رعونت کی انتہا:انتونیو گوئیتریس سے استعفیٰ کا مطالبہ

ڈاکٹر سلیم خان
اسرائیل نے اب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا استعفیٰ طلب کرلیا ہے ۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کوہن نے گوتریس کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات منسوخ کردیئے اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو ویزہ دینے سے انکار کردیا ۔ مغرور اسرائیلی حکام کی اس حرکت کو دیکھ کر پرانی ہندی فلموں کا ولن یاد آتاہے جو عموماً زمیندار کی بگڑی ہوئی اولاد ہوتا تھا۔ وہ سارے گاوں پر اپنے باپ کی سرپرستی اور ماتحت غنڈوں کی مدد سے ظلم و ستم ڈھاتا تھا۔ اس کو اپنے خلاف ایک لفظ سننا گوارہ نہیں ہوتا اور اگر کوئی بزرگ نصیحت کے لیے آگے آتا تو وہ بھی مظالم کا شکار ہوجاتا ۔ اسرائیل دراصل نام نہاد مہذب مغربی دنیا کی بگڑی ہوئی ناجائزاولاد ہے۔ ان کی بے مہار پشت پناہی نے اس کا دماغ خراب کررکھا ہے کیونکہ اسرائیل کی ساری بربریت کو یوروپ اور امریکہ جواز فراہم کردیتے ہیں ۔ اس کے خلاف منظور ہونے والی ہر تجویز اقوام متحدہ میں ویٹو کردی جاتی ہے۔ساری زیادتیوں کے باوجود اسے ہر طرح کی مددمل جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اندر تنقیدبرداشت کرنے کا مادہ ختم ہوگیا ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا ایک جملہ اس پر اتنا گراں گزرتا ہے کہ وہ ان کے استعفے کا مطالبہ کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا ۔ یہ رعونت اور گھمنڈ کی انتہا ہے ۔ اسرائیلی حکام کواپنی ہی کو تاریخ میں جھانک کر’انا ربکم الاعلیٰ ‘ کا نعرہ لگانے والے فرعون اور خود ان کا قتل عام کرنے والے ہٹلر کا کیا انجام دیکھ لینا چاہیے ۔
اسرائیل اس جرم عظیم کا ارتکاب مغربی قوتوں کی پشت پناہی کے بل بوتے پر کررہا ہے۔ ان طاقتوں پر تنقید کرتے ہوئے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے عالمی قوتوں سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو ختم کرانے کا مطالبہ کرنےکے بعد کہا کہ دنیا فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیل کے قبضے کو نظرانداز کرنے کے بعد اب قتل عام پر بھی خاموش ہے۔ اس مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے اسرائیل کو قتل عام کی کھلی اجازت مل گئی اور وہ ننگی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ پر وحشیانہ بمباری کر رہا ہے۔ یہ بات اس وقت کہی گئی جب اسرائیل نے دو دنوں کے اندر پندرہ سو سے زیادہ لوگوں کو شہید کردیا کیونکہ اسے عالمی استعمار سے قتل و غارتگری کا کھلا لائسنس ملا ہوا ہے۔ شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے کہا کہ وہ اسرائیلی جارحیت پر خاموش نہیں رہ سکتے کیونکہ خواتین اور بچوں سمیت معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ اس نازک صورتحال میں غزہ کو بھیجی جانے والی امداد سے متعلق انتونیو گوتریس نےاعتراف کیا کہ غزہ کی تباہی کے پیش نظر وہاں بھیجی جانے والی امداد سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔ عالمی طاقتوں کو اس معاملے پر آگے بڑھ کر غیر مشروط اور بغیر پابندیوں کے فلسطینیوں کی مدد کرنی چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کے مطابق 7؍ اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کا کوئی جواز تو پیش نہیں کیا جا سکتامگراُن ’حملوں کی سزا مجموعی طور پر فلسطینی عوام کو دی جا رہی ہے۔‘ اس پر اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاڈ ایردان نے گوتریس سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے ایکس (سابق ٹوئٹر) پیج پریہ لکھ دیا کہ ’اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، جنھوں نے دہشت گردی اور قتل و غارت کی جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے‘ اقوام متحدہ کی قیادت کرنے کے اہل نہیں ہیں‘‘ تو گوئیتریس ڈر گئے ۔ وہ ترکیہ کے صدر کی مانند یہ نہیں کہہ سکے کہ حماس ایک حریت پسند تحریکِ مزاحمت ہے۔ وہ دہشت گرد تنظیم نہیں بلکہ اپنی سر زمین کے تحفظ کے لیے جنگ لڑنے والاگروہ ہے۔اردوان نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ روکنے میں اقوام متحدہ کی ’نااہلیت‘ پر مایوسی کا اظہار کرنے کے بعد مغربی قوتوں کو غیر علاقائی ممالک کا نام دے کر اسرائیل کی حمایت کرنے اور آگ میں تیل ڈالنا بند کرنے سے روکا۔ پائیدار امن اور جنگ بندی کیلئے مسلم ملکوں کومل کر اقدام کرنے پر فلسطینی فریق کے لیے ضمانت لینے کی پیشکش کی ۔
اس طرح کا دو ٹوک موقف اختیار کرنے کے بجائےانتونیو گوتریس نے اپنی وضاحت میں حیرانی کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے واضح طور پر اسرائیل میں دہشت گردی کی مذمت کی تھی۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاڈ ایردان نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئےکہا کہ ’سیکریٹری جنرل نے اپنے الفاظ واپس نہیں لیے اور معافی تک نہیں مانگی۔‘ یعنی اسرائیل کے خلاف اگر کوئی کچھ بول دے تو اسے معافی مانگنے کے بعد الفاظ واپس لینے چاہئیں ورنہ اس کی خیر نہیں ۔ ایسی داداگیری کا مظاہرہ شاید اقوام متحدہ میں پہلے کبھی نہیں ہوا ہوگا اور یہ ایسا ملک کررہا ہے جو دودن کی جنگ میں امریکہ کے آگے مدد کا ہاتھ پھیلانے کے لیے مجبور ہوگیا تھا۔ ویسےانتونیو گوتریس کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں۔ وہ یکم جنوری 2017 سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہیں ۔ پرتگال کے اس سابق وزیر اعظم نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا کام کیا۔ 1974 میں پرتگالی سوشلسٹ پارٹی کی صفوں میں شامل ہونے کے بعد 1976 میں منتخب ہوکر17 سال رُکنِ پارلیمان رہے۔ 1991 سے 2002 تک پرتگالی کونسل آف اسٹیٹ کے رکن رہےاور 1995 سے 2002 تک پرتگال کے وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ اسرائیل کو ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے سے قبل ان کی اس حیثیت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
عالمی سیاست میں انتونیو گوتریس کا قد خاصہ اونچا ہے۔ 1981 سے 1983 تک وہ کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی کے رکن تھے۔ اس دوران انہوں نےہجرت و پناہ گزینوں سے متعلق کمیٹی کی صدارت کی۔ سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم سوشلسٹ انٹرنیشنل کے نائب صدر کی حیثیت سے وہ افریقی کمیشن اور تنظیم میں ترقیاتی کمیٹی کی شریک صدر رہے۔ دنیا بھر کے سابق ڈیموکریٹک صدور اور وزرائے اعظم کے قائدانہ اتحاد کلب آف میڈرڈ کے بھی وہ رکن رہے ہیں ۔ 2005 سے 2015 تک پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے انہوں نے شورش اور تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں کام کو بہتر کیا ۔شام اور عراق میں تنازعات اور جنوبی سوڈان، وسطی افریقی ممالک اور یمن کے بحرانوں کے دوران یو این ایچ سی آر کی سرگرمیوں میں نمایاں کردار ادا کیا ۔یہ ستم ظریفی ہے کہ اس کے باوجود تنازعات، ظلم و ستم اور جنگ کے سبب بے گھر اور پناہ گزینوں کی تعداد جو2005 میں تین کروڑ 80 لاکھ تھی وہ مئی 2023 میں 11کروڈ ہوگئی۔غزہ کی بمباری نے اس میں بے شمار اضافہ کردیا ہے اس لیے وہ جنگ بندی اور باز آباد کاری پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں ۔ یہی چیز اسرائیل اور اس کے حلیفوں کی آنکھ کا کانٹا بن گئی ہے۔
یوکرین تنازع میں ان پر روس کی جانبداری کا الزام لگا تھا اور اب حماس کی حمایت کی تہمت باندھی جارہی ہے ۔ اقوام متحدہ میں استعفیٰ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس طرح کسی کو مستعفی ہوکر جانے کے لیے دباو بنانا حیرت انگیز ہے۔ امسال مارچ میں خود انتونیو گوئیتریس نے بدعنوانی کا الزام لگنے پر ایک افسر کا استعفیٰ قبول کیا۔ اس سے قبل2017 میں اقوام متحدہ کی اہلکار ریما خلف نے اسرائیل کی نسل پرستی کے خلاف اقوام متحدہ کی ای ایس سی ڈبلیو اے نامی ویب سائیٹ پر ایک مضمون شائع کیا تھا۔ گوئیتریس نے ریما کو رپورٹ ہٹانے پر مجبور کیا تو انہوں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ۔ یہ اسرائیل نوازی بھی ان کے کام نہیں آئی کیونکہ وہ ایک نمک حرام ملک ہے۔سوڈان کے اقوام متحدہ خصوصی سفیر کو سوڈانی حکومت کے اصرار پر چار سال قبل استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا ۔ یہ کام بھی گوئیتریس کے ہاتھوں ہوا۔ انہیں نے اس دوران سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس کی گاز خود ان پر بھی گر سکتی ہے۔گوئیتریس کی آمد سے قبل 2014 میں عرب ممالک میں تنازعات کو سلجھانے میں ناکامی کے بعد عالمی شہرت یافتہ خصوصی سفارتکار لکھدر براہیمی بھی استعفیٰ دے کر چلے گئے تھے ۔ انہوں نے افغانستان اپنی خدمات انجام دی تھیں مگر شام میں ناکامی کے بعد مایوس ہوکر استعفیٰ دے دیا تھا لیکن کسی کو انتونیو گوئیتریس کی مانند مجبور نہیں کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
اسرائیل کی نظر میں سکریٹری جنرل کا قصور یہ ہے کہ 24؍ اکتوبر کو اپنی تقریر میں انتونیو گوتریس نے رواں ماہ کی 7 تاریخ کو حماس کے حملے کی مذمت کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ حملہ خلا میں نہیں ہوا۔ اس طرح گویا انہوں نے حملے کی بنیادی وجہ 56 سالوں سے فلسطینی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ اور سنگین انسانی صورتحال سے جوڑ دیا ۔ یہی وہ جملہ تھا جس سے آگ بگولا ہوکر اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مندوب نے انتونیو گوتریس سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کردیا ۔ کیا یہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا فرضِ منصبی نہیں ہے کہ وہ غزہ میں ہونے والی عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں کا پردہ چاک کر کے انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کریں ؟ کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل کا یہ کہنا کوئی گناہِ عظیم ہےکہ غزہ میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی جائے کیونکہ وہاں بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں ۔ کیا ان کی یہ دلیل بیجا ہے کہ ’حماس کو بنیاد بنا کر فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی اجازت دی جانی چاہیے۔کیا ان کا غزہ میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کااظہار کرنا غلط ہے اور انہیں فوری طور پر روکنے کے لیے سعی کرنا جرم ہے؟ یہ سب تو نہایت معقول باتیں ہیں مگر وہ مغرور جو ان کو سننے کا عادی ہی نہ ہو وہ اسے کیونکر برداشت کرسکتا ہے؟ایسے میں عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ اب وہ اپنا رویہ درست کریں ورنہ’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘کی مصداق اسرائیل کےساتھ مغرب کی برتری کا سورج بھی غروب ہوجائے گا۔
Comments are closed.