الیکشن میں سیاسی جماعتوں اور ووٹروں کے لئے ضابطۂ اخلاق

ڈاکٹر مرضیہ عارف بھوپال
جمہوریت کو اکثر عوام کی، عوام کے ذریعہ منتخب اور عوامی مفاد میں کام کرنے والی حکومت قرار دیا جاتا ہے، امریکہ اور دوسرے ممالک کے آئین جو تحریری شکل میں ہیں یا برطانیہ کا آئین جو روایات پر مبنی ہے دونوں ہی عوام کی حکومت کا خاکہ پیش کرتے ہیں، برطانیہ میں اقتدار کا مرکز پہلے شہنشاہ تھا پھر امراء ہوئے اور اب عوام کا منتخب کیا ہوا ’’ہاؤس آف کامنس‘‘ ہے، ہندوستان جو ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو آزاد ہوا یہاں کے آئین سازوں نے ملک کو ایک نیا آئین دینے کا کام جلد پورا کرلیا، آئین ساز اسمبلی نے ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۹ء کو آزاد ہندوستان کے جمہوری آئین کو منظوری دی اور ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کو اس کا نفاذ عمل میں آیا اور اس کے تحت پہلا عام انتخاب ۱۹۵۲ء میں ہوا، جب سے آج تک الیکشن ہورہے ہیں۔
اِن دنوں ملک کی پانچ اسمبلیوں کے لئے الیکشن کی تیاری ہے،جیسے جیسے ووٹ ڈالنے کی تاریخ نزدیک آئے گی ، سیاسی جماعتوں اور آزاد اُمیدواروں کی سرگرمیاں بھی بڑھتی جائیں گی۔ ہرگلی، محلہ اور بستی میں اُمیدواروں کی حمایت کے لئے جلسے جلوس منعقد ہوں گے یا عام لوگوں کے دروازوں پر دستک دے کر اُن سے براہِ راست رابطہ قائم کیا جائے گاتاکہ وہ اپنے نمائندوں کے انتخاب میں سستی سے کام نہ لیں اور پولنگ کے دوران زیادہ سے زیادہ تعداد میں رائے دِہی کے مراکز پہنچ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔
لیکن پچھلے الیکشنوں کے تجربہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیاسی پارٹیوں اور اُن کے نمائندوں کی سرگرم انتخابی مہم اور انتظامیہ کی طرف سے نشرواشاعت کے تمام وسیلے استعمال کرکے ترغیبی مہم چلانے کے باوجود ووٹروں کی ایک بڑی تعداد اپنے ووٹ کے استعمال سے محروم رہ جاتی ہے، حالانکہ الیکشن میں اپنے ووٹ کا استعمال ہر جمہوری حکومت کے شہری کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہر وہ شہری جو ۱۸ سال کی عمر پارکرچکا ہو ملک کے آئین کے مطابق ووٹ ڈالنے کا حقدار ہے، یہ سمجھ کر کہ میرے ایک ووٹ نہ ڈالنے سے کیا ہوگا۔ ووٹ نہ ڈالنا سنگین غلطی ہے، اِسی طرح ووٹنگ میں حصہ نہ لینے والے ووٹروں کی بڑی تعداد کا ہونا تشویشناک ہے۔ ہرووٹر کا یہ فرض ہے کہ بلاکسی تحفظِ ذہنی یا ڈر اور خوف کے وہ اپنے ووٹ کا استعمال کرے۔
ہمارے ملک کے جمہوری نظام کے تحت پنچایتوں سے لوک سبھا تک تمام انتخابات کے لئے مقرر ضابطۂ اخلاق پر عمل کرنا ضروری ہے، اِس سات نکاتی ضابطہ کو عالمی معیار کا ایک مثالی منشور قرار دیا جاسکتا ہے جس کی رُو سے مختلف ذاتوں، فرقوں اور لسانی یا مذہبی گروپوں کے درمیان نفرت پیدا کرنا یا کشیدگی پھیلانے والی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینا ممنوع ہے، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی پالیسیوں اور پروگراموں پر تو نکتہ چینی کرسکتی ہیں لیکن کسی فرد کی نجی زندگی پر کیچڑ نہیں اُچھال سکتیں، اِسی طرح فرقہ وارانہ بنیاد پر ووٹ طلب کرنے کی ممانعت ہے اور مسجدوں، گرجاگھروں یا مندروں کو انتخابی پروپگنڈہ کے لئے استعمال کرنا سخت جرم ہے، تمام پارٹیوں اور اُن کے اُمیدواروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی طرح کی بدعنوانی میں ملوث نہ ہوں اور انتخابی قوانین کی خلاف ورزی سے بھی باز رہیں، شہریوں کی پُرسکون گھریلو زندگی میں خلل نہ ڈالیں، کسی کی اجازت کے بغیر اُس کی زمین، عمارت یا احاطہ کی دیوار وغیرہ کو انتخابی پروپگنڈہ کے لئے استعمال نہ کریں، ایک دوسرے کے جلسے جلوسوں کی راہ میں حارج نہ ہوں اور انتخابی جلسوں میں ہنگامہ آرائی سے بچیں۔
الیکشن کا اعلان ہوتے ہی الیکشن کمیشن کی طرف سے سبھی سیاسی جماعتوں اور اُمیدواروں کے لئے ایک ضابطۂ اخلاق نافذ کیا جاتا ہے، جسے ’ماڈل کوڈ آف کنڈٹ‘بھی کہتے ہیں۔ اِس پر الیکشن کے دوران تمام سیاسی پارٹیوں اور اُمیدواروں کے لئے عمل کرنا ضروری ہوتا ہے اور اِس کا نفاذ الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہوجاتا ہے، جو الیکشن نتائج ظاہر ہونے تک جاری رہتا ہے۔ جب تک الیکشن کمیشن نئی پارلیمنٹ یا اسمبلی کے قیام کا اعلان نہ کردے ،اِس ضابطہ کا مقصد تمام اُمیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو الیکشن لڑنے کے مساوی مواقع فراہم کرناہے، خاص طور پر مرکز یا ریاست میں برسرِ اقتدار پارٹی اپنے اپنے اختیارات کا غلط استعمال الیکشن میں فائدہ اُٹھانے کے لئے نہ کرے۔ سرکاری مشنری کا الیکشن کے لئے استعمال نہ ہو، انتخابی مہم کو منظم اور باضابطہ رکھا جائے ، امن و امان کو یقینی بنایا جائے ، پارٹیوں کو آپسی ٹکراؤ سے روکا جائے اور انتخابی مہم کو درست اور صحت مند بنایا جائے۔ یہ انتخابی ضابطۂ عمل سبھی سیاسی پارٹیوں ، اُن کے تمام اُمیدواروں اور پولنگ ایجنٹوں پر نافذ ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ انتخابی ضابطۂ اخلاق برسراقتدار حکومت اور اُس کے سرکاری ملازموں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اُس کی خلاف ورزی کرنے والے اُمیدوار یا جماعت کے خلاف الیکشن کمیشن مختلف قوانین کے تحت کاروائی کرسکتا ہے، جس میں فوجداری کاروائی بھی شامل ہے۔ الیکشن کمیشن ضابطے کی خلاف ورزی پر کسی اُمیدوار کو نااہل بھی قرار دے سکتا ہے ۔
یاد رکھئے! جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کی طرح ووٹروں پر بھی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ایک جمہوری آئین کے تحت اور سیکولرزم کی رُو سے حکمرانی کا اختیار صرف عوام کو حاصل ہے، اِس لئے کسی بھی سیاسی جماعت یا اُمیدوار کے حق میں رائے دہی کرنے سے پہلے یہ نظر میں رکھنا ضروری ہے کہ وہ پانچ سال کی مدّت کے لئے آپ کے جمہوری حقوق و آزادی کے نگراں بننے کے لائق ہیں یا نہیں؟
یہ حقیقت آپ کے ذہن نشین رہنا چاہئے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت سے سیکولرزم کا کافی گہرا رشتہ ہے اِس لئے جس جماعت یا اُمیدوار کا نظریاتی طور پر سیکولرزم پر اعتماد نہ ہو، وہ نہ جمہوریت کا حامی ہوسکتا ہے ، نہ مساوات کا، اِس بنیادی حقیقت کو ہی سامنے رکھ کر الیکشن کمیشن نے ہر سیاسی پارٹی کو اپنی تنظیم کے آئین میں سیکولرزم پر مکمل اعتماد کے اظہار کی ہدایت دی ہے، بظاہر اِس پر عمل بھی ہوتا ہے۔ لیکن صرف سیاسی پارٹیوں کے آئین میں تسلیم کرلینے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ اِس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے کیونکہ سیکولرزم باقی رہے گا تو مختلف فرقوں اور مذہبوں کا گہوارہ یہ ملک بھی پھلے گا پھولے گا، یہاں انصاف کا بول بالا ہوگا اور اِسی سیکولرازم کی کوکھ سے جمہوریت اور مساوات جنم لیتے رہیں گے ، اِس لئے ملک کے ووٹر پارٹیوں ، جماعتوں اور اُمیدواروں کے جذباتی نعروں میں ہرگز نہ آئیں بلکہ اُن کو پوری طرح پہچانیں اور پھر ووٹ کے ذریعہ اپنے رائے کا بھرپور طریقہ سے اظہار کریں۔
لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہم ووٹ کسے دیں؟ عرض ہے کہ پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ اپنا ووٹ ایسے اُمیدوار کو دیں جو تعلیم یافتہ ہو، سچ بولنے والا ہو، سادگی پسند ہو، خدمت کا جذبہ رکھتا ہو، لوگوں کے دکھ درد کا ساتھی ہو، کسی قومی پارٹی کا اُمیدوار ہو، موقع پرست یعنی دل بدلو نہ ہو، فرقہ پرستی کی بنیاد پر ووٹ نہ مانگتا ہو، ملک کی سیکولر بنیاد پر اُس کا یقین ہو۔ آزاد ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل راج گوپال آچاریہ نے کہا تھا کہ ’’ ووٹ دیتے وقت پارٹی کو ہی نہیں اُمیدوار کو بھی دیکھیں اور ایسے شخص کو اپنے ووٹ کا مستحق قرار دیں جو بے داغ ہو ، باکردار ہو کیونکہ اچھے لوگوں سے ہی پارٹی بنتی ہے اور ایک اچھی پارٹی ہی اچھی سرکار دے سکتی ہے۔‘‘
ہندوستان کے شہری رائے دہی کو ایک اہم فریضہ سمجھ کر انجام دیں اور ہر قیمت پر اپنے ووٹ کی تقدیس کا لحاظ رکھیں، آپ کا پولنگ اسٹیشن زیادہ دور نہیں وہاں تک جانے کے لئے کسی اُمیدوار کی سواری کا استعمال نہ کریں، ووٹ ڈلوانے والے عملہ سے تعاون کریں، ملک و قوم اور یہاں کے جمہوری نظام کے تئیں یہ آپ کی ذمہ داری ہے اِسے بھرپور طریقہ پر نبھائیں۔
Comments are closed.