Baseerat Online News Portal

حماس ۔اسرائیل جنگ:شمالی غزہ میں الشفا ہسپتال کے قریب لڑائی شدت اختیار کر گئی

بصیرت نیوزڈیسک
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس اور اسرائيل کے مابین گزشتہ ایک ماہ سے بھی زائد عرصے سے جاری لڑائی اب شمالی غزہ میں الشفا ہسپتال کے قریبی علاقوں میں شدت اختیار کر گئی ہے۔ اس صورت حال کے نتیجے میں غزہ کے اس سب سے بڑے ہسپتال میں دوائیوں اور دیگر ضروری اشیاء کی رسد ختم ہو گئی ہے۔ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ حماس نے ہسپتال اور صحت عامہ کی دیگر سہولیات کی عمارتوں میں زیر زمین کمانڈ پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں۔
حماس اور الشفا ہسپتال کا عملہ ان سرنگوں کے وجود سے انکاری ہے۔ الشفاء ہسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ کا حوالہ دیتے ہوئے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے کہا ہے کہ ہفتے کے روز سے ہسپتال میںبجلی کی سہولت مہیا نہیں ہے۔ حماس کے زیر انتظام غزہ کی پٹی میں وزارت صحت کے ترجمان نے بتایا کہ جنریٹر بند ہونے کے بعد ہسپتال میں چھ مریض دم توڑ گئے۔
اسرائیلی فوج نے ہسپتال کے باہر جھڑپوں کی تصدیق کی ہے لیکن فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری نے الشفا کے محاصرے میں ہونے کی تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوجی اتوار کو وہاں زیر علاج بچوں کو منتقل کرنے میں مدد کریں گے۔ فوجی ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا، ”ہم ہسپتال کے عملے سے براہ راست اور باقاعدگی سے بات کر رہے ہیں۔‘‘
ہفتے کے روز برطانوی دارالحکومت لندن میں تین لاکھ سے زائد افراد نے پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کی سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں شہر کے وسطی علاقے میں فلسطینیوں کی حمایت میں میں مارچ کیا۔ پولیس آفیسر میٹ ٹوئسٹ نے کہا کہ اس دوران تقریباً 150 لوگوں پر مشتمل چند چھوٹے گروپوں نے مرکزی ریلی سے الگ ہو کر اپنے چہرے ڈھانپنے کے بعد آتش بازی کی، جس سے بعض پولیس افسران کے چہرے زخمی ہوگئے۔
وزیر اعظم رشی سوناک نے اس احتجاج کے دوران یہودیت مخالف نعرے لگانے، گیت گانے اورحماس کے حامی نشانات اور لباس پہننے والے”حماس کے ہمدردوں‘‘ کی مذمت کی۔ اس سے قبل وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو ”ہیٹ مارچ‘‘ قرار دیا تھا۔ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے تقریب کو روکنے کی وزارتی درخواستوں سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس سنگین تشدد کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔
دریں اثناء امریکہ میں سینکڑوں مظاہرین نے ریاست ڈیلاویئر کے شہر ولیمنگٹن میں واقع صدر جو بائیڈن کے گھر کے قریب مظاہرہ کیا۔ برسلز میں ہفتے کے روز تقریباً 21,000 لوگوں نے فلسطین کی حمایت میں نکالی گئی ایک ریلی میں شرکت کی۔ اسی طرح پیرس میں 16,000 افراد نے فلسطین کی حمایت اور جنگ کی مخالفت میں ریلی نکالی، جس میں بائیں بازو کے قانون سازوں نے بھی شرکت کی۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اعلان کیا ہے کہ برلن حکومت فلسطینی علاقوں کے لیے اپنی انسانی بنیادوں پر امداد میں 38 ملین یوروکا اضافہ کرے گی۔ بیئربوک نے یہ اعلان مشرق وسطیٰ کے اپنے سفارتی دورے کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیہ کے ساتھ بات چیت کے بعد کیا۔ جرمنی اس سال فلسطینی علاقوں کے لیے کل 160 ملین یورو مالیت کی امداد فراہم کرے گا۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا، ”ہر زندگی کی قیمت ایک جیسی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے ہر فرد کو امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ میں وقفے کو ”مزید وسعت دی جانا چاہیے۔” بیئربوک کے ساتھ بات چیت کے بعد اپنے بیان میں محمد اشتیہ نے برلن پر زور دیا کہ وہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی کو ”غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جنگی جرائم پر ایسا موقف اختیار کرنا چاہیے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے مطابق ہو۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”جنگ کے خاتمے کا مطالبہ نہ کرنا، اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی میں مدد دینا، اسے غزہ میں ہمارے لوگوں کے خلاف جارحیت جاری رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘‘
ہفتے ہی کی شام بیئربوک نے تل ابیب میں اپنے اسرائیلی ہم منصب ایلی کوہن سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد جرمن وزیر خارجہ نے کہا، ”بین الاقوامی انسانی قانون شہری ہلاکتوں کو تسلیم کرتا ہے۔ تاہم اس میں واضح رہنما خطوط بھی شامل ہیں، جن میں شہری آبادی کے تحفظ کی ضرورت اور شہری اور فوجی اہداف کے درمیان فرق دونوں شامل ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں کس طرح آگے بڑھتا ہے، اس سے اسرائیل کی طویل المدتی سلامتی بھی متاثر ہوگی۔
ایلی کوہن کا کہنا تھا کہ یورپ اور دیگر خطوں سے حماس کی فنڈنگ ​​کے ذرائع کو روکنا ضروری ہے۔ کوہن نے بیئربوک کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا، ”اسرائیل حماس سے اس وقت تک لڑتا رہے گا جب تک کہ اس سے مزید کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔‘‘ اسرائیلی وزیر خارجہ نے مزید کہا، ”جرمنی سات اکتوبر سے اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور اسرائیل کی سلامتی کے لیے اپنی وابستگی اور اس کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کا اظہار کرتا ہے۔‘‘

Comments are closed.