Baseerat Online News Portal

غزہ میں نظامِ صحت تباہی کے دہانے پر، عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے خبردار کر دیا

بصیرت نیوزڈیسک
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ تیدروس ادہانوم نے خبردار کرتے کہا ہے کہ غزہ میں صحت کا نظام ’تباہی کے دہانے‘ پر ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ تیدروس ادہانوم نے کہا کہ غزہ کے 36 ہسپتالوں میں نصف ہسپتال غیرفعال ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے غزہ کی زمینی صورتحال کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہسپتال زخمیوں، علیل اور مرنے والوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ مردہ خانے بھی بھر گئے ہیں اور اینیستھیزیا کے بغیر آپریشن ہو رہے ہیں۔ ہزاروں لوگ ہسپتالوں میں پناہ لے رہے ہیں۔‘
غزہ شہر کھنڈرات میں تبدیل، مکینوں کا جبری انخلا
جمعے کو غزہ شہر کے مکینوں کے جبری انخلا کے بعد شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اسرائیلی فوجیوں اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی جاری ہے جبکہ شہر میں بنیادی سامان کی شدید کمی ہے۔
غزہ شہر کے رہائشی جواز ھرودا کا کہنا ہے کہ’بمباری اور فائرنگ کی شدت کو دیکھتے ہوئے مجھے امید نہیں تھی کہ میرا کوئی بچہ یا میں بغیر کسی نقصان کے بچ نکلیں گے۔‘
انہوں نے ساحلی شاطی پناہ گزین کیمپ کی جانب منتقلی کو ’المیہ‘ قرار دیا۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کے فوجی شہر کے مرکز تک پہنچ گئے ہیں۔
الجزیرہ کے تجربہ کار نامہ نگار وائل ال دحدوح نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’غزہ کی صورتحال تشویشناک ہے۔ تمام علاقوں میں بمباری ہو رہی ہے اور جھڑپیں جاری ہیں۔‘
پانچ ہفتوں سے جاری رہنے والی اسرائیلی بمباری نے سکولوں کی پناہ گاہوں، ہسپتالوں اور متعدد گھروں کو نشانہ بنایا۔ زمینی حملے سے بچنے کے لیے لوگوں نے جنوب کی طرف میلوں پیدل سفر کیا۔
فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (الاونروا) نے کہا ہے کہ سات اکتوبر سے تقریباً 16 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
شاطی کیمپ کے ایک اور رہائشی منیر الراعی کا کہنا ہے کہ ’اندھا دھند‘ اسرائیلی حملوں کے بعد علاقہ خالی ہو گیا ہے۔
’مکانات لوگوں پر گر گئے۔ جن کے نیچے خواتین اور بچے دب گئے۔ وہاں انسانی باقیات کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔‘
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ گنجان آباد غزہ میں عسکریت پسندوں کو ختم کر رہا ہے۔
حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں 11 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔
خوراک کی قلت
جو لوگ اب تک بمباری سے بچ چکے ہیں انہیں بنیادی اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
محمد الطابانی نے کہا کہ ’غزہ شہر میں کچھ بھی دستیاب نہیں ہے۔ کھانے اور پانی کی قلت ہے۔ ہم دکانوں پر بچوں کے لیے ڈائپرز اور دودھ خریدنے جاتے ہیں، تو وہاں کچھ نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ کھانے کی اشیا دستیاب نہیں۔‘
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے اوچا نے کہا ہے کہ غزہ میں بیکریاں بھی کام نہیں کر رہی ہیں۔
شاطی کیمپ کے ایک اور مکین نے کہا کہ ’ہمارے لیے کھانے کو کچھ نہیں کیا ہم بھوک سے مر جائیں؟‘
اوچا نے کہا ہے کہ ایسی رپورٹس ملی ہیں کہ لوگ زندہ رہنے کے لیے پیاز کھا رہے ہیں۔
جو لوگ اپنا شہر نہیں چھوڑ سکے انہیں اپنے علاقوں میں تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
الشفا ہسپتال کے صحن میں متعدد لاشوں کے پاس کھڑے ایک نوجوان نے نے آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔
روتے ہوئے اس نے کہا کہ ’بہت ہو چکا، ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے۔‘

Comments are closed.