ہندوستان میں اسرائیلی سفیر کی خوش فہمی

ڈاکٹر سلیم خان
دہلی میں اسرائیل کے سفیر نور گیلون کو اچانک بیٹھےبیٹھے یہ خیال آیا کہ اب وقت آگیا ہے، ہندوستان فلسطینی تحریکِ مزاحمت حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے۔ ان کو یہ خیال اس لیے آیا کیونکہ ابھی حال میں برطانیہ نے حماس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرکے اس پر پابندی عائد کر دی ۔ویسےتو برطانوی دہشت گردانہ قانون کے تحت حماس کوممنوعہ تنظیم تو قرار دے دیا گیا ہے مگر اس پابندی کو حتمی اور قانونی شکل دینے کے لیے پارلیمانی توثیق لازمی ہے۔ برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رویہ سے ایسا لگتا ہے کہ یہ مرحلہ وزیر اعظم رشی سونک کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ برطانیہ کی خاتون وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے الزام لگایا کہ حماس دہشت گردانہ صلاحیتوں کی حامل ہے کیونکہ اس کے پاس حساس ہتھیاروں کے وسیع ذخیرہ جدید اسلحہ کی تربیت کا اہتمام بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا چیزیں تو اسرائیلی حکومت کے پاس بھی ہیں اور نہایت سفاکی کے ساتھ استعمال بھی کررہا ہے۔ ایسے میں اس پر پابندی لگانے کے بجائے وزیر اعظم دورہ کرکے یکجہتی کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟ اسرائیلی حکومت پر پابندی اس لیے نہیں لگاسکتے کہ وہ عوام کے ذریعہ منتخب ہوئی ہے تو یہ بھی حقیقت ہےکہ حماس کو یاہو سے واضح اکثریت حاصل کرکے غزہ پر حکمرانی کررہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اتنے سالوں کے بعد آخر برطانیہ کوفی الحال اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے بعد برطانیہ کے اندر فلسطینیوں اور حماس کے تئیں عوامی حمایت میں زبردست اضافہ ہواہے۔ وہاں کے مظاہروں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی ہے ۔ ایسے میں محض حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ پر کچھ سال قبل لگائی جانے والی پابندی کافی نہیں سمجھی گئی ۔یہ پابندی اس لیے لگائی ہےتاکہ ہر کسی کو حماس کی کھلے عام یا ڈھکے چھپے انداز میں حمایت کرنے یا جھنڈا لہرانے سے بزورِ قوت روکا جاسکے۔ اس پابندی کے تحت کوئی بھی فرد حماس کے حوالے سے کسی قسم کی میٹنگ کا انعقاد نہیں کر سکے گا۔ ایسا کرنے والوں کو ریاستی اعتماد شکنی کے زمرے میں لاکر معتوب کیا جائے گا۔برطانیہ میں فلسطینی تنظیم کے سیاسی اہلکار سمی ابو زہری نے اس پابندی پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ پوری طرح جانبدارانہ اور اسرائیلی بلیک میل کی پالیسی کا تسلسل ہے۔عالمی قانون غاصبانہ قبضے کے خلاف ہر قسم کے ذرائع کا استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
برطانیہ کی جانب سے حماس پر عائد مکمل پابندی کا اسرائیلی حکومت نے خیرمقدم کیا تو ہندوستانی سفیر کے دل میں وطن عزیز کے اندر بھی پابندی لگوانے کی بات آئی ہوگی۔ اس لیے دی ہندو اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کے سفیر نے کہہ دیا کہ حماس کے ساتھ اسرائیل کی جاری جنگ کا اثر نہ ہندوستان، اسرائیل، امریکہ اور یو اے ای پر پڑے گا اور نہ ہی اس سے ( انڈیا مڈل ایسٹ-یورپ اکنامک کوریڈور) IMEC کا کام متاثر ہوگا۔ عرب امارات تو فی الحال اسرائیل کے خلاف تین بار سلامتی کونسل میں ووٹ دے چکا ہے اس لیے یہ خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ سفیر نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کی معیشت بھی جنگ سے متاثر نہیں ہوگی ۔ اس جھوٹ کے سامنے تو بی جے پی ترجمان بھی پانی بھرتے ہیں کیونکہ اس جنگ میں اسرائیل کے اب تک سترّ بلین ڈالر خرچ ہوچکے اور بین الاقوامی ماہرین معاشیات اسرائیلی معیشت کے نفی میں جانے کی پیشنگوئی کرچکے ہیں۔ سفیر نے ہندوستان کے ساتھ اسرائیل کی قربت کا حوالہ دیا اور اسے دنیا میں ایک اہم آواز قرار دیا ۔ ان باتوں کو درست مان لیا جائے تب بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ہندوستان کا انحصارعرب ممالک پر بہت زیادہ ہے۔ موصوف کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ دنیا کے جمہوری ممالک اس وقت اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ مٹھی بھر استعماری قوتوں مثلاًیورپی یونین، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک کے علاوہ باقی انصاف پسند ممالک فلسطین کے ساتھ ہیں اور انہوں نے حماس پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے۔ فی الحال حماس کا ایک وفد روس کے دورے پر ہے۔
7؍اکتوبر حملے کے بعدوزیر اعظم نریندر مودی نے جلد بازی میں اسرائیل کے ساتھ جو ہنی مون شروع کیا تھا وہ الاہلی اسپتال پر بمباری کے بعد ختم ہوگیا۔ مودی سرکار نے جب ٹھنڈے دماغ سے اسرائیل کی یکطرفہ حمایت پر غور کیا تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا جو فطری تھا ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ان میں سب سے اہم سارے مسلم ممالک کا اسرائیل کے خلاف متحد ہوجانا ہے ۔ ایسے میں اسرائیل کی حمایت مطلب ان سب کی مخالفت ہوتا ہے جو بڑا خسارے کا سودہ ہے۔ہندوستان کے لیے مسلم دنیا سے تعلقات استوار رکھنا مختلف پہلو سے بہت بڑی ضروری ہے۔ اسرائیل کے اندر تو چند ہزار ہندوستانی ہیں جن کو واپس لے آنا قدرے آسان ہے جبکہ اس معاملے میں بھی ابھی تک چند سو زیادہ لوگوں کو واپس لانے میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ عرب دنیا میں موجود ہندوستانیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کو اگر واپس لانا پڑجائے تو یہ حکومت کے لیے بہت بڑی مصیبت بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ایسے میں نہ صرف بیروزگاری کی زبردست لہر چل جائے گی بلکہ ان لوگوں کے توسط سے ملک میں آنے والا زر مبادلہ بھی بند ہوجائے گا ۔
بیروزگاری کے علاوہ ہندوستانی مصنوعات کی برآمد کا بھی سنگین مسئلہ ہے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے ٹریڈ پارٹنرس مسلم ممالک ہیں۔اسرائیل سے دوستی کے سبب اگرمسلم دنیا میں ہندوستانی اشیاء کا بائیکاٹ شروع ہوجائے تو نہ صرف تاجر متاثر ہوں گے بلکہ ان کی پیداوار میں مصروف محنت کشوں کے روزگار پر بھی اس کا زبردست منفی اثر پڑے گا اور بازارو صنعت کی مندی میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔ ایسے میں سربراہانِ مملکت کی دوستی بھی کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ مسلم صارفین اسرائیل کے مخالف اور فلسطین کے حامی ہیں۔ ایندھن کے معاملے میں آج بھی ہندوستان کا عرب ممالک پر انحصار ہے۔ روس کے ساتھ تجارتی معاہدہ چینی کرنسی یوآن میں ادائیگی کے سبب مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔ ایسے میں اگر تیل کی درآمد متاثر ہوتی ہے تو مہنگائی آسمان میں پہنچ جائے گی اور بی جے پی کے لیے آئندہ سال قومی انتخاب جیتنا ناممکن ہوجائے گا۔ بعید نہیں کہ کسی نے وزیر اعظم کو ان تمام حقائق سے آگاہ کیا ہو اور یہ باتیں ان کی سمجھ میں آگئی ہوں ۔ اس کے بعد انہیں اپنی شبیہ سدھارنے کے لیے ایک موقع کی تلاش تھی جو اسپتال پر حملے کے بعد ہاتھ آگیا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی فلسطین کے صدر محمود عباس کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
وزیراعظم مودی کے دفترنے بتایا کہ غزہ کے الاہلی اسپتال میں شہریوں کی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ہندوستان اور اس خطے کے درمیان روایتی طور پر قریبی اور تاریخی تعلقات کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے خطے میں دہشت گردی، تشدد اور بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے اسرائیل فلسطین مسئلہ پر ہندوستان کے دیرینہ اور اصولی موقف کا اعادہ کیا۔ صدر محمود عباس نے صورتحال کے بارے میں اپنے تجزیے کا اشتراک کیا۔ انہوں نے ہندوستان کی حمایت پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا اور ہندوستان کے موقف کو سراہا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد بھیجنا جاری رکھے گا۔دونوں رہنماؤں نے رابطہ بنائے رکھنے پر اتفاق کیا۔ ہندوستان سمیت اگر امریکہ ، جرمنی ، فرانس ، برطانیہ وغیرہ شروع سے یہی موقف اختیار کرتے تو شاید اسرائیل اسپتال پر حملہ نہیں کرنے کی سفاکی کا مظاہرہ نہیں کرتا بقول غالب؎
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
فلسطین کے ساتھ مسئلہ صرف وزیر اعظم کی ذاتی شبیہ کا نہیں ہے کیونکہ وہ تو 2002کے بعد ایسے بگڑی کہ پھر سدھرنے کا نام نہیں لیتی ۔ اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں ہے کہ وطن عزیز کی دیرینہ خارجی پالیسی اسرائیل کے بجائے فلسطین کی حامی رہی ہے۔ اس کی وجہ فطری ہے کیونکہ جس وقت فلسطینیوں پرمغربی استعمار کی درپردہ حمایت سے اسرائیل کی غلامی مسلط کی جارہی تھی اس وقت ہندوستان کے اندر برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد جاری تھی ۔ اس لیے گاندھی جی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک سبھی نے فلسطینی کاز کی حمایت کی۔ گزشتہ سال یومِ فلسطین کے موقع مودی سرکار نے خود وزیر اعظم کے نام سے ایک خط جاری کرکے فلسطینیوں کی آزاد ی و خودمختاری کے حق کو تسلیم کیا اور اس مقصد کے حصول کی خاطر تائید و تعاون کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود جذبات سے مغلوب ہوکر یا سیاسی مفاد کی خاطر وزیر اعظم نے غاصب اسرائیل کی کھل کر ایسی حمایت کی جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعظم کے ایک بیان نےہندوستان کو مظلوموں کے بجائے ظالموں کا حامی بنادیا اوروزیر اعظم مودی نے جذباتیت کا شکار ہوکر ایک کلنک اپنی پیشانی پر لگا تولیامگر اپنی غلطی کا احساس کرلینے کے بعد اب وہ اسے پونچھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔غزہ میں بھیجی جانے والی قابلِ تعریف مدد بھی اس حصہ ہے لیکن اگر وہ وہ اسرائیل کی ناراضی سے بے نیاز ہوکر جنگ بندی کے لیے عملی اقدام کریں گے تبھی انہیں کامیابی ملے گی ورنہ نغمہ نگار اندیور نے لکھا تھا ’ قسمیں وعدے پیار وفا سب ، باتیں ہیں باتو ں کا کیا ‘ ۔
Comments are closed.