غزہ کے مقتل سے اجتماعی اخلاق کی روشن کرنیں!

از: ناظم الدین فاروقی
اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل ‘ حماس جنگ بندی قرارداد منظور کرنے کے باوجود اسرائیل اور امریکہ اس بات پر مصر ہیں کہ حماس کے خاتمے کے نام پر غزہ کا ہی صفایا کردیا جائے۔ ابھی بھی اسرائیلی افواج جس کی کمانڈ امریکی جنرل نے سنبھالی ہے ۔ مسجد اقصیٰ میں نمازوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔ جمعہ کی نماز کی بھی اجازت نہیں دی گئی ۔ جب اسرائیلیوں کو کھلے مسجد کے احاطے میں جمع ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے ‘ اس سے مسلمانانِ عالم میں مزید تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔
بار بار غزہ کے اندر کئی کیلو میٹر تک گھس کر زمینی حملے کئے جارہے ہیں ۔ قطر اور ترکی اپنی ثالثی کی سفارتی حتی المقدور کوشش میں جٹ گئے ہیں۔ انٹرنٹ ‘ فون سرویس سب کچھ غزہ کا منقطع کردیا گیا ہے ‘ اسی دوران القسام بریگیڈ نے پھر سے اسرائیل کے مختلف شہروں پر ڈرون حملوں کو تیز کردیا جس سے اسرائیل کا کئی سو بلین کا نقصان ہورہا ہے ۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ جنگ کو طوالت دے کر القسام بریگیڈ کے پاس موجود تمام اسلحہ کو بروئے کار لا کر جمع شدہ اسلحہ کا اسٹاک ختم کروادیں اور پھر چند کیمیکل بمس کے ذریعہ قیامت برپأ کردی جائے اور خالی شدہ شہر کو بآسانی قبضہ میں لے لیں ۔ جب سیول سپلائیز کی اجازت مانگی جارہی ہے تو اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں ایندھن ‘ غذا ‘ پانی بہت کچھ ہے وہ ختم نہیں ہوا۔ جمعہ کی رات سے اسرائیل نے بلا کسی تحقیق کے غزہ کے تمام ہی علاقوں پر بے تحاشہ بمباری شروع کردی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا کہ تمام بین الاقوامی پلیٹ فارمس اور ادارے مکمل طور پر اسرائیل و امریکہ کو جنگ بندی کے لئے راضی کروانے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔
اکنامسٹ لندن نے اپنے 27؍ اکٹوبر 23 کے شمارے میں Lexington نے لکھا کہ جو بائیڈن کے لئے اسرائیل کی حمایت سخت ترین امتحان سے گزر رہی ہے ‘جو بائیڈن نے رمضان مئی ؍2021 میں غزہ و اسرائیل کی جنگ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی تھی جس کا خمیازہ اب انھیں اسرائیل کی اندھی تائید کی شکل میں پیش کرنا پڑرہا ہے۔معصوم عوام کے قتل عام کا لائسنس اسرائیل کو دے دیا گیا ہے ‘کیمیکل ہتھیار کے استعمال کا یہ تجربہ پہلے ہی شام کے حلب و حمأAlepo جیسے علاقوں میں کیا جاچکا ہے ۔ اس وقت بھی دنیا خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی ۔ اب اگر غزہ میں ان کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال ہوگا تو بھی اس بات کا قوی امکان ہے کہ دو‘ تین دن میڈیا میں ہنگامہ کے بعد سب کچھ اضطراب آمیز سکون میں بدل جائے گا اور پھر ایک مرتبہ فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ سرد خانے میں ڈال دیا جائے گا۔
امریکہ اور اسرائیل فلسطین کی آزادی کے مسئلہ کو پڑوسی عرب ممالک کے ترقیاتی پروجکٹ کا بڑے پیمانے پر پروپگنڈہ کرتے ہوئے معصوم نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے مظلوم و معتوب فلسطینی عوام کی آواز کو کچلنا چاہتے ہیں ۔ جس طرح روینڈا ‘ بوسنیا ‘ عراق ‘ افغانستان ‘ شام ‘ یمن ‘ لیبیا میں بے گناہ معصوم اقوام کے مسلسل قتل عام کا کوئی جواز نہیں تھا ٹھیک اسی طرح آج غزہ میں بھی نسل کشی در نسل کشی کا وقفے وقفے سے چکرا چلایا جارہا ہے ۔ 1994 میں یاسرعرفات اور وزیر آعظم اسرائیل اسحق راہن‘ بل کلنٹن کے درمیاں ہونے والے اوسلو معاہدے کے بعد سے اب تک 30 سال کا عرصہ گزر گیا ۔ اس دوران کوئی رات اور دن ایسا نہیں گزرا جس میں فلسطینیوں کی گرفتاری ‘ قتل یا ان کے مکانات اور علاقوں سے انھیں بے دخل نہیں کیا گیا ہو ۔ گزشتہ 21 دنوں میں سے مغربی پٹی میں فلسطینیوں کے گھروں کو شعلہ پوش کرتے ہوئے ‘ مستوطنین Settlers و پولیس کے حملوں میں 100 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ۔
بڑی طاقتوں کی ظلم و بربریت پر دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ۔ ایک حصہ ظالم کے تائید اور ہاتھ مضبوط کرنے میں لگا ہوا ہے دوسرامظلومین کی آواز بن کر امریکہ و اسرائیل کے بربریت کی شدید مذمت و مخالفت کر رہا ہے ۔ امریکہ کی انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کے قواعد و قانونی تشریحات دنیا سے بالکل مختلف ہے ۔
سیکوریٹی کونسل میں روس اور چین کے ویٹو کرنے کے باوجود امریکہ و اسرائیل جنگ حسب معمول جاری رکھے ہوئے ہیں اوروقتی طور پر جنگ بندی کا معاملہ طوالت میں پڑ گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں 120 ممالک نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی لیکن اسرائیل و امریکہ اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔مسلم ممالک کا آپسی عدم اتفاق عربوں کی مایوس کن سرد مہری میں صرف مٹھی بھر مسلم ممالک ڈٹ کر حماس کی تائید میں کھڑے ہیں۔
Miko Peled ایک مشہور انسانی حقوق کے جہد کار اور نامور یہودی مصنف ہیں ‘ ان کے والد اسرائیلی فوجی جنرل تھے ۔ یہودیوں کے مظالم پر دو اہم کتابیں Injustice اور General’s Son تصنیف کی ہیں ۔ انھوں نے میڈیا میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج دنیا کی بہترین تربیت یافتہ عصری ٹکنالوجی سے لیس اسلحہ کے ساتھ انتہا ئی منظم دہشت گرد ریجمنٹ ہے ۔ ان کا مقصد و نصب العین سوائے دہشت گردی کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہے ‘ مسٹرمیکو نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 2008 کی 21 دن کی جنگ کے پہلے دن صبح ٹھیک 11 بجے دن جب کہ اسکول کی پہلی شفٹ ختم ہو کر 12 بجے دوسری شفٹ شروع ہوئی تھی اسرائیل نے کارپیٹ بمبنگ کرتے ہوئے 100 ٹن بم برسادیئے ‘ دوسرے عوام کے ساتھ ان کا سلوک اس طرح کا وحشیانہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لبرزم کا مکھوٹہ پہنے ہوئے ہیں ۔
پہلی مرتبہ بڑے پیمانے میں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کی بڑی تعداد جس میں حاخامات ( یہودی مذہبی پیشوا) بھی شامل ہیں ۔ فلسطینیوں کو مکمل آزادی دینے کی عالمی سطح پر چلائی جانے والی مہیمات میں کھل کر حصہ لے رہے ہیں ‘ ایک مذہبی پیشوا نے کھلے عام اسلام بھی قبول کرلیا ہےخود اسرائیل کے اندر پہلی مرتبہ فلسطین کی تائید میں کئی شہروں میں بڑے مظاہرات دیکھے گئے۔
غزہ جیسے گنجان آبادی والے شہر پر جہاں کلسٹر و فاسفورس بموں کی ہر لمحہ بارش ہورہی ہے ۔ 15 ہزار مکانات نست و نابود ہوچکے ہیں ‘ جہاں موت کے فرشتوں کا ہجوم ہر گلی ‘ کوچے اور ملبے معصوم لختِ جگر کے لہو اور معصوم بچوں ‘ والدین کے آنسوؤں سے لبریز ہیں ۔ کفنانے ‘ نمازِ جنازہ اور دفنانے کے لئے تڑپتے معذور ‘ زخمی لواحقین منتظر ہیں‘ میتوں کو غسل دینا تو دور کی بات ہے کفنانے کے لئے کفن دستیاب نہیں ہے ‘ ملبے میں دبے ہزاروں لاشوں کو نکالنا نا ممکن ہوگیا ہے‘ اس جنگی صورت حال میں غزہ کے معاشرے کی اعلیٰ اخلاقی قدروں ‘ تہذیب و تمدن کو دیکھ کر دنیا حیرت زدہ ہے کہ 3 ملین کی آبادی کے بچوں ‘ بڑوں ‘ امیر ‘ غریب ‘ مریض و ڈاکٹر کو آخر کس نے اخلاق حسنہ و اخلاق کریمہ سے مزین کیا ہے ۔
’’الغد‘‘ عربی ٹی وی چیانل کے نامہ نگار کے تفصیلی انکشافات نے دنیا کو پھر ایک مرتبہ حیرت میں ڈال دیا۔ رپورٹر نے جو تفصیلات پیش کیں اختصار کے ساتھ یہاں درج کیا جاتا ہے ۔اغوا ٔ کردہ دو عمر رسیدہ ضعیف یہودی خواتین کی قید میں جس طرح خدمت اور حسن سلوک حماس کے کارکنوں نے کی تھی ان کا پریس کے سامنے برملا اظہار کرتے ہوئے ان کے اخلاق کی تعریف کی اور شکریہ ادا کیا اس پر اسرائیل اور انتہا پسند یہودی چراغ پا ہوگئے اور دشمنانِ اسلام پر سانپ لوٹ گیا۔
7 لاکھ سے زیادہ مرد و خواتین ‘ جوان بچیاں اور معصوم بچے بالکل بے گھر ہوچکے ہیں ۔جہاں سر چھپانے کے لئے ریلیف کیمپس میں ایک رات بھی نہیں گزارتے اسرائیلی جٹ بمبار پناہ گزیں کیمپ پر جیسے اسلامی یونیورسٹی میں30 سے زیادہ مساجد اور 200 سے زیادہ مدارس پر بمبنگ کرکے خون کی ندیاں بہا کر ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔18؍ اکٹوبر 23 کوہمدانی عیسائی ہاسپٹل پر جہاں ڈاکٹروں ‘ پیرا میڈیکل اسٹاف جو خدمات طبی پر مامور تھے اور اس کے علاوہ مریضوں اور اُن کے رشتہ دار جو اس ہاسپٹل کے سائے میں پناہ لئے ہوئے تھے بمبنگ کرکے ایک ہزار سے زیادہ معصوم ‘ بے گناہ عوام کو ایک لمحہ میں موت کے آغوش میں ڈھکیل دیا۔اس بدترین نسل کشی پر دنیا میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑاٹھی اس پر پھر ظالم ‘ وحشی اسرائیل و امریکہ کا جھوٹ پر جھوٹ کہنا ہے کہ القسام بریگیڈ کے راکٹوں کے غلط رُخ پر داغنے سے یہ ہلاکتیں ہوئیں ۔ اس کی پول تو کئی بڑے میڈیا ہاؤز نے کھول دی ۔ نیو یارک ٹائمز نے بھی اس جھوٹے مفروضے کو ردّ کرتے ہوئے اسرائیلی بمبارنمنٹ کا دلیل کے ساتھ جواز پیش کیا ۔بمباری میں کئی زچہ ہلاک ہوئے اور اُن کے سیکڑوں بچے معجزاتی طور پر بچ گئے ان نومولود شیر خوار بچوں کے علاوہ موذی مرض سے متاثرہ شریک ہسپتال مریضوں کے لواحقین کی اموات کی وجہہ سے ان کی دیکھ بھال ایک بہت بڑا چیلنج تھی ‘ بجلی اور ایندھن کی مسدودی سے کئی ہسپتال نے کام کرنا بند کردیا تھا لیکن بڑی حُسن و خوبی سے خودعوام ان کی بہتر نگہداشت کر رہے ہیں۔
سونے کے لئے غزہ کے تباہ حال بے گھر شہریوں کو 15 تا 18 گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ بھوکے ‘ پیاسے نیند کے لئے شدید بے قرار لوگ قطار بنا کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ۔ کئی تو سڑکوں پر بیٹھے بیٹھے اپنی نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔ لیکن کوئی بھی سونے والے افراد کو نیند پورا ہونے تک ہر گز نیند سے بیدار نہیں کرتا۔
مصیبت زدہ لوگوں کے لئے کوئی علیحدہ بیت الخلا نہیں بنائے جاتے ‘غزہ کے تمام شہری اپنے گھر چوبیس گھنٹے کھلے رکھتے ہیں جہاں مرد و خواتین ‘ بچے کسی بھی گھر میں جاکر اپنی حاجت پوری کرتے اس طرح متاثرین کے لئےاہتمام ہر محلے اور بستی میں عام ہے‘ شیر خوار بچوں کے لئے دودھ گرم کرنے سے لے کر دودھ پلانے ‘ کپڑے بدلنے ‘ تیار ہونے کے لئے بطور ’’ضیوف الرحمان‘‘ (اللہ کے مہمان )بڑی خندہ پیشانی سے گھر گھر ان کی خوش آمدید کی جاتی ہے اور خدمت میں بچے ‘ عورتیں ‘ بوڑھے سب لگے ہوئے ہیں ۔
جنگ زدہ علاقوں میں لوٹ مار ‘ ڈکیتی ‘ چوری ‘ میتوں پر سے زیورات چرا لینے اور ملبے سے قیمتی اشیا کا سرقہ کرنے کی عام طور پر ایسی افراتفری کی صورت حال دیکھی جاتی ہے۔ غزہ کا جنگ زدہ شہر کرۃ الارض پر اپنی ایک منفرد خصوصی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگیا ۔غزہ میں کہیں کوئی چوری نہیں ہوتی۔ کئی ایسے سوپر مارکٹس بھی ہے جو جزوی طور پر بمباری میں تباہ ہوگئے ہیں ۔ سامان بھرا ہونے کے باوجود مجال ہے کہ کوئی بھوک اور پیاس سےتباہ حال شخص دوکان میں کوئی سامان حتیٰ کہ پینے کے پانی کی بوتل بھی اٹھالے جائے ‘ جب کہ ایک ایک بوند اور چمچہ پانی کے لئے آبادی کا بڑا حصہ پیاس سے ترس رہا ہے ۔ عام لوگ قطار بنا کر ان تباہ شدہ دکانوں میں داخل ہو کر ضرورت کا سامان ملبے کے باہر بیٹھے مالک ِ دوکان کے کسی عزیز کو اس کی قیمت ادا کرکے ہی خرید شدہ سامان لے جاتے ہیں۔ (وہاں کے علما ٔ ‘ مصلحین اور دینی حلقوں بالخصوص والدین کو سلام کرنا چاہیئے)۔
غزہ کے سیاست دان اور انتظامیہ کے عہدہ دار اور ملازمین بڑے ہی دیانت دار لوگ ہیں۔ بدعنوان لوگوں کا جرم ثابت ہوجائے تو کورٹ مارشل کیا جاتا ہے ان کی دیانت داری دیکھیں تو خلفہ راشدین کا عہد یاد آتا ہے۔
صدر غزہ پارلیمنٹ مسٹر یحییٰ سنوار نے 17 سال اسرائیل جیل میں قید کی زندگی گزاری نہ ان کے پاس ان کوئی ذات گھر ‘ ذاتی کاروبار ہے ۔ صرف سال میں دو جوڑے کپڑوں میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اسرائیل نے کئی مرتبہ انھیں ہلاک کرنے کے لئے بمباری کی وہ ہمیشہ بچتے رہے ۔ اخلاص ‘ صداقت ‘ دیانت داری کوٹ کوٹ کر عوام میں بسی ہوئی ہے ۔
کسی اسکولی طالب علم سے اگر نصرت اور فتح کے ممکنات و اُمید کے سلسلے میں جب دریافت کیا جاتا ہے تو اُن کی آنکھوں میں روشنی آجاتی ہے اور اتنے پُر عزم اور حوصلہ مند نظر آتے ہیں اور ایک جملے میں ’’نحن و منصورون‘‘ ( ہم ہی فتح یاب ہونے والے ہیں) عام طور پر سن سکتے ہیں ۔ انھیں اس بات پر مسرت ہے کہ وہ ابنائے خالد بن ولید ؓ ‘ صلاح الدین ایوبی ؒ و عز الدین قسام شہیدؒ قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ 3 ملین والی آبادی والے شہر میں کوئی پولیس نام کا شعبہ نہیں ہے ۔ غزہ کے 40 ہزار سرکاری ملازمین ہیں جو زیادہ تر صحت ‘ تعلیم‘ عدلیہ اور بلدیہ کے وزارتوں میں معمور نہیں ۔ اس وقت حماس کے لئے اندرونی مصائب اور مسائل بھی بڑے چیالنجس سے کم نہیں ۔ اب تک 2 ہزار سے زیادہ بیوائیں اور 8 ہزار سے زیادہ بچے یتیم ہوچکے ہیں ان سب کی بہتر انداز میں دیکھ بحال کے لئے حماس کا انتظامیہ پوری طرح مستعد و متحرک نظر آتا ہے ۔

Comments are closed.