قتل گاہ سے آخری پیغام

حامدمیر
ہم فلسطین کے یتیم اور بے سہارا بچے ہیں۔ نہیں معلوم ہم مزید کتنے دن زندہ رہیں گے۔ ہمارے گھر اسرائیلی بمباری میں تباہ ہوگئے، ہمارے والدین بمباری میں شہید ہو گئے، ہم وہ بچے ہیں جو اس بمباری میں زخمی ہو کر غزہ کے ہسپتالوں میں پہنچے اور پھر ہم ان ہسپتالوں میں بھی بمباری کا نشانہ بنے۔ کچھ ہسپتالوں میں مارے گئے کچھ ہسپتالوں کے ملبے سے زندہ نکال لئے گئے۔ ہو سکتا ہے اگلی بمباری میں ہم بھی مارے جائیں اور ہمیں بھی ہزاروں فلسطینیوں کی طرح اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا جائے۔

اجتماعی قبروں میں دفن ہونے سے قبل ہم دنیا بھر کے بچوں تک اپنا ایک پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم یہ پیغام بچوں تک اسلئے پہنچانا چاہتے ہیں کہ ہم دنیا بھر کے بچوں کو اپنی طرح بے گناہ سمجھتے ہیں۔ ہمارا قصور صرف یہ تھا کہ ہم سمندر کے کنارے پر غزہ کی پٹی میں فلسطینی والدین کے گھر پیدا ہوئے۔ سکول میں ہم نے سنا تھا کہ غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے لیکن سات اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ دنیا کی سب سے بڑی قتل گاہ بن چکی ہے۔

ہم نہیں جانتے ہیں کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں کتنے بچے مارے گئے تھے لیکن ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائیلی بمباری سے ہزاروں بچوں کو مرتے دیکھا ہے۔ مرنے والے فلسطینی بچوں میں سے اکثر ایسے تھے جنہوں نے ابھی بولنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ آپ نے اپنی ٹی وی اسکرینوں پر ہمارا قتل عام تو دیکھا ہوگا۔

ہمیں پتہ ہے کہ ہماری خون آلود لاشیں اور چیخ وپکار دیکھ کر آپ کو بہت تکلیف ہوئی ہوگی لیکن ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کا تعلق کسی بھی ملک، قوم یا نسل سے ہو آپ اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھیں۔ ہمارے اور آپ کے بڑوں نے اس دنیا کو انتہائی غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ آج ہم مارے جا رہے ہیں کل کو آپ کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو ہمارے ساتھ ہوا ہے۔

پیارے بچو! 28 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ میں سیز فائر کیلئے اکثریت رائے سے ایک قرارداد منظور کی۔ یہ قرارداد غزہ پر اسرائیلی بمباری شروع ہونے کے تین ہفتے بعد پیش کی گئی۔ سپرپاور امریکا اور اسرائیل نے اردن کی طرف سے پیش کی جانیوالی اس قرارداد کی مخالفت کی لیکن اس کے باوجود قرارداد منظور ہوگئی۔ یہ قرارداد منظور ہونے کے باوجود اسرائیل نے سیز فائر نہیں کیا اور ہمارا قتل عام جاری رہا۔ سات اکتوبر سے 28 اکتوبر کے درمیان تین ہفتوں میں ہم نے وہ کچھ سیکھ لیا ہے جو آپ اگلے تیس سال تک کسی درس گاہ میں نہ سیکھ پائیں گے۔

ان تین ہفتوں میں بہت سے مذہبی رہنمائوں، یونیورسٹی کے پروفیسروں، ڈاکٹروں اور نرسوں کے ساتھ ہم نے کھلے آسمان تلے راتیں گزاری ہیں۔ ان تاریک راتوں میں اسرائیلی بمباری کی گھن گرج نے ہمیں یہ سکھایا کہ تشدد سے مزید تشدد جنم لیتا ہے۔ ہمیں الاھلی عرب ہسپتال کا وہ مسیحی پادری آج بھی یاد ہے جو اپنے چرچ سے ہمارے لئے پانی کی بوتلیں لایا۔ اس نے ہمیں فلسطین کی تاریخ بتائی۔ اس نے بتایا کہ فلسطین ارض انبیاء ہے۔ مسلمان، مسیحی اور یہودی اہل کتاب ہیں لیکن یہ اپنی اپنی کتاب سے ہدایت کی بجائے کتاب کے نام پر ایک دوسرے سے لڑے جا رہے ہیں۔

ہمیں وہ مسلمان عالم دین بھی یاد ہے جو تمام دن اسرائیلی بمباری میں شہید ہونیوالے فلسطینیوں کے جنازے پڑھا پڑھا کر تھک چکا تھا۔ اسے فرصت ملی تو اپنی زخمی پوتی کو لے کر ہمارے پاس آ بیٹھا اور مسیحی پادری کی گفتگو سننے لگا۔ پھر مسیحی پادری اور مسلمان عالم نے آپس میں گفتگو شروع کر دی۔ دونوں ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ سرزمین فلسطین پر یہ پہلا قتل عام نہیں ہے۔

مسلمانوں اور صہیونی یہودیوں میں اختلاف کی وجہ ہیکل سلیمانی ہے۔ یہودی اسے اپنا مقدس مقام سمجھتے ہیں اور مسلمان اسے اپنا مقدس مقام سمجھتے ہیں۔ یہودیوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں نے ان کے مقدس مقام پر مسجد تعمیر کی لیکن مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ یہاں مسجد پہلے سے موجودتھی جیسے کہ خانہ کعبہ بھی ظہور اسلام سے پہلے موجود تھا۔ مسجد اقصیٰ کی معروف نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ ان کا محل یہاں موجود تھا جو ہیکل کہلاتا تھا۔ بعض روایات کے مطابق اس محل کے اندر انکی عبادت گاہ بھی موجود تھی۔

نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سفر معراج کے دوران مسجد الحرام سے اسی مسجد اقصیٰ پہنچے اور تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد سات آسمانوں کے سفر پرروانہ ہوئے۔ قرآن مجید کی سورۃ الاسرائیل گواہی دیتی ہے کہ یروشلم پر مسلمانوں کے قبضے سے پہلے یہ مسجد وہاں موجود تھی۔ ایک حدیث کے مطابق نبی کریمؐ نے فرمایا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد، مسجد الحرام (بیت اللّٰہ) ہے اور دوسری مسجد اقصیٰ ہے جو پہلی مسجد بننے کے چالیس سال بعد وجود میں آئی۔

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ پہلے پہل مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم آیا۔ مسلمانوں نے حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں بیت المقدس کو فتح کیا تو یہاں پر ایک باقاعدہ مسجد تعمیر کی گئی۔ صلیبی جنگوں میں عیسائیوں نے اس پر قبضہ کرلیا لیکن صلاح الدین ایوبی نے اسے واپس لیا۔

1914ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ برطانیہ نے کچھ عرب حکمرانوں سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ترکی کے خلاف ان کی مدد کرینگے تو مشرقی وسطیٰ خلافت عثمانیہ ختم کرکے عربوں کے حوالے کردیا جائیگا۔ دوسری طرف برطانیہ نے یہودیوں سے کہا کہ اگر وہ جنگ میں برطانیہ کی مالی امداد کریں گے تو انہیں فلسطین کی جگہ اسرائیل بنا کر دیا جائے گا۔

1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے یہ اعلان کرد یا کہ یہودیوں کو فلسطین میں وطن دیا جائے گا لیکن عرب شیوخ کو سمجھ نہ آئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری شروع کی اور 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ سے قرار داد منظور کرا دی جس کے تحت فلسطین اور اسرائیل کے نام سے دو ریاستیں قائم ہونا تھیں۔ جبکہ بیت المقدس کو بین الاقوامی نگرانی میں دینا تھا کیونکہ یہ تین بڑے مذاہب کے ماننے والوں کیلئے مقدس جگہ تھی۔

اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کی۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کو پہلی دفعہ نیست و نابود کرنے کی کوشش نہیں ہو رہی۔ یہ کوشش پہلے بھی کی گئی لیکن کامیاب نہ ہوئی۔ 1969ء میں ایک یہودی کی طرف سے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کے ردعمل میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی تشکیل دی گئی جس نے 2023ء میں غزہ کے قتل عام میں صرف مذمتی قراردادیں منظور کیں۔

ہم فلسطینی بچے اسرائیل کی حالیہ بمباری میں مارے جانے سے قبل دنیا بھر کے بچوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارےلئے نہیں بلکہ اپنے مستقبل کیلئے دنیا میں امن کے لیے آواز اٹھاؤ ورنہ تمہارے ساتھ وہی ہوگا جو ہمارے ساتھ ہوا۔ آخر میں ہم او آئی سی کے بڑوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ ہم تو مر کر بھی زندہ رہیں گے لیکن افسوس کہ تم اپنے آپ کو زندہ سمجھتے ہو، تم تو مر چکے ہو۔(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.