اسلاموفوبیا کی تاریخ و تعریف – ہمارا ردِ عمل

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

فوبیا اصلاً یونانی زبان کا لفظ ہے جو قدیم گریک مائتھولوجی سے لیا گیا ہے جس میں فوبوس نام کے دو جڑواں بھائی تھے جن کو Brother of Diemos کہا جاتا تھا جو دہشت پھیلاتے تھے۔ بعد میں یہ لفظ لیٹن سے ہوتا ہوا انگریزی زبان میں آیا جو ایک نفسیاتی بیماری کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں ایک شخص کسی خاص چیز سے خوف اور دہشت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جیسے پاگل کتنے نے کسی کو کاٹ لیا ہے تو اس کو Rabies کی بیماری ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کو پانی سے خوف و دہشت محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے اس بیماری کو میڈیکل ٹرم میں Hydrophobiaکہتے ہیں۔ اگر اس مرض کاٹھیک سے بروقت علاج نہیں کیا گیا تو وہ آدمی کتے کی طرح بھونک بھونک کر پیاس سے مرجاتا ہے۔ یہ لفظ عام اور حقیقی خوف کے لیے نہیں بولا جاتا ہے بلکہ جب ایک شخص کسی چیز سے نفسیاتی طور پر خوف و دہشت محسوس کرتا ہے اس کے لیے بولا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ ایک ہتک آمیز اصطلاح ہے اور لوگوں کے اندر ایک نفسیاتی خوف پیدا کرکے ان کو اس کے خلاف متحد اور منظم کرکے اس کا قلعہ قمع کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ویکی پیڈیا کے مطابق اسلاموفوبیا کی اصطلاح فرنچ لٹریچر میں بیسویں صدی کے اوائل سے شروع ہوگیا تھا، جس کے معنی میں لگاتار تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ آج یہ اصطلاح جن معنوں میں استعمال ہوتی ہے اس معنی میں پہلے استعمال نہیں ہوتی تھی۔ 1910 میں فرنچ کولونیل بیوروکریٹ الین کوئلن(Alain Quellien) نے ایک تھیسس لکھی جس میں اس نے اسلاموفوبیا کی تعریف اس طرح کی ’’کچھ لوگوں کے نزدیک مسلمان عیسائیوں اور یورپ کے فطری اور کبھی نہ مفاہمت کرنے والے دشمن ہیں۔ اسلام تہذیب کی ضد ہے، بربریت اور غلط عقیدہ کا مظہر ہے اور آپ مسلمانوں سے سوا بے رحمی کے اور کوئی توقع نہیں رکھ سکتے ہیں۔‘‘ اس طرح ہنری لامن کے الفاظ میں یہ ’’ایک سیوڈوسائنٹفک کروسیڈ ہے جو اس امید پر شروع کیا گیا ہے کہ اسلام کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔‘‘
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق انگریزی زبان میں یہ اصطلاح 1923 میں جرنل آف تھیولوجیکل اسٹڈیز کے ایک مضمون میں استعمال کیا گیا تھا لیکن یہ 1997 میں رننی میڈ ٹرسٹ(Runnymade Trust) کی رپورٹ میں شائع ہونے کے بعد مقبول ہوا۔ کوفی انان نے 2004 میں ایک کانفرنس میں جس کا عنوان تھا ’’اسلاموفوبیا کا مقابلہ‘‘ میں بتایا کہ یہ اصطلاح اس لیے وضع کی گئی ہے کہ اس وقت جو بیگوٹری تیزی سے پھیل رہی ہے اس سے کیسے نپٹا جائے۔ گویا دنیا بھر کی اسلام دشمن اور مسلمان دشمن طاقتیں اسلام کو اور مسلمانوں کو اس طرح خوفناک طور پر پیش کریں کہ ساری دنیا میں ان کے لیے نفرت، حقارت، خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا جائے اور دنیا میں ان کے ساتھ کچھ بھی برا ہوتا ہے تو لوگ یہ مان کے چلیں کہ یہ لوگ ایسی ہی برتاؤ کے مستحق ہیں۔ اس وقت یوروپ، امریکہ، آسٹریلیا، اسرائیل، بھارت، چین، میانمار، سری لنکا اور روس اور دیگر ممالک میں جو اسلام اور مسلمانوںکے خلاف نفرت، تشدد اور حقارت کا ماحول پایا جاتا ہے، وہ اسی گہری سازش اور کوشش کا حصہ ہیجو اسلاموفوبیا کے نام پر ہورہا ہے۔
اسلاموفوبیا کی اصطلاح گرچہ نئی ہے مگر اس کے آثار و عواقب میں بہت قدیم ہے۔ اقبال کا ایک شعر ہے ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز، چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی۔ مشرکین مکہ اور دین ابراہیمی کے حاملین ہونے کے باوجود یہودیوں اور عیسائیوں نے جو رویہ اول دن سے حضور ﷺ اور حاملین اسلام کے ساتھ رکھا ہے، قرآن پاک میں پوری تفصیل سے اس کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ ہر وقت اس قدر غیض وغضب میں رہتے اور اسلام کو مٹانے کی جس طرح کوشش کرتے قرآن نے ان پر واضح کردیا کہ چاہے تم غیض وغضب میں جل مرو مگر یہ اللہ کا نور ہے جس کا وہ اتمام کرکے رہے گا۔ اور تمہاری سازشوں سے اور پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہیں جاسکتا ہے۔
جب اسلام کو مکہ اور نواح عرب پر فتح حاصل ہوگیا اور پورے خطے عرب پر یہ دین غالب ہوگیا تو انھوں نے اپنی سازشوں کا میدان بدل دیا۔ یہودی اور عیسائی مذہبی طور پر ایک دوسرے کے شدید دشمن ہیں مگر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشی سیاست میں ایک دوسرے کے شریک و سہیم ہیں۔ کروسیڈ کی پوری تاریخ ان سازشوں سے بھری پڑی ہے۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں یوروپ کی سامراجی طاقتوں کو ایشیا، افریقہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں اپنی حکومت قائم کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانوں کی سیاسی وحدت ختم کردی اور دوسرا کام یہ کیا کہ ان کی دینی، ملی اور سماجی وحدت کو پارہ پارہ کردیا۔ اسی طرح مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر ان کی طاقت ختم کرکے ان کو پوری طرح اپنی سیاسی، عسکری اور تہذیبی گرفت میں لے لیا، اس طرح مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو کس طرح اپنے دین اور عقیدے سے پھیر دیا جاے اور خود ان کی صفوں سے ایسے لوگ اٹھائے جائیں جو کھلے عام اسلام کی مخالفت میں جری ہوں اور ایسے عناصر کو مکمل پشت پناہی کی جائے۔
انیسویں صدی کے اواخر سے جب دنیا کے مختلف ملکوں میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی اور بیسویں صدی کے اوائل میں پہلی جنگ عظیم اور چند سالوں کے بعد دوسری جنگ عظیم نے یورپ کی استعماری قوتوں کو کمزور کردیا تو دنیا کے بہت سارے ملک دھیرے دھیرے آزاد ہونے لگے۔ اسی درمیان زار روس میں 1917 میں بولشیویک انقلاب ہوا جس کو کمیونسٹ انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس نے یورپ اور امریکہ کی سرمایہ دارانہ حکومت و معیشت کو چیلنج کرتے ہوئے پلولیٹریٹ ڈکٹیٹرشپ قائم کردی۔ اس طرح دنیا دو خیموں میں بٹ گئی اور دونوں نظریات ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس طرح دونوں طرف ہارٹ اور کولڈ وار کا آغاز ہوگیا۔ جب 1991میں سوویت روس میں اشتراکی حکومت کا زوال ہوگیا اور یو ایس ایس آر اور امریکہ اور دیگر سرمایہ دارانہ کیمپ کے درمیان جو کولڈ وار چل رہا تھا ختم ہوگیا۔ اس کے بعد پوری مغربی دنیا کا رخ اسلام اور مسلمان کی طرف ہوگیا۔ 1990میں برٹش پرائم منسٹر مارگٹ تھیچر نے اعلان کردیا کہ اب ان کا رخ اسلام کی طرف سے اور جس طرح مغربی سرمایہ داریت نے کمیونزم کو شکست دے دی اسی طرح اب اسلام کو شکست دینا ہے اور اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینا ہے۔
اگر آپ 1990 سے 2023یعنی پچھلے 33 سالوں کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کس طرح امریکہ اسرائیل دیگر مغربی طاقتوں کے وسط ایشیا کے ممالک خاص طور سے عراق، لیبیا، شام، ایران، افغانستان، لبنان اور فلسطین کو تباہ وبرباد کرنے کی سازش رچی اور ایک پورے خوشحال خطے کو پوری طرح اینٹ پتھر کے ملبے میںتبدیل کردیا۔ وہاں مستحکم حکومت قائم کرنے کے بجائے پورے خطے کو خانہ جنگی کی آگ میںجھونک دیا۔ان تیس برسوں کے درمیان مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہا اور ایک اندازے کے مطابق کم و بیش 50 لاکھ مسلمان مارے گئے۔
جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 2001 میں حملہ ہوا تو اس نے امریکہ کی ناقابل شکست طاقت ہونے کا پول کھول دیا۔ اب اس کے بعد ساری دنیا میں اسلاموفوبیا کا ہوا کھڑا کیا گیا اور ورلڈ باڈیز سے لے کر دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان اسلامی دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے معاہدات ہونے لگے اور ساری دنیا میں اسلام کو اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش رچی گئی تاکہ ان کے خلاف جو بھی کارروائی کی جائے لوگ یہ مان کر چلیں کہ جو ہوا اور ہو رہا ہے وہ سہی ہے اور یہ لوگ اسی برتاؤ کے مستحق ہیں۔
اس وقت آپ یورپ میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور سویڈن میں اس کو جلانے کی خبریں پڑھ رہے ہیں۔ ہولینڈ، ڈنمارک میں حضورﷺ کی شان میں گستاخیاں، قابلِ اعتراض کارٹون، فرانس میں چارلی ہبڈو اخبار کی بدتمیزیاں اورحجاب و ابایا پر پابندی اسی کا ساخشانہ ہے۔ جہاں عریانیت،فحاشی،اباحیت، زنا کاری کی کھلے عام اجازت ہے اس ملک میںایک مسلمان عورت کو حجاب اور ساتر لباس میں باہر نکلنا اس پوری تہدیب کو چیلنج کرنا ہے۔ ان کی پوری فلم انڈسٹری، فیشن انڈسٹری، اور کاسمیٹک انڈسٹری جس میں اربوں کھربوں ڈالر لگے ہیں اس کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر کسی ساتر لباس کی عورت کو دیکھ کسی عورت کا ضمیر زندہ ہوگیا تو یہ تہذیب جو شاخ نازک پر ٹکی ہے زمین پر آرہے گی۔
بھارت میں جو آپ حجاب، اذان، نماز کے خلاف مہم ، موب لنچنگ، بولڈوزر جسٹس اور نفرت اور تشدد کا ماحول دیکھ رہے ہیں، مسلمانوں کے گھر، مکان، مسجد، قبرستان، مزار دوکانوں اور مکانوں کو توڑنے جلانے یا کسی علاقے سے نکل جانے کی دھمکی دی جارہی ہے، یہ اسی اسلاموفوبیا کا نتیجہ ہے جس کی گرفت میں اس وقت بھارت کی حکومت اور اس کی پشت پناہ قوتیں ہیں۔ دھرم سنسد میں قتل عام کا نعرہ اور مذہبی جلوسوں میں گالی گلوج، اور ننگی تلوار کا مظاہرہ سب اسلاموفوبیا کا مظہر ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہمارا ردِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ میری رائے میں ہمیں مثالی صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہاتھ اور زبان پر کنٹرول رکھنا چاہیے۔ یہ سب کچھ اپنی انتہا پسند قوتوں کو برسرِ اقتدار رکھنے کے لیے کیا جارہا ہے اس لیے ہمیں ایسی سیاسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تاکہ ان عناصر کی بالادستی ختم ہو۔برائی کا جواب اچھائی سے دیں۔ اپنے سماج سے جڑے رہیں۔ اسلام کی خوبی زبان سے نہیں عمل سے ظاہر کریں۔ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، غیر مسلم پڑوسیوں سے اچھے تعلقات رکھیں، افواہوں پر دھیان نہ دیں، مقامی اور ضلع انتظامیہ سے قریبی رابطہ بناکر رکھیں اور حالات سے باخبر رہیں اور باخبر رکھیں۔ ہر محلہ گاؤں اور شہر میں کچھ لوگوں کو ذمہ دار بنائیں، ملی جلی آبادی میں پیس کمیٹی قائم کریں اور باہمی مشورے سے کوئی قدم اٹھائیں۔ اچھی طرح جان لیں اسلام کوئی ازم نہیں بلکہ اللہ کا دین ہے اس کا محافظ اللہ ہے۔
آندھی طوفان چاہے جتنا سخت ہو وہ کچھ تباہی ضرور لائے گا مگر بالآخر اس کا زور ٹوٹے گا اور حالات نارمل ہوں گے، ہم اس کو قدرتی آفات کی طرح لیں۔ گرچہ یہ انسانوں کے ذریعہ لائی گئی آفت ہے، یہ ضرور ختم ہوگی۔ صبر، حکمت، ہمت، اتحاد، علم اور ایمان کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں انشاء اللہ یہ جو کالے بادل آسمان پر منڈلا رہے ہیں بہت جلد چھٹ جائیں گے۔ نہ ڈریں نہ ڈرائیں بلکہ مل جل کر حالات کا مقابلہ کریں۔

Website: abuzarkamaluddin.com

Comments are closed.