مدھیہ پردیش کے دلدل میں دھنستا ہوا کمل

ڈاکٹر سلیم خان
اے بی پی نیوز-سی ووٹر کے تازہ ترین خصوصی جائزے سے پتہ چلا ہے کہ مدھیہ پردیش اسمبلی انتخاب میں کانگریس کو بی جے پی پر سبقت حاصل ہے۔ اس ریاست کے اندر گزشتہ بیس سال میں ڈیڑھ سال کی کمل ناتھ سرکار کو چھوڑ دیں تو پوری مدت کارمیں بی جے پی بر سرِ اقتداررہی ۔ ان ساڑھے اٹھارہ سالوں میں اوما بھارتی کے ابتدائی دو ڈھائی سالوں کے علاوہ شیوراج سنگھ چوہان کے ہاتھوں میں ریاست کی کمان رہی ہے ۔ ایسے میں ماما جی کا چہرہ دیکھ دیکھ کر عوام کا اوب جانا فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوناگوں وجوہات کی بناء پر ہوا کا رخ شیوراج سنگھ چوہان کے خلاف دکھائی دیتا ہے۔ سروے یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ فی الحال عوام کے اندر حکومت کے خلاف کوئی خاص غم وغصہ نہیں ہے اس کے باوجود رائے دہندگان میں بی جے پی کے تئیں مایوسی کی وجہ سے کانگریس کو فائدہ ہورہا ہے۔
اے بی پی کے حالیہ سروے نے انکشاف کیا ہے کہ اس بار کانگریس 130 نشستوں پر کامیابی درج کروا سکتی ہے ساتھ ہی کانگریس کے ووٹ شیئر میں بھی اضافہ کا اندازہ ظاہر کیا گیا ہے۔جائزے کے مطابق کانگریس کو اس انتخاب میں 44.3 فیصد ووٹ ملنے کا اندازہ ہے جو 2018 کے اسمبلی انتخاب کی بہ نسبت ساڑھے تین فیصد زیادہ ہے ۔ پچھلی مرتبہ کانگریس کوبی جے پی سے کم یعنی 40.9 فیصد ووٹ ملے تھے اس کے باوجود بی جے پی کےمنتخب شدہ ارکان کی تعداد کم تھی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ کم نشستوں پر بڑے فرق کے ساتھ کامیاب ہوگئی تھی ۔ اب اگر نتائج سروے کے مطابق آجاتے ہیں تو کانگریس 118 سے 130 سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔ اس کا اوسط نکالا جائے تو 124 بنتا ہے جو 2018 کے مقابلے دس زیادہ ہیں ۔ پچھلی بار اسمبلی انتخاب میں کانگریس کو صرف 114 سیٹیں ملی تھیں جو معمولی اکثریت سےدو کم تھی۔ ایم پی میں اسمبلی کے ارکان کی جملہ تعداد چونکہ 230 ہے اس لیے اکثریت کے لیے 116 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اے بی پی کے سروے درست ہوجائیں تو کانگریس بہ آسانی حکومت بنا لے گی۔
کانگریس کے ساتھ ساتھ اس بار بی جے پی کا ووٹ شیئر بھی 2018 کے مقابلے 41 فیصد سے بڑھ کر 42.1 فیصد ہونے کا اندازہ ہے اس لیے بی جے پی کو مدھیہ پردیش اسمبلی انتخاب میں صرف 99 سے 111 سیٹیں ملنے کا اندازہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کا اوسط 105ہی بنتا ہے۔ ویسے 2018 کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پچھلی بار شیوراج سنگھ چوہان انتخاب ہار گئے تھے اور کانگریس کے کمل ناتھ کو وزیر اعلیٰ بننے کا موقع مل گیا تھا کیونکہ بی جے پی کے پاس صرف 109 سیٹیں تھیں۔ کسی بر سرِ اقتدار جماعت کا اکثریت محروم ہوجانا اخلاقی طور پر اسے نااہل قرار دے دیتا ہے اور دوسروں کے ساتھ مل کر حکومت سازی بھی اس کے لیے مناسب نہیں ہوتی مگر اقتدار کی ہوس کا شکار بی جے پی کے لیے ان اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس نے انتخابی شکست کے فوراً بعد بی ایس پی اور دیگر لوگوں سے مل کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جوکامیاب نہیں ہوسکی لیکن پھر بھی چین سے نہیں بیٹھی ۔ 2019 کےقومی انتخاب تک تو اس نے کسی طرح صبر کیا مگر مارچ 2020 میں جیوترادتیہ سندھیا اور ان کے بھگتوں کو خرید کر بغاوت کروادی ۔ اس طرح کانگریس حکومت گر گئی اور شیوراج سنگھ چوہان پھر سے ریاست کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کو وہ جلد بازی میں کی جانے والی ابن الوقتی مہنگی پڑگئی ۔ وہ اگر صبر کرلیتی تو بعید نہیں کہ اس بار کمل ناتھ کو ہرانے میں کامیاب ہوسکتی تھی ۔ جیوتر دیتیہ سندھیا کو تو بی جے پی نے مرکز ی وزیر بناکر مطمئن کردیا مگر ان کے جن ساتھیوں نے بغاوت کی تھی انہیں دل بدلی قانون کے تحت اپنی رکنیت گنوانی پڑی ۔ اس کے بعد جب ان نشستوں پر دوبارہ انتخاب ہوئے تو کئی لوگ ہار گئے لیکن نیا نیا معاملہ تھا تو بی جے پی والوں نے اسے برداشت کرلیا لیکن برسوں سے پارٹی کے لیے زندگی کھپا دینے والے خاکی نیکر دھارک سنگھیوں کے لیے اپنے دشمنِ روسیاہ کو مستقل سر بیٹھا ئے رکھنا ایک مشکل کام تھا اور فی الحال وہی ہورہا ہے۔ اب بی جے پی کے لیے مشکل یہ ہے کہ انہیں ٹکٹ دیا جائے تو ان کے اپنے کارکنان ناراض ہوجاتے اور نہ دیا جائے تو وہ گھر واپسی کی دھمکی دیتے ہیں یعنی پکڑو تو کاٹنے اور چھوڑو تو بھاگنے کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2020 کے بعد جیوترادتیہ سندھیا کی مقبولیت میں زبردست کمی آچکی ہے اوران کے چنبل وگوالیار حلقہ میں کانگریس کے تئیں ووٹرس کا جھکاؤ کم ہونے کے بجائے بڑھا ہے۔ بی جے پی کے پرانے لوگ سندھیا کو کھلے عام ذلیل کررہے ہیں اور ان کی حالت اس دھوبی کے گدھے کی سی ہوگئی جو نہ گھر کا ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا ۔
شیوراج سنگھ چوہان اس وقت سے وزیر اعلیٰ ہیں جب خود نریندر مودی بھی وزیر اعلیٰ ہی تھے ۔ اس کے علاوہ شیوراج سنگھ چوہان کا قریبی تعلق لال کرشن اڈوانی سے بھی رہا ۔ مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار بنانے کے بعد ان میں اور اڈوانی کے درمیان جو رسہ کشی ہوئی تھی۔ اس میں چوہان کا واضح جھکاو اڈوانی کی طرف تھا اور 2014 میں اڈوانی نے گجرات کے گاندھی نگر سے انتخاب لڑنے کے بجائے مدھیہ پردیش سے الیکشن لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا ۔ اڈاونی کی ایک حامی سشما سوراج بھی تھیں ۔ انہوں نے بھی مدھیہ پردیش میں ودیشا سے الیکشن لڑا تھا ۔ اس طرح گویا گجرات کے مقابلے ایم پی اقتدار کا دوسرا قطب بن گیا تھا ۔ لال کرشن اڈوانی کے ذریعہ مودی کے وزیرا عظم بننے کے بعد قدم چھوتے وقت آشیرواد دینے کے بجائے منہ پھیر لینے کا واقعہ بھی مدھیہ پردیش میں ہی پیش آیا تھا ۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کی بہت ساری تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2018 میں شیوراج سنگھ کی شکست کا بی جے پی ہائی کمان کو بہت زیادہ دُکھ نہیں ہوا بلکہ لوگوں نے سوچا چلو ایک کانٹا نکل گیا ۔
2020 میں جب جیوتردتیہ کو توڑ کر امیت شاہ نے سرکار بنوائی تو ساری مسابقت نروتم مشرا اور مہاراجہ( سندھیا) کے بیچ چل رہی تھی ۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ ان دونوں میں سے ایک وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوگا مگر اس صورت میں شیوراج سنگھ چوہان کو مرکز میں وزیر بنانا پڑتا تھا ۔ مودی جی اس مصیبت کو دہلی سے دور رکھنے کی خاطرانہیں وزیر اعلیٰ بنانے میں عافیت سمجھی ۔ بی جے پی ارکان اسمبلی میں شیوراج ماما کے بھانجوں کی بڑی اکثریت نےبھی ہائی کمان کے لیے مسائل پیدا کیے۔ شیوراج سنگھ وزیر اعلیٰ تو بن گئے مگر نروتم مشرا کو وزیر داخلہ بنادیا گیا۔ وہ یوگی ادیتیہ ناتھ کے نقشِ قدم پر اشتعال انگیز بیانات کی مدد سے اپنی مقبولت بڑھانے میں جٹ گئے ۔ جیوتر دیتیہ سندھیا کے مرکز میں ہوابازی کا وزیر بن جانے کے بعد مشرا خاصے پر امید ہوگئے تھے ۔ انہیں توقع تھی کہ موقع پاتے ہی مودی اور شاہ شیوراج کو بلی کا بکرا بناکر ان کے سر پر تاج سجا دیں گے لیکن وہ موقع ہی نہیں آیا ۔
شیوراج سنگھ چوہان ایک معتدل مزاج کے رہنما ہوا کرتے تھے ۔ ان کی مسلم دشمنی پہلے ظاہر نہیں ہوئی تھی لیکن عدم تحفظ کے احساس نے کو انہیں اپنی شبیہ بدلنے پر مجبور کردیا جس سے نقصان خود انہیں اور پارٹی دونوں کو ہوا۔ کھرگون کا فساد اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس فسادکو بھڑکانے کے لیے نروتم مشرا نے دہلی سے بدنام زمانہ کپل مشرا کو بلوایا ۔ رام نومی کا وہ فساد دراصل وزیراعلیٰ اور نروتم مشرا کے اقتدار کی رسہ کشی کا نتیجہ تھا جس کی قیمت مسلمانوں نے چکائی ۔ اس میں نروتم مشرا نے نہ صرف فسادیوں کی حوصلہ افزائی کی بلکہ انہیں تحفظ بھی فراہم کیا ۔ اس سے گھبرا کر اپنی کرسی بچانے کے لیے شیوراج چوہان بھی بے لباس ہوگئے اور پہلی بار بابا کے بعد ماما کا بلڈوزر میدان میں آگیا ۔ کھرگون کے فساد نے ماما جی کی شبیہ کو پوری طرح بگاڑ دیا۔ اس دوران مدھیہ پردیش میں دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ بدسلوکی کے بھی کئی واقعات سامنے آئے۔ پیشاب والا واقعہ تو خود بی جے پی والوں نے ویڈیو بناکر پھیلایا اور اس کے نتیجے میں ماماجی کو خود اپنی پارٹی کے بھانجے کا گھر بلڈوزر سے اجاڑنا پڑا۔ اس سے برہمن سماج بھی ناراض ہوگیا ۔ ڈبل انجن سرکار کا یہ ڈبل ایکشن اس کے اندر موجود ٹینشن کا اشارہ تھا۔ سیاست کے اندر جو ڈرتا ہے وہ بغیر گولی کے مرجاتا ہے۔
Comments are closed.