موجودہ حالات میں ہماری ملی پالیسی— ایک نقطۂ نظر

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
میں نہ مسلمانوں کا کوئی منتخب نمائندہ ہوں اور نہ ملت کی طرف سے متعین کردہ بااختیار ترجمان ہوں اور نہ کسی نے مجھے اپنا وکیل بنایا ہے۔ لہٰذا میں اوفیشیلی اتنے اہم موضوع پر اظہارِ خیال کا مجاز نہیں ہوں، تاہم ملتِ اسلامیانِ ہند کی ایک جزولاینفک اکائی ہونے کے ناطے میں جو سمجھتا ہوں، وہ ملک اور ملت دونوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ ایک شخص کو پورا اختیار ہے کہ وہ اس کو پوری طرح قبول کرے یا پوری طرح رد کردے یا اس کی بعض باتوں سے اتفاق کرے اور بعض سے اختلاف کرے یا اس پوری بحث کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے۔ یہ میری خالص ذاتی رائے ہے جس کو میں ایک نقطۂ نظر کے طور پر پیش کررہا ہوں۔
بھارت کے مسلمان عام تاثر کے برعکس کوئی مونولیتھک سوسائٹی نہیں ہیں بلکہ ہندوستان کی عام مذہبی اور سماجی اکائی کی طرح ایک ہیٹروجینس گروپ ہے جس میں سطح در سطح اور بھانت بھانت کے لوگ رہتے ہیں۔ یہ پورا چڑیا خانہ ہے جس میں ہر چرند اور پرند کی الگ الگ آواز ہے۔ لہٰذا اتنے متنوع اور مختلف الخیال لوگوں کی طرف سے کوئی بات کہنا کتنا مشکل ہے۔ اظہارِ خیال میں یہ احتیاط لازم ہے کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے۔
بھارت کی کل موجودہ آبادی 140کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ جس میں بھارت کی آزادی کی عمر کے لوگ یعنی 75 سال کی عمر کے لوگ کل آبادی میں اس وقت 28 لاکھ 36 ہزار 823 ہیں۔ 80 سال اور اس سے زائد عمر کے لوگ 13لاکھ 28ہزار 427 ہیں اور 90 سال کے لوگ ایک لاکھ 26ہزار 412ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھارت کو آزادی ملی تھی اس وقت محض ایک لاکھ 26 ہزار لوگ جو آج بھی زندہ ہیں ان کی عمر 15 سال یا اس سے کچھ زیادہ رہی ہوگی۔ یعنی اس تعداد کے علاوہ جتنی آبادی تھی وہ کب کی اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہے۔ لہٰذا اس وقت جو لوگ بھارت میں رہ رہے ہیں ان کا بھارت کی آزادی میں کوئی یوگ دان نہیں تھا۔ کیونکہ یا تو اس وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے یا اگر پیدا ہوگئے تھے، اس وقت وہ اتنے چھوٹے تھے کہ انھوں نے آزادی کی جنگ میں کوئی حصہ نہیں لیا ہوگا۔ لہٰذا بھارت کی موجودہ نسل کو آزادی تحفہ اور وراث میں ملی ہے۔ اس کے لیے قربانیاں ان لوگوں نے دیں جو 19ویں صدی کے نصف میں اور بیسویں صدی کے اوائل میں پیدا ہوئے۔ اس وقت بھارت میں 20 سے 40 کی آبادی کم و بیش 85 فی صد ہے۔ اس لیے بھارت کو دنیا کا سب سے نوجوان ملک مانا جاتا ہے اور اپنے مین پاور کی بدولت بھارت کو دنیا کا انجن آف گروتھ مانا جاتا ہے۔ بھارت میں حکومت کسی پارٹی اور گٹھ بندھن کی ہو، عالمی معیشت اور سیاست میں بھارت کی اہمیت اس کے انسانی وسائل کی وجہ سے ہمیشہ قائم رہے گی۔
بھارت میں جو آزادی کے بعد پیدا ہونے والے لوگ ہیں، انھیں بھارت کی آزادی کا کریڈٹ نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح آزادی کی جنگ کے دوران ہمارے لیڈروں سے جو غلطیاںہوئیں یا دیش کا بٹوارہ ہوا اور سرحد کے دونوں طرف لاکھوں انسانوں کا خون بہا اس کا الزام بھی بعد کی نسلوں پر نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ دنیا کے قانون کی کسی کتاب میں یہ لکھا ہوا نہیں ہے کہ باپ دادا کی غلطیوں کی سزا اس کے پوتے پرپوتے کو دی جائے گی۔ ایسی کوئی حرکت اپنے آپ میں ایک ظلم عظیم ہے اور ایک ہزار برس کا حساب تو اور بھی مضحکہ خیز ہے۔ سانپ بل میں جاچکا ہے اب لاٹھی پیٹنے سے کیا فائدہ؟
ہاں بھارت میں آزادی کے بعد جو نسل پیدا ہوئی اس کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دیا جائے گا کہ اس نے اس ملک کی آزادی کو برقرار رکھا ہے، ملک میں جمہوریت قائم رکھی ہے اور ملک کے اتحاد و سالمیت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی ہے۔ ملک کی سرحدیں محفوظ ہیں اور سسٹم کی تمام خرابیوں کے باوجود ملک معاشی، سماجی، سائنسی، ٹیکنالوجی اور عسکری اعتبار سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے جس کا کریڈٹ بھارت کی لیڈر شپ، اس دیش کے کسان، نوجوان، فوج، بیوروکریسی، جوڈیشیری، یہاں کے صنعت کار، دانش وروں، سول سوسائٹی، صحافی اور سائنس دانوں اور عام شہریوں کو جاتا ہے۔ بھارت آج اعتماد کے ساتھ آگے کی طرف پیش قدمی کررہا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے۔ بھارت کو اس مقام تک لانے میں بھارت کے مسلمانوں کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اب میں دوسرے پہلو پر آتا ہوں۔
15؍اگست 1947 کی آدھی رات کو جب یونین جیک اتار کر پارلیامنٹ کے سنٹرل ہال میں بھارت کی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے جو تاریخی تقریر کی تھی وہ دراصل آزاد بھارت کا چارٹر تھا۔ جس میں انھوں نے بھارت کی آزادی کا مطلب سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آزادی اور اقتدار اپنے ساتھ ذمہ داری لاتی ہے۔ بھارت کی خدمت کا مطلب ان لاکھوں لوگوں کی خدمت ہے جو مصیبت میں مبتلا ہیں۔ جس کا مطلب غریبی، جہالت، بیماری اور مواقع کی نابرابری کا خاتمہ ہے۔‘‘ انھوں نے مہاتما گاندھی کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’ہمارا مشن ہر آنکھ کے آنسو پوچھنا ہے۔ اور جب تک یہ منزل حاصل نہیں ہوتی ہمارا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ امن، آزادی اور خوشحالی جزولاینفک ہیں۔ ہم اس دنیا میں الگ تھلگ نہیں رہ سکتے ہیں۔‘‘
نہرو نے اسی تقریر میں کہا تھا کہ ’’ہم سب چاہے ہمارا جو بھی مذہب ہو ہم بھارت کی برابر کے سنتان ہیں اور ہمارے اختیارات برابر ہیں، ہمارے اختصاص اور ہماری ذمہ داریاں برابر ہیں۔ ہم فرقہ پرستی اور تنگ ذہنتی کی ہمت افزائی نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ کوئی ملک اور قوم اپنے لوگوں کے فکروعمل میں تنگ نظری کے ساتھ عظیم نہیں بن سکتا ہے۔‘‘
نہرو کی اس تقریر کا عکس ہمیں بھارت کے دستور میں دیکھنے کو ملتا ہے، جس کے افتتاحیہ میں یہ بات جلی حرفوں میں لکھی ہوتی ہے کہ ’’بلا تخصیص و امتیاز بھارت کے تمام شہریوں کے لیے عدل، آزادی، برابری اور بھائی چارہ کا حصول ہماری مقدس دستوری ذمہ داری ہے۔‘‘ بھارت کے دستور میں شہریت کی جو تعریف کی گئی ہے،شہری حقوق اور اختیارات کی جو گارنٹی دی گئی ہے، شہری ذمہ داریوں کا جو تذکرہ کیا گیا ہے اور تمام دستوری اداروں کے خط وخال کی تفصیل متعین کی گئی ہے۔ مقننہ، عدلیہ اور عاملہ کے درمیان جو حد فاصل کھینچا گیا ہے وہ ملک میں جمہوریت، شہری آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے ایک لازمی عنصر ہے لہٰذا اس کی حفاظت کرنا اور اس کو مضبوط کرنا تمام شہریوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
ہندوستانی مسلمان بھارت کے سماج کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ کبھی کبھی لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ پہلے مسلمان ہیں یا پہلے ہندوستانی ہیں۔ اس سے زیادہ مہمل اور بے وقوفانہ سوال کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔ مگر لوگ اس کو ایک خاص سیاسی رنگ دے کر مسلمانوں کو کور نر کرنے کے لیے یہ بے ہودہ سوال پوچھتے ہیں۔ جبکہ کسی سکھ، کسی پارسی، کسی بودھ، کسی جین یا کسی اور گروہ اور فرد سے یہ سوال نہیں پوچھا جاتا ہے۔ یہ ایک بیمار ذہن کا سوال ہے۔ ہماری قومیت ہندوستانی ہے اور ہم عقیدے سے مسلمان ہیں۔ ہمیں اپنی دونوں پہچان ہماری دو آنکھوں کی طرح ہیں۔ اب کوئی پوچھے کہ تم دائیں آنکھ سے زیادہ پیار کرتے ہو یا بائیں سے؟ آپ ایسا سوال کرنے والے کی عقل پر ماتم کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے۔ ہمیں دونوں آنکھیں برابر کی عزیز ہیں اور ہم ان میں سے کسی کو گنوانا نہیں چاہیں گے۔ مگر اس کے بعد بھی کسی کو اصرار ہو کہ آپ کس کو ترجیح دیں گے تو میں کہوں گا اسلام ہماری روح ہے اور بھارت ہمارا جسم ہے۔روح کے بغیر جسم کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور جسم کے بغیر روح کا تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ بصورتِ دیگر اگر آپ ہندوستانی مسلمان کی لفظی ترکیب پر غور کریں تو خود بخود واضح ہوجائے گا کہ ہماری پہلی پہچان ہماری قومیت ہے اور دوسری پہچان ہمارا دین ہے اور ان دونوں پہچان میں کوئی تضاد اور تصادم نہیں ہے۔ کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ ہمارے لیے اس دھرتی کا چپہ چپہ مسجد کی طرح پاک ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہم وقت ہونے پر کہیں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں جس پر کچھ لوگ جہالت اور حماقت کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں۔
میں ہمیشہ اختصار میں اور ٹو دی پوائنٹ بات کرنے کا عادی رہا ہوں۔ مگر ہم نے یہ لمبی تمہید اتمام حجت کی غرض سے پیش کی ہے تاکہ آگے جو باتیں میں ملک و ملت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اس کا پس منظر واضح ہوجائے۔
بھارت اس وقت حکمراں طبقہ کے بقول امرت کال میں ہے لیکن ذرا اس امرت کے نیچے جھانک کر دیکھئے تو پورا گھڑا زہر سے بھرا ہے۔ فسطائیت کا ننگا ناچ ہورہا ہے۔ وہ سارے لوگ جو تمام انتہا پسندی کی حدیں پار کرچکے ہیں اس وقت سنسد میں ہیں اور لوک سبھا میں بیٹھ کر کھلے لفظوں میں گالیاں بول رہے ہیں۔ ان حالات میں کن کی جان و آبرو جائے گی اور کن کی بچے گی یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ ہم ایک خطرناک مگر فیصلہ کن موڑ پر ہیں۔ لہٰذا صبر، حکمت اور ہمت سے آگے کا قدم اٹھانا ہے۔ ایک بات اچھی طرح یاد رکھئے کہ ہم اپنی کشتیاں جلا چکے ہیں، اس لیے اب کہ جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پر ہوگا،ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی۔ ہم مہابھارت کے کرشن جی کی طرح پانڈوں کی طرف سے کوروں کے لیے پانچ گاؤں کی کوئی تجویز لے کر نہیں آئے ہیں بلکہ ہم یہ عزم لے کر اٹھے ہیں کہ مادر وطن نے ہمیں جو تاریخی ذمہ داری تفویض کی ہے اس کو نبھاتے ہوئے چلیں گے اور اس ملک کی تعمیر و ترقی اور جمہوریت کی بقا میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے مندرجہ ذیل امور کو ترجیحی طور پر انجام دیں گے۔
(۱) ملک کے دستور اور آئین کی حفاظت کریں گے، جمہوریت کے تحفظ اور جمہوری اداروںکی مضبوطی اور عدلیہ کی آزادی نیز قانون کی حکمرانی کو ہر حال میں قائم اور باقی رکھنے کا پورا پورا اہتمام کریں گے اور ہر اس طاقت کا ساتھ دیں گے جو اس عزم کے ساتھ میدان عمل میں آئے گی۔
(۲) اپنے شہری اور آئینی حقوق کی حفاظت کریں گے اور تمام مظلوم پس ماندہ اور کمزور طبقات کو جوڑ کر ایک ایسا پائیدار اتحاد قائم کریں گے جو ظالموں کا ہاتھ پکڑ سکے اور انہیں ظلم سے روک سکے۔ ہم بھارت کی عام عوام کے ساتھ ایک مشترکہ محاذ بناکر جدوجہد کریں گے۔
(۳) ہم آنے والے انتخاب کو اکثریت بنام اقلیت یا اقلیت بنام اکثریت نہیں بننے دیں گے، بلکہ یہ چناؤ مذہب اور ذات پات سے اوپر اٹھ کر بے روزگاری، مہنگائی، عورتوں کا تحفظ، کمزور طبقات کی حصہ داری، کسانوں اور نوجوانوں کے مسائل پر لڑنے کے لیے مجبور کریں گے، اس کے لیے عوام میں ان مدوں کی تشہیر ضروری ہے تاکہ عوام جذباتی نعروں اور باتوں میں آکر غلط فیصلہ نہ کریں۔
(۴) مسلمان بحیثیت فرد اور ملت اپنا پورا وزن ان طاقتوں کو مضبوط کرنے میں ڈالیں گے جو دستور اور جمہوریت کو بچانے والے ہوں گے۔ ہم اپنے مسائل اور اپنی کسی مانگ کو چناوی مدا نہیں بنائیں گے کیونکہ ایسا کرنے سے کاؤنٹر پلورائزیشن ہوگا جس سے فسطائی طاقتوں کو فائدہ ہوگا۔ پارلیامنٹ اور اسمبلی میں ہماری نمائندگی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ مگر حالات اس کے متقاضی نہیں ہیں اس لیے ہم اپنے مسائل اور امنگوں کو بالائے طاق رکھ کر پوری قوم کے ساتھ کندھے سے کندھاملا کر کام کریں گے تاکہ دستور اور آئین محفوظ رہے۔
(۵) آخری بات خود اعتمادی، خدا اعتمادی، اپنی مدد آپ کے اصول پر اپنی ملت کی تعمیر نو کا منصوبہ بنائیں گے اور اپنے بچوں کی اچھی تعلیم، آزادانہ طور پر اپنے معاشی استحکام کی کوشش، اپنی صفوں میں اتحاد، ملک کی تمام مذہبی اور قومی برادریوں سے محبت اور خدمت کی بنیاد پر خیرسگالی کا رشتہ قائم کرکے نیا بھارت بنائیں گے جہاں سبھی امن و چین کے ساتھ خیرسگالی کے ماحول میں رہ سکیں۔
یہ وہ چند امور ہیں جن کو ہم اپنی ملی پالیسی کا اصل الاصول مان کر کام کریں تو مجھے امید ہے کہ دیر یا سویر حالات بدلیں گے اور پھر بھارت کی تعمیر و ترقی، استحکام اور تحفظ، سماجی امن، فرقہ وارانہ خیرسگالی میں ہم اپنا مثبت اور تاریخی کردار ادا کرسکیں گے۔
کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں میرا حق ہے فصل بہار پر
مجھے دیں نہ غیظ میں دھمکیاں گریں لاکھ بار یہ بجلیاں
میری سلطنت یہ ہی آشیاں میری ملکیت یہ ہی چار پر
Website: abuzarkamaluddin.com
Comments are closed.