بچوں کو اچھا بنانے کے لیے خود کو اچھا بنائیے

عبدالغفارصدیقی
9897565066
دنیا میںانسان کے لیے سب سے قیمتی چیزاس کے بچے ہیں ۔انسان اپنی جان دے کر بھی بچے کی جان بچاتا ہے ۔اگر بچہ شدید بیمار ہوجائے تو والدین یہی دعا کرتے ہیں کہ ’’ مولا! ہماری جان لے لے مگر ہمارے بچے کی جان بخش دے ۔‘‘یہ ہر انسان کا فطری جذبہ ہے ۔لیکن اس وقت ہمارا معاشرتی نظام اس قدر خراب ہوگیا ہے کہ اکثر بچے اپنے والدین کی خواہشوں پر پورے نہیں اتر رہے ہیں ۔وہ والدین جنھوں نے اپنے خون سے بچے کی پرورش کی ،جنھوں نے اپنی محنت سے چار پیسے کما کر بچے کو پالا پوسا ،خود بھوکے رہ کر اسے کھلایا ،یہاں تک اپنی بیماریوں کو بھی چھپایا اور بچے کوکچھ بنانے کی دھن میں اپنا علاج بھی نہیں کرایا وہی والدین عالم ضعیفی میں اپنے بچوں کی بے اعتنائی کا شکار ہورہے ہیں ۔یہ مرض وبا کی طرح پھیل رہا ہے ۔صرف گائوں ،دیہات کے ان پڑھ اور غریب والدین میں ہی نہیں بلکہ شہر کے مالدار اور تعلیم یافتہ گھرانے بھی اس کی زد میں ہیں ۔بیشتر والدین کواپنے بچوں سے نافرمانی کی شکایت ہے ۔
بچے انسان کا اپنا مستقبل بھی ہیں اور قوم اور ملک کا مستقبل بھی ۔اس وقت انسانی سماج اخلاقی زوال کا شکار ہے ۔ہماری وہ قدریں جو برسہابرس کی محنت اور جانفشانی سے قائم ہوئی تھیں ،ایک ایک کرکے ختم ہورہی ہیں ۔بعض ان برائیوں کو جن کا تصور بھی آج سے پہلے نہیں کیا جاسکتا تھا قانونی تحفظ حاصل ہے ۔مثال کے طور پر بغیر نکاح اور شادی کے کسی مرد اور عورت کا ایک ساتھ رہنا ،مرد کا مرد سے شادی کرنا اورتبدیلی جنس وغیرہ ۔کسی بھی مہذب سماج میں یہ تینوں برائیاں قابل قبول نہیں تھیں ،مگر آج لیو ان ریلشن شپ اور انسانی حقوق کے نام پر ان کو قانونی تحفظ حاصل ہے ۔کیا کوئی عاقل فرد ہوش و حواس میں رہتے ہوئے یہ فیصلہ کرسکتا تھا کہ وہ مخنثوں والی زندگی بسر کرے گا ۔جس کمیونٹی کی قربت سے بھی کبھی گریز کیا جاتا تھا ،آج بخوشی اس کو اختیار کیا جارہا ہے ۔مجھے اس وقت تعجب ہوا جب میرے ایک دوست نے بتایا کہ یہ قبیح عمل پاکستان جیسے اسلامی ملک میں تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔اس کے بعد میںنے مختلف ویب سائٹس پر دیکھا کہ پاکستان میں کئی ہجڑے سلیبرٹیز بن گئے ہیں ،ان کے پاس اربوں کی جائداد اور بنگلے و کوٹھیاں ہیں،مہذب کہے جانے والے امیر و کبیران کو اپنی محفل میں بدھائی کے لیے مدعو کرتے ہیں اور لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں ۔
زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزوں میں تبدیلی آئی ہے ۔نئی نئی ایجادات نے جہاں ہزاروں مشکلات پر قابو پایا ہے وہیں کچھ نئی پریشانیوں نے بھی جنم لیا ہے خواہ ہمارے بے اعتدالیوں کے نتیجہ میںہی ایسا ہوا ہو ۔ایک طرف فاسٹ فوڈ کے نام پر مہیا کرائی جانے والی خوردو نوش کی اشیاء نے ہمارے جسم کو بیماریوں کا گھر بنادیا ہے۔ وہیں پب جی جیسے کھیلوں نے نئی نسل کی زندگی تباہ کرکے رکھ دی ہے ۔بے حیائی اور بے شرمی کا وہ عالم ہے کہ ملائک کے ایمان بھی خطرے میں پڑ جائیں ،جوان لڑکیاں اور لڑکے رات رات بھر فحش گفتگو اور چیٹنگ کے لیے آپ کی اسکرین پر موجود ہیں ۔ چھ مہینے میں موبائل کے نئے ورژن نے بچوں کے اندر اپنے ساتھیوں کے درمیان اسٹیٹس کا رعب جمانے کا رجحان پیدا کیا ہے اور وہ ایک موٹی رقم مہنگے موبائل خریدنے میں خرچ کررہے ہیں ۔جس سے غریب والدین پریشان ہیں ۔اسی طرح مہنگی گاڑیوں کے مطالبہ نے ماں باپ کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔قیمتی اور نادر اشیاء پہلے بھی ہوا کرتی تھیں ۔لیکن اس وقت نوابوں اور راجائوں کے علاوہ کسی کو ان کی خبر بھی نہیں لگتی تھی ۔موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے ہر شخص تک ان معلومات کو پہنچادیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کاکون ذمہ دار ہے ؟کیا زمانہ خود کو ترقی کرنے سے روک دے ،کیا نئی ایجادات و اکتشافات کا دروازہ بند کردیا جائے ؟کیا موٹر گاڑیوں اور موبائل کے نئے ورژن لانچ نہ کیے جائیں ؟ظاہر ہے یہ ناممکن ہے۔اس صورت حال کے لیے یوں تو ہم سب ذمہ دار ہیں ۔ہم میں سے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ،وہ کام کرے جس سے،فرد کی اپنی ذات ،سماج اور ملک کا بھلا ہو ۔لیکن دو طبقے اس کے لیے زیادہ ذمہ دار ہیں ۔ایک اہل حکومت و اقتدار اور دوسرامذہبی گروہ۔حکومت کے پاس قوت نافذہ ہے ۔وہ طاقت کے زور پر بہت سے قوانین تسلیم کراتی ہے ۔بہت سی چیزوں پر روک لگاسکتی ہے ۔اب آپ نماز کو ہی لیجیے ،ایک اچھا اور نیک عمل ہونے کے باوجود بھارتی حکومت نے سر عام اور سرکاری مقامات پراسے پڑھنے پر روک لگادی ہے ،جہاں کوئی شخص کسی ٹرین ،اسکول ،یا پارک میں نماز پڑھتا ہوا نظر آتا ہے ،اس کی ویڈیو بنالی جاتی ہے ،اس پر ایف آئی آر درج ہوجاتی ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے اب عیدین میں سڑکوں پر نماز نہیں ہوتی ،آمدو رفت کے راستے مسدود نہیں ہوتے ۔جب آپ ایک اچھے اور نیک کام کو بزور قوت روک سکتے ہیں تو برائیوں کو کیوں نہیں روک سکتے ؟حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جسمانی صحت اوراخلاقی قدروں کی حفاظت کرے ۔آخر دنیا میں وہ ممالک بھی ہیں جہاں جسمانی صحت کو خراب کرنے والی اشیاء فروخت نہیں ہوسکتیں اور ان کا نظام اس قدر چست درست ہے کہ دوکاندار کھانے پینے کی خراب چیزوں کو بآسانی ڈسٹ بن کے حوالہ کردیتا ہے ۔ہمارے ملک میں دوائیں تک نہ صرف نقلی فروخت ہورہی ہیں بلکہ ایکسپائرمیڈیسن بھی دیتے وقت دوکاندار کے ہاتھ نہیں کپکپاتے ۔ہمارے یہاںسب سے زیادہ کھلواڑ عوام کی صحت کے ساتھ ہورہا ہے ۔
مذہبی گروہ ،خواہ علماء دین اسلام ہو ں یا غیر مسلم علماء ،ان کے پاس اگرچہ قوت نافذہ نہیں ہوتی لیکن یہ گروہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے ۔اگر علماء حکمت عملی کے ساتھ بچوں اور نئی نسل کی تربیت کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ،مگر ہمارے یہاں تو ان پاک بازوں کو بجرنگ بلی اور یا علی کے نعروں سے ہی فرصت نہیں ۔بچوں کی تربیت و اصلاح کا کوئی پروگرام روحانی پیشوائوں کی جھولی میں نہیں ہے ۔ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنے میں لگا ہے ۔ہر انسانی آبادی میں مندرو مسجد کی خاطر خواہ تعداد ہونے کے باوجود اس طرح کی شاید ہی کہیں کوئی تربیت گاہ ہو۔
بچوں میں یہ بگاڑ اگرچہ ہر قوم میں ہے ۔لیکن مسلم امت میں یہ اپنی آبادی سے کہیں زیادہ ہے ۔نچلے اور متوسط طبقے کی ہر گلی اورمحلے میں لاتعداد بچے سڑکوں پرٹہلتے نظر آئیں گے ۔وہ بچے جو ابھی صرف دو تین سال کے ہیں وہ بھی گلیوں میں گھومتے مل جائیں گے ۔والدین کو یہ فکر ہی نہیں کہ ان کا بچہ کہاں ہے ۔باپ صبح کام پر جاتا ہے اور ماں ٹی وی یا موبائل میں مست رہتی ہے ۔کسی کو ٹوکیے تو جواب ملتا ہے یہ سنتا ہی نہیں ۔مسلم معاشرے میں چار پانچ سال کے بچے بھی والدین کا کہنا نہیں مانتے ؟اگر آپ اس کا مشاہدہ کرنا چاہیں تو اپنے شہر کے ان محلوں کا رخ کریں جہاں غریب اور متوسط مسلمان رہتے ہیں ۔بے روزگارنوجوانوں کی خاطر خواہ تعداد بیڑی کا دھوں اڑاتی ،منہ میں پان یا گٹکا دبائے ہر گلی کے نکڑ پر بیٹھے ہوئے مل جائے گی ۔ 
بچوں کی تربیت میں سب سے بڑا رول والدین کا ہے ۔لیکن جب کسی قوم کی اکثریت جاہل اور ناخواندہ ہو،شعور کی دولت سے کنگال ہو ،اور ان کو آگاہ کرنے ،انھیں اس قابل بنانے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کرسکیں، کوئی نظام نہ ہو ،واعظین بڑوں کو مخاطب کرتے وقت بھی اس موضوع کو زیر بحث نہ لاتے ہوں ،وہ دین کی بات کے نام پر بزرگوں کے مافوق الفطرت واقعات سنانے پر اکتفا کرتے ہوں ،تو آپ ماتم کرنے اور سر پیٹنے کے سوا کیا کرسکتے ہیں؟
بچوں کو اچھا بنانے کے لیے والدین اور گھر کے بڑوں کو اچھا بننا پڑتا ہے ۔گھر کے بڑے ایک لفظ نہ پڑھیں اور بچہ گھنٹوں پڑھے ،آپ ایک وقت کی نماز نہ پڑھیں ،بچے سے پانچ وقت کے ساتھ تہجد اور اشراق کا مطالبہ ہو ،یہ کیسے ممکن ہے ؟آپ صبح و شام مغلظات سے زبان آلودہ فرمائیں اور بچہ کے اندر ملکوتی صفات چاہیں یہ کیوں کر ممکن ہے ؟کیا ایک انسان ہونے کے ناطے آپ کی ذمہ داری نہیں کہ بچے کو انسان بنائیں،اس کے اندر انسانیت سے محبت کے جذبات پیدا کریں ۔اس کے سامنے انسانیت کا مظاہرہ کریں ۔کیا ایک مسلمان ہونے کے ناطے آپ پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ اپنے بچے کو مسلمان بنائیں ۔ایک ایسا مسلمان جو مولویوں کے دین کے بجائے نبیوں کے دین پر عمل پیرا ہو،جس کی نماز اسے بے حیائی اور برائیوں سے روکتی ہو ،جس کا روزہ اس کو غربت کے ازالہ کے لیے مہمیز کرتا ہو۔جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں،اور وہ دوسروں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ایک بھارتی شہری ہونے کا کیا یہ تقاضا نہیں کہ ہمارا بچہ ملک کی عظیم خدمات انجام دے ؟
میرے رفیقو! بچہ آپ کا ہے ۔یہ دنیا میں آپ کو وارث ہے ۔آپ کو اس کی دنیا بھی اچھی بنانی ہے اور آخرت بھی ۔دنیا اچھی بنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس بہترین مکان ہو ،گاڑیاں ہوں اور خوب ساری دولت ہو(اگرچہ یہ سب بھی خدا کی نعمتیں ہیں اگر درست طریقے پر فراہم کی گئی ہوں )بلکہ دنیا اس کی اچھی ہے جسے اچھے لوگ اچھا کہیں ،بھلائیوں میں جس کی مثال دی جائے ۔آ پ کواسے جہنم کی آگ سے بھی بچانا ہے ۔یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے ۔آپ اپنے جس بچے کی خاطر اپنے جسم پر ظلم کرتے ہیں ،خود کی پرواہ نہیں کرتے ،اسی بچے کی خاطر آپ کو اچھا بھی بننا چاہئے ۔

Comments are closed.