاتِ جنگ  مہیا کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔پہلے گھوڑے جنگ کی  ناگزیر ضرورت تھے لیکن  دورِ جدید میں ان کی جگہ  میزائل،راکٹ ،ٹینک، جنگی جہاز اور آبدوزوں وغیرہ نے لی ہے۔   غزہ سے آنے والی اندوہناک خبروں کے درمیان  حماس  اور حزب اللہ کی جانب سے راکٹ حملوں کی خبربھی ہوتی ہے۔چہار جانب سے محصور کن نامساعد حالات میں یہ تیاری کی گئی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔   جنگ کے 19؍ ویں دن بھی  اسرائیل کی تمام تر جارحیت کے باوجود مجاہدین فلسطین  نے اسرائیل کے اندر 220 کلو میٹر کی  دوری پر واقع تفریحی مرکز ایلات  کو راکٹ حملوں سے نشانہ بنایا جو اب تک  سب سے زیادہ دور مار کرنے والے حملہ تھا۔ کیا بغیر تیاری و منصوبہ بندی کےاس قدر تباہ کاری کے باوجود یہ  ممکن  تھا  ؟

پچھلے چند  برسوں کے دوران  حماس نے اپنے راکٹوں کی استعداد اور تعداد میں زبردست اضافہ کیا ہے۔  یہی  وجہ ہے کہ  اسرائیل کو اب کی بار حیران کن حملوں سے سا بقہ پیش آیا  ہے اور  اسرائیل کا جدید ترین اور مضبوط  دفاعی نظام ان  راکٹ حملوں کے سامنے ناکارہ ثابت ہوا ۔مشکل ترین  حالات میں بھی  حماس کے حوصلے بلند ہیں اور وہ پے در پے راکٹ  برسا کر اسرائیل کا دفاعی نظام تباہ کررہاہے۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز کے ایک محقق نے بتایا کہ ہر راکٹ کو روکنے کی قیمت تقریباً 40 سے 50 ہزار ڈالر پڑتی ہے۔ اسرائیلی انویسٹمنٹ اتھارٹی کے چیف اکانومسٹ میٹاو الیکس زبیچنسکی نے اندازہ لگایا کہ پہلے 17 دنوں میں اسرائیل کا جنگی نقصان  70 بلین شیکل (تقریباً 17 ارب ڈالرتک پہنچ گیا جو کہ مجموعی گھریلو پیداوار کا 3.5 فیصد ہے) سے زیادہ ہے۔یہ اندازے بینک آف اسرائیل اور وزارت خزانہ کے غیر سرکاری تخمینوں (یعنی جی ڈی پی کے 2 سے 3 فیصد کے درمیان) سےتجاو ز کرتے  ہیں۔

اسرائیلی  درندگی نے بے شک غزہ میں بے انتہا تباہی مچائی لیکن   دورانِ جنگ دشمن کے بلواسطہ اور بلا واسطہ  نقصان کا بھی تخمینہ ضروری ہوتا ہے۔ اسرائیلی اسٹاکس  (شیئر بازار) سے نکلنے والے سرمایہ کاروں کی رفتار گذشتہ دو ہفتوں میں تیز ہوئی ہے۔ اس سے اسٹاک کی قیمتوں میں زبردست کمی نظر آئی ہے۔   9 سے 20 اکتوبر کے دوران 2.5 ملین ڈالر کی خالص سرمایہ کاری کا اخراج ریکارڈ کیا گیا ۔ اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے کے دوران فنڈ میں 13.8 فیصد کی کمی واقع ہوئی اور اب اس کے اثاثے 111.62 ملین ڈالر رہ گئے جو مارکیٹ  کی غیر یقینی صورتحال کا نتیجہ ہے۔اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ  کے ساتھ  گزشتہ تین ہفتوں  کی جنگ کے نتیجے میں  اسرائیلی کرنسی  شیکل کی قدر میں بھی  نمایاں کمی دکھائی دیتی  ہے۔ یہود جیسی مادہ پرست قوم کے لیے معاشی مار غیر معمولی  اہمیت کی حامل  ہے۔ اس  گراوٹ  میں اضافہ ہوا تو دنیا بھر سے خوشحالی کی خاطر اسرائیل میں آکر بسنے والوں کا  ازخودخروج  شروع ہوجائے گا اور اسے دنیا کی  کوئی طاقت نہیں  روک  پائے گی ۔

قرآن حکیم میں  مذکورہ  حکمت عملی کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ :’’ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی‘‘۔  موجودہ تصادم میں یہ فائدہ  صاف دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس قابض صہیونی ریاست اسرائیل کے  اہداف کو اتنے منظم انداز میں نشانہ بنایا گیا  کہ ساری  دنیا نےحماس  کی مہارت کالوہا مان لیا۔  اسرائیلی وزیراعظم سمیت تمام صہیونیوں پر خوف کا عالم طاری ہے۔پچھلے تین ہفتوں سے لاکھوں اسرائیلی فوجی غزہ کی سرحد پر کھڑے ہیں مگر نیتن یاہو ہنوز  زمینی حملے کی تیاری سے مطمئن نہیں  ہے۔ امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل نے امریکی اور اسرائیلی حکام کے حوالے سے رپورٹ دی ہے  کہ اسرائیل نے فی الحال غزہ پر متوقع حملے میں تاخیر پر اتفاق کر لیا ہے تاکہ امریکہ اپنی افواج کو محفوظ کرنے  کی خاطر میزائل ڈیفینسر پہنچا سکے۔

 جریدے کے مطابق اسرائیل تو دور خود امریکی افواج کو لاحق  خطرہ تشویش کا  بنیادی سبب ہے اس لیے وہ امریکہ خطے میں ایک درجن کے قریب ایئر ڈیفینس سسٹم تعینات کرنے میں تیزی  لا رہا ہے۔ یہ دشمن اور اس کے حواریوں پر دھاک  نہیں تو اور کیا ہے؟  تین دن قبل اسرائیلی فوج کے ذریعہ  غزہ میں داخل ہونے کی کوشش کو  ناکام بنایا جاچکا ہے۔ حماس نے اسرائیلی فوج کا ایک ٹینک اور 2 فوجی بلڈوزرز تباہ کردئیے۔اس جوابی کارروائی کے نتیجے میں   اسرائیلی فوجی اپنی گاڑیاں چھوڑ کربھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ اس  ناکامی کی پردہ پوشی کے لیےپہلے تو  کہا گیا  کہ اسرائیلی فوج غزہ اور اسرائیل کے درمیان آہنی باڑھ کی مرمت کےلیے جانا چاہتی تھی مگر بعد میں   یہ اعتراف کرلیا  کہ اسرائیل کا ایک ٹینک غلطی سے غزہ کی پٹی کے باہر مصری پوزیشن سے ٹکرا گیا۔ فوجی اعلامیہ میں  کہا گیا کہ مسلح فلسطینیوں نے ’’غزہ کی پٹی کی سرحدی باڑ کے مغربی جانب کام کرنے والے فوجیوں پر فائرنگ کی‘‘۔ اسرائیلی فوج کے گھات لگا کر کیے جانے والے حملے میں پسپائی سے ہوش اڑگئے۔

 ارشادِ قرآنی ہے :’’  تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں ، مگر زیادتی نہ کرنا ، کیونکہ اللہ تعالی زیادتی کرنے والوں کو قطعا پسند نہیں کرتا ‘‘۔ اس آیت کی عملی تفسیر حماس نےاس وقت  پیش کی جب ایک  یرغمال خاتون  کوموٹر سائیکل سے اُتارتے وقت   کہا گیا ’ ہم قرآن پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے آپ لوگوں کو یہاں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔‘ اس کو کھانے کے لیے وہی پنیر اور ککڑی دی گئی جو وہاں موجود محافظ کھاتے تھے۔ طبی سمیت ساری ضروریات کا لحاظ رکھا گیا ۔ رہائی کے وقت کی ویڈیو دیکھا  جاسکتا ہے کہ بزرگ  يوشويد پیچھے مڑ کر بندوق بردار جنگجو کی جانب مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہیں۔ایک  جنگجو اس  ہاتھ کو  تھامتا ہے اور پھر دونوں ہاتھ احتراماً  ملاکریرغمال کو رخصت کرتا ہے۔ اسرائیل کی بدترین  سفاکی کے سائے میں   دورانِ جنگ  اسلام کی تواضع اور رحمدلی کا یہ منظر  تاریخ کے پردۂ سیمیں پر تاقیامت   ثبت ہوگیا۔ یہ  مجاہدانہ دعوتِ  اسلامی ہے؎

یہی مقصودِ فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی                          اُخُوّت کی جہاں‌گیری، محبّت کی فراوانی

Comments are closed.