اقوام متحدہ :بيچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے

ڈاکٹر سلیم خان
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیلی جارحیت کے 22 ویں روز اردن کی طرف سے پیش کردہ غزہ کی پٹی میں فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی عرب قرارداد کے مسودے کی منظوری دے دی ۔ 120 ملکوں نے اس امن قرار داد کی حمایت کرکے شہریوں کے تحفظ اور موجودہ بحران میں قانونی اور انسانی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا ۔جنرل اسمبلی کے صرف 14 ملکوں نے مخالفت کی جبکہ ہندوستان سمیت 45 ممالک نے رائے شماری سے خود کو الگ کر لیا۔اقوام متحدہ میں یہ عجب تماشا ہے کہ زبردست اکثریت منظور ہونے والی جنرل اسمبلی کی قرار داد پر عمل ضروری نہیں ہے جبکہ پندرہ لوگوں کے سلامتی کونسل کے فیصلوں کی پابندی لازمی ہوتی ہے اور وہاں ویٹو استعمال کے سبب فیصلے ہی نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ 2012میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے مایوسی اور بیزاری کے عالم میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ ان کو افسوس تھاکہ تشدد کے خاتمہ اور امن کی بحالی کے لیے وہ حفاظتی کونسل کے مستقل ارکان کو متحد نہیں کرسکے ۔
غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کی حالیہ آنکھ مچولی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے گیارہ سال بعد بھی اس صورتحال کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں ہوئی بلکہ حالات بدتر ہوگئے اور آئندہ بھی انحطاط کا ہی امکان ہے ۔یہی وجہ ہے کہ غزہ کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تیسراےاجلاس کی ناکامی پر فلسطینی سفیر ریاض المالکی نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اقوام متحدہ کی بے عملی “ناقابل معافی” ہے ۔ اس جلاس میں جنگ بندی کی روسی قرارداد کو امریکہ اور برطانیہ نے ویٹو کردیا جب کہ امریکی قرارداد کی روس اور چین نے مخالفت کردی اور معاملہ معلق ہی رہا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں امریکہ نے کمال بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں فضائی کارروائی کو اسرائیل کا حقِ دفاع تسلیم کرنے کی تجویز پیش کی اور ایران پر حماس کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام عائد کیا۔یہ قرارداد منظور ہوجاتی لیکن روس اور چین نے امریکہ کی مذموم قرداد کو ویٹو کردیا حالانکہ اس کے حق میں 10 ارکان نے ووٹ دیا تھا۔
یہ تو خیر جنگ و جدال جاری رکھنے کی سازش تھی جو ناکام کردی گئی مگر اس کے بعد روس نے اپنی قرارداد میں امدادی سامان کی متاثرہ علاقوں تک رسائی کے لیے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔روسی قرارداد کی چین، متحدہ عرب امارات اور گیبون کی حمایت حاصل تھی مگر امریکہ اور برطانیہ نے ویٹو کردیا ۔ اس سے قبل 16 ؍اکتوبر کو روسی کی قرارداد کی صرف 5 ارکان نے حمایت کی تھی لیکن مخالفین صرف چار تھے۔ باقی لوگوں نے دوری اختیار کرلی تھی ۔ 18؍ اکتوبر کو توبرازیل کی قرارداد کے حق میں تو 12ووٹ تھےاور 2 غیر حاضر تھے مگر اکیلے امریکہ نے ہٹ دھرمی سے اسے ناکام کردیا تھا۔فی الحال باری باری کے لحاظ سے برازیل کے صدر لولا کا ملک سلامتی کونسل کی صدارت پر فائز ہے۔ ابھی حال میں انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے خطاب میں کہا سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاسوں کے بے نتیجہ ہوجانے کے بعد اقوام متحدہ کی کمزوری کھل کر سامنے آ گئی ہے اوراس کا اثر و رسوخ کمزور پڑ گیا ہے۔ صدر لولا نے مطالبہ کیا کہ انسانی بنیادوں پر غزہ کو امداد پہنچانے کے لیے راہداری کھولنے کے لیے بات چیت شروع کی جائے تاکہ فلسطینی اپنی زمین پر رہیں اور اسرائیل اپنی جگہ پر۔
برازیل کے صدرلوئز اناکیو لولا ڈی سلوا نے اقوام متحدہ کو غزّہ کے بارے میں زیادہ ذمہ داری اٹھانے پر زور دیا۔انہوں نے کہا ہے کہ "اگر اقوام متحدہ میں طاقت ہوتی تو زیادہ اہم سطح پر مداخلت کر سکتی تھی‘‘۔ ان کے مطابق امریکہ بھی مزید مداخلت کر سکتا تھا لیکن وہ لوگ اس کے خواہش مند نہیں ہیں ۔ یہ لوگ جنگ چاہتے ہیں، نفرت میں شدت کے خواہش مند ہیں لیکن وہ خود معاملے کو اس شکل میں نہیں دیکھتے ۔ وہ بولے’’ آپ جیسے چاہیں مجھ پر تنقید کریں لیکن میں امن کے حق میں بات کرنا جاری رکھوں گا”۔استعماری قوتوں کے ذریعہ حماس اور حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دے کر ان کو نیست و نابود کرنے کا لب و لہجہ اختیار کرنے بجائے لولا ڈی سلوا نے کہا کہ "ابھی بھی وقت ہے ہمیں چین، جنوبی افریقہ اور قطر کے ساتھ بات کرنی چاہیے کیونکہ بظاہر یہ ممالک حماس اور حزب اللہ کے ساتھ گفت و شنید کی حالت میں ہیں۔ علاقے میں انسانی راہداری ، خوراک، ادویات اور بجلی فراہمی کی ضرورت ہے۔ بچوں کا قتل عام بند ہونا چاہیے”۔انہوں نے روس اور چین کےذریعہ پیش کردہ فلسطینی حکومت کے قیام پر مبنی، دو حکومتی حل کی حمایت کا اعلان کیا ۔ اپنی بات میں توازن پیدا کرتے ہوئے وہ بولے کہ مشرق وسطی میں اسرائیل اپنی زمین کی حفاظت کر رہا ہے اور فلسطینی اقوام متحدہ کی طرف سے طے شدہ اپنی زمین کے مالک ہیں۔
برازیل کے صدر لوئز اناکیو لولا ڈی سلوا نے واضح کیا کہ مشرق وسطیٰ میں اب جنگ نہیں صرف اور صرف نسل کشی ہورہی ہے ۔ امن کی خاطر انہوں نےیہاں تک کہہ دیا کہ فی الحال اس بات کو ایک طرف رکھنا چاہیے کہ کون حق پر ہے اور کو ن نہیں۔ حتّی کہ وہ یہ بھی نہیں جاننا چاہتے کہ کس نے پہلے حملہ کیا تھا۔ان کے نزدیک دشمنی کو ختم کروانا اہم ہےکیونکہ جنگ سے لاتعلق 2 ہزار بچے ہلاک کر دیئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’’ میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ کوئی انسان ایسی کسی جنگ پر کیسے تحمل کر سکتا ہے کہ جس کے نتیجے میں بچے اور معصوم انسان ہلاک ہو رہے ہوں‘‘۔یہ دردمند دل کی پکار ہے جو اسرائیل و امریکہ کو گراں گزری ہوگی مگر ان دونوں کا صدر لولا ڈی سلوا پر کوئی اختیار نہیں ہے ۔روس اور چین کے الحاق سے دنیا میں طاقت کا ایک نیا توازن قائم ہورہا ہے ۔ اس سے قبل چین کی پیشکش پر سعودی عرب اور ایران اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے پر راضی ہوگئے تھے مگر غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے سارے مسلم ممالک کو متحد ہو کر اس خیمے میں داخل کردیا ہے۔ اس مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متحدہ عرب امارت مسلسل کئی بار امریکہ کے خلاف اپنی رائے دے چکا ہے۔ اس خوش آئند پیش رفت کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا؎
طہران ہو گر عالم مشرق کا جينوا شايد کرہ ارض کی تقدير بدل جائے
نیا عالمی نظام محض کوئی خواب نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ کے اندر فوجی آپریشن روکنے کے بجائے فلسطینیوں کی مذمت کرنے والی امریکی قرارداد کی نا منظوری کا حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے سلامتی کونسل نے خیر مقدم کیا کیونکہ روس اور چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ سے متعلق امریکی مسودہ قرارداد کے خلاف ویٹو پاور کا استعمال کیا۔ اس موقع پر سلامتی کونسل میں روسی مندوب نے کہا تھا کہ امریکہ نہیں چاہتا سلامتی کونسل کی قراردادیں اسرائیلی کارروائی پر اثر انداز ہوں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکی مسودہ قرارداد کو پاس ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی تھی کیونکہ اس سے کونسل کی ساکھ کو خطرہ لاحق تھا ۔ روسی مندوب نے اس پرافسوس کا اظہار کیا تھا کہ کونسل مشرق وسطیٰ کے بحران سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ اسی طرح چینی مندوب نے کہا تھا امریکی مسودے میں فلسطین پر طویل عرصے سے اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ کا ذکر نہیں تھا اور ہمیں صرف اسرائیلی کو نہیں بلکہ دونوں فریقوں کےحفاظتی خدشات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔انہوں نے خبردار کیا تھا کہ جنگ اور امن کے حوالے سے مبہم فیصلہ غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک ہے کیونکہ وہ بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
فلسطینی رہنما اسماعیل ھنیہ نے روس اور چین کے موقف کی تعریف کی اور ان کی جانب سے قابض ریاست کے خلاف متعصبانہ امریکی قرارداد کو ناکام بنانے کو سراہا ہے۔انہوں نے سلامتی کونسل کے اندر اور باہر ان تمام ممالک کی ستائش کی جنہوں نے غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت کے خاتمے کا مطالبہ کیانیز عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض کو انسانی حقوق کے قوانین کا احترام کرنے اور غزہ کی پٹی میں بالخصوص اور فلسطین میں دوسرے علاقوں میں بالعموم بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون کا اطلاق کرنے کا پابند بنائے۔انہوں نے خبردار کیا کہ ان خلاف ورزیوں سے مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے بھی تنازعات کو وسعت ملنے کا خطرہ ہے۔ھنیہ کے مطابق امریکی مسودہ قرارداد سلامتی کونسل کی طرف سے اسرائیلی حملے کو جاری رکھنے کے لائسنس کا مترادف تھا ۔
نئے عالمی نظام کی جانب عملاً پیشقدمی کرتے ہوئے گزشتہ جمعرات کو اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے اعلیٰ اختیاراتی وفد نے ماسکو کادورہ کر کے روسی حکام سے بات چیت کی۔ اس نشست میں حماس کےمعمر رہنما ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے روس کے نائب وزیر خارجہ میخائل بوگدانوف کے ساتھ فلسطین میں جاری اسرائیلی خلاف ورزیوں پر تبادلۂ خیال کیا اورغزہ میں سیاسی شعبے کے ارکان نے وہاں جاری اسرئیلی جارحیت سے روسی حکام کو آگاہ کیا ۔ امریکہ تو بار بار اسرائیل کے مدافعت کی آر میں اس کو بمباری کی اجازت دیتا ہے ۔ اس کے برعکس یہاں صہیو نیوں کے خلاف فلسطینی مزاحمت کا حق تسلیم کیا گیا۔ حماس کی قیادت نے روسی حکام کو آگاہ کیا کہ اگر اسرائیل نے جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا تو فلسطین میں اسرائیلی دشمن کے خلاف عوامی غم وغصہ آتش فشاں بن کر پھٹ پڑے گا۔ حماس کے وفد میں سیاسی بیورو کے ارکان موسیٰ ابو مرزوق اور عزت الرشق کے علاوہ روس میں موجود فلسطینی سفارتکار بھی شامل تھے۔ اس موقع پر نائب وزیرخارجہ بوگدانوف نے غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی کارروائیاں کو بندکرنے پر زور دیا۔روس ، چین اور اسلامی ممالک پر مشتمل یہ متبادل عالمی نظام اگر مضبوط ہوجائے تو اسرائیل و مغربی استعمار کی رعونت کو خاکستر کر دے گا بقول افتخار عارف؎
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں.
Comments are closed.