مہاراشٹر میں ریزرویشن کی آگ کس کس کی لنکا جلائے گی؟

ڈاکٹر سلیم خان
مہاراشٹر میں جس آگ کو وزیر اعلیٰ نے 15 ستمبر2023 کو بجھا دیا تھا وہ پھر ایک بار بھڑک گئی ہے۔ اس بار وہ بہتوں کے محل خاکستر کرے گی۔ ڈیڑھ ماہ قبل 16؍ دنوں تک مراٹھا ریزرویشن کیلئے بھوک ہڑتال کرنے والے منوج جرنگے پاٹل کو پھلوں کا رس پلا کر ٹھوس فیصلہ کرنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت طلب کرکے احتجاج ختم کرنے پرراضی کیا گیا تھا مگروہ وفا نہیں ہوا۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ کے ساتھ گریش مہاجن، رادھا کرشن وکھے پاٹل، راجیش ٹوپے، سندیپ بھومرے اور ارجن کھوتکر وغیرہ تو موجود تھےمگر اجیت پوار اور دیویندر فرنویس غیر موجودگی حیرت انگیز تھی۔اس کا سراغ وزیر اعلیٰ کے مذکورہ ناٹک سے قبل منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں ملتا ہے۔ ۔ وزیر اعلیٰ شندے نے سہیادری نامی سرکاری گیسٹ ہاوس میں میڈیا کو مخاطب کرنے سے پہلے اجیت پوار اور دیویندر فردنویس سے کہاتتھا ’ہمیں کیا صرف بول کر نکل لینا ہے‘۔ فردنویس نے اس کی سر ہلاکر تائید کی تھی اور اجیت پوار نے تو ’یس‘ بھی کہاتھا۔ آگے چل کرشندے کو اجیت پوار ہوشیار کرتے ہیں کہ یہ سب کو سنائی دے رہا ہے۔
ابن الوقت اربابِ اقتدار سے کوئی توقع کرنا یوں تو فضول ہوتا ہے لیکن پھر بھی انہیں موقع دینا تحریکات کی مجبوری ہوتی ہے۔ اس وقت چونکہ مظاہرین کے خلاف سارے مقدمات واپس لینے کا وعدہ کرکے زیادتی کرنے والے پولیس افسر کو معطل کردیا گیا اور وزیر اعلیٰ اپنے وزراء کے ساتھ جرنگے پاٹل سے ملنے بھی گئے۔ خوب تعریف و توصیف کرکے وعدہ کیا تو اس پر یقین کرلیا گیا ورنہ موجودہ مرکزی حکومت اور کے تحت چلنے والی ڈبل انجن سرکار کا یہ شعار ہے کہ وعدے کرو اور بھول جاو۔ ان جملے بازوں نے کسان تحریک کے دباو میں متنازع قانون تو واپس لیا مگر اس کے ساتھ جتنے بھی وعدے کیے تھے ان میں سے کسی پر عمل درآمد نہیں کیا ۔ مہاراشٹر میں مراٹھا ریزرویشن کے حوالے پھوٹنے والے موجودہ تشدد کے پیچھے یہی وعدہ خلافی کارفرما ہے۔ پیر کے دن مظاہرین بیڑ کے اندر دو ارکان اسمبلی کے گھروں کو آگ لگا نے کے بعد شرد پوار دھڑے کے این سی پی دفتر کو بھی نذر آتش کرچکے ہیں ۔
بیڑ کے ماجلگاؤں سے ایم ایل اے پرکاش سولنکی کی جرنگے کےخلاف ایک آڈیو میڈیا میں آئی اس کے بعد مشتعل ہجوم نے ان کے گھر اور دفتر پر پتھراؤ کیا نیز درجنوں بائک اور کاروں کو پھونک دیا۔اس کے علاوہ بیڑ ہی میں این سی پی کے ایک اور رکن اسمبلی سندیپ کشر ساگر کا گھر بھی جلا دیا گیا۔ ماجلگاؤں میں مظاہرین نے میونسپل کونسل کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرکے اسے آگ لگا دی۔ جالنہ کے بدناپور میں خاتون تحصیلدار کو باہرنکال کر ان کے دفتر نیز لینڈ ریکارڈ، نگر پنچایت اور پنچایت سمیتی کے دفاتر کو تالے لگا دیئے گئے۔اس تشدد کے لیے سرکار کی بے حسی بھی ذمہ دار ہے کیونکہ پچھلے 11 دنوں میں ریزرویشن کا مطالبہ کرنے والے 13 لوگوں نے خودکشی کرلی مگر حکومت کی کان پر جوں رینگی تو بالآخر یہ آتش فشاں پھٹ پڑا۔ ا س دوران تحریک کے قائد جرنگے پاٹل نے مراٹھا سماج سے اپیل کی کہ آتشزنی میں ملوث نہ ہوں۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کوئی اور اس تحریک کا فائدہ اٹھا کر اسے آگ لگا رہا ہے۔موجودہ حکومت تحریکات کو کچلنے کے لیے سخت کارروائی کرنے سے قبل ایسے ہتھکنڈے ا ستعمال کرتی ہے اس لیے یہ الزام درست ہوسکتا ہے۔
پچھلی بار شندے حکومت نے صرف ایک ماہ کا وقت مانگا جبکہ جرنگے پاٹل نے ریاستی حکومت کو ریزرویشن کا اعلان کرنےکیلئے مزید دس دن کا وقت دیا تھا۔ بھوک ہڑتال ختم کرنے کے بعدپرامید منوج جرنگے پاٹل نے کہا تھا ’’ آج وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے یہاں آئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ صرف ایکناتھ شندے ہی مراٹھا سماج کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ حکومت 31؍ ویں دن پورے مراٹھا سماج کو کنبی ذات سرٹیفکیٹ دینے کا فیصلہ کرے گی۔ مراٹھا برادری کو انتہائی قدم اٹھانے سے منع کرنے کے بعد جرنگے نے کہا تھا میں مراٹھا سماج کو کبھی دھوکہ نہیں دوں گا۔‘‘ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کا کہناتھا کہ ’’ میں پروٹوکول کی پروا نہ کیے بغیر آیا ہوں۔ ‘‘ اپنی بھوک ہڑتا ل ختم کرنے کے بعد منوج خاموش نہیں بیٹھےبلکہ ریاست کے مختلف حصوں کا دورہ کرکے مراٹھا سماج کو ریزرویشن کے مسئلہ سے آگاہ کیا۔ اپنے ریاست گیر دورے کے دوران 15 ؍ اکتوبر کو منوج جرنگے پاٹل نےحکومت کو الٹی میٹم دیاتھا کہ سرکار کے ذریعہ مانگی جانے والی مہلتِ عمل ختم ہوچکی ہے۔آئندہ دس دنوں کے اندر اگر ریزرویشن کا اعلان نہ کیا گیا تو بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جائے گااور جو ہوگا اس کی ذمہ داری مراٹھا سماج کی نہیں بلکہ حکومت پر ہوگی ۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ فی الحال جو کچھ ہورہا اس کے لیے سرکار کو آگاہ کردیا گیا تھا۔
حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اس وارننگ کو سنجیدگی سے لیتی لیکن غیر سنجیدہ لوگوں سے ایسی توقع کرنا بے سود ہے۔جرنگے پاٹل نے مراٹھوں کومتحد ہوکر پُر امن احتجاج کرنے کی تلقین کی تھی۔ انہوں نے جذبات میں آکر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’ میں نے آپ کو زبان دی تھی کہ میں مرتے دم تک اپنے موقف سے نہیں ہٹوں گا یا تو میری ارتھی نکلے گی یا مراٹھا سماج کی جیت کا جلوس‘‘۔اپنے مستقبل کےمنصوبوں سے متعلق انہوں نے واضح طور پر آگاہ کردیا تھا کہ 22؍ اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس ہوگی اور 23؍ اکتوبر احتجاج شروع ہو جائے گا۔ اس کے باوجود اگر ٹرپل انجن سرکار کمبھ کرن کی نیند سوتی رہے تو اس کا کیا کیا جائے؟ منوج جرنگے پاٹل نے اس وقت اپنے خطاب میں دیویندر فردنویس، چھگن بھجبل اور وکیل گنا رتن سداورتے کو جم کر نشانہ بنایا۔ وہ بولےتھے کہ’’ وزیر اعظم نریندر مودی نائب وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس کو سمجھائیں کہ وہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مراٹھا سماج کیلئے ریزرویشن جاری کریں۔‘‘ دیویندر فردنویس کی نمک حرامی یاد دلاتے ہوئے انہوں نےکہا تھامراٹھا سماج نے آپ کو 105؍ سیٹیں دیں لیکن آپ مراٹھا ریزرویشن کے خلاف عدالت میں چلےگئے۔وکیل گنارتن سداورتے کے ذریعہ گرفتار کرنےکے مطالبہ پراسے دیویندر فرنویس کا کارندہ بتاکر جرنگے نے سدا ورتے پر مراٹھا سماج کو بربادکرنے کاالزام لگایا۔ وہ مراٹھا ریزرویشن کے خلاف عدالت جا چکا ہےجبکہ مراٹھا سماج کبھی تشدد نہیں کرتا۔ چھگن بھجبل نے جلسہ کرنے کیلئے درکار 7؍ کروڑ وپئے پر استفسارکیا توانہوں نے کہا تھا ’’ آپ کو کروڑوں کی باتیں معلوم ہیں اسی لئے آپ جیل جا کر آئے ہیں‘‘
جرنگے نےاپنے وعدے کے مطابق24؍ اکتوبرکو آخری بار مراٹھا سماج کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کرنےکےبعد25؍ اکتوبر سے بھوک ہڑتال دوبارہ شروع کردی۔ اپنی بھوک ہڑتال کےساتھ مختلف گاؤں میں سلسلہ وار بھوک ہڑتال شروع کروانے کے بعد خبردار کیا کہ جب تک مراٹھا سماج کیلئے ریزرویشن کا اعلان نہیں کیا جاتا، کسی بھی سیاسی لیڈرکو ان کے گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔جرنگے پاٹل نے تو مراٹھا برادری کے نوجوانوں سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ جلد بازی میں خودکشی جیسا فیصلہ نہ لیں اور پرامن تحریک کوتشدد سے دور رکھیں ۔ اس کے باوجود گیارہ دنوں میں تیرہ نوجوانوں نے خودکشی بھی کی اور تشدد بھی پھوٹ پڑا۔ بھوک ہڑتال کے آغاز پرمنوج جرنگے پاٹل نے مراٹھا سما ج کو ریزرویشن دلا کر ہی دم لینے کا عزم کرکے سوال کیا کہ ’’ دیکھتے ہیں کہ حکومت ہمیں اور کتنے دن ٹا لتی ہے ؟‘‘ اس موقع پرانہوں نے سرکاری دھوکہ دھڑی کاانکشاف کرتے ہوئے کہا کہ مراٹھا سماج کے مظاہرین پر درج پو لیس معاملے دو چار دن میں ختم کئے جانے کا وعدہ اکتالیس دن بعد بھی پورا نہیں ہوایعنی حکومت مراٹھا سماج کو جان بوجھ کر گمراہ کررہی ہے۔
مراٹھا احتجاج کی ابتدا کے دوسرے دن احمد نگر میں شیرڈی سے قریب کڑی میں وزیر اعظم نریندر مودی کا پروگرام تھا۔ اس کے بائیکاٹ کااعلان کیا گیا اور وہاں جانے والی بسوں کو روکا بھی گیا۔ شیوگائوں تعلقے میں واقع منگرول گائوں کے قریب سے بسوں کو روک کر واپس کردیا گیا اور منع کرنے پر بس کے شیشے توڑ دیئے گئے۔ اس کے بعد عثمان آباد کےکل 109؍ گائوں میں مراٹھا لیڈروں کے داخلے پر پابندی کے بورڈلگائے گئے ہیں جبکہ لاتو اور ناندیڑ میں سبھی سیاسی جماعتوں کےبڑے لیڈروں کو عوام کی مخالفت کا براہ راست سامنا کرنا پڑا ۔ گاوں میں داخل ہونے سے روک کر سابق وزرائے اعلیٰ تک کو سیاہ جھنڈے دکھائے گئے۔ بارامتی کے ماڈھا گاوں کے بعدمالیگاوں میں بھی اجیت پوار کو عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ ا ۔ یہ احتجاج دیکھتے دیکھتے واشم ، اورنگ آباد، جالنہ اوردیگر مقامات پر پھیل گیا۔ این سی پی بنیادی طور پر مراٹھوں کی سیاسی جماعت ہے۔ اسی کے خلاف یہ غم وغصہ ایک بڑے سیاسی طوفان کا پیش خیمہ ہے مگر مراٹھا ریزرویشن تحریک کےحق میں شیوسینا آگے آئی اور اس کے رکن پارلیمان ہیمنت پاٹل اور رکن اسمبلی ہیمنت گوڈسے نے اپنا استعفیٰ دے دیا ۔ یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی اگر 29؍ اگست سے17؍دن کی بھوک ہڑتال کرنے والے جرنگے پاٹل کے ساتھ دھوکہ نہیں کیا جاتا۔ اس بار مراٹھا سماج کا غصہ موجودہ ٹرپل انجن سرکار کے ساتھ خود اپنے سماج کے رہنماوں پر بھی ہے جنھوں نے ان کے بل بوتے پر اقتدار سنبھالا اور خوب عیش و عشرت کی مگر سماج کے غریب طبقات کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ معاملہ اب سماجی و سطح پر بہت پیچیدہ ہوگیا اور مراٹھا سماج چونکہ کافی طاقتور ہے اس لیے مہاراشٹر سیاست کیا کایا پلٹ کر رکھ دے گا۔ مراٹھا سماج سے بے اعتنائی موجودہ حکومت کو لے ڈوبےگی۔
Comments are closed.