مہوا موئیترا کی زباں بندی اور خواتین کا ریزرویشن

ڈاکٹر سلیم خان
بی جے پی کےبیشترارکان کی بدتمیزی کے سبب اس کی شبیہ بدمعاش جنتا پارٹی کی بن گئی ہے۔ ان میں جھارکھنڈ کےنشی کانت دوبے پیش پیش ہیں۔ حال میں انہوں نے الٹا چور کوتوال کی مصداق ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئیترا پر اپنی رکنیت سے اضافی فائدہ اٹھانے کا سنگین الزام لگادیا۔ ایوانِ پارلیمان اسپیکر نے اس پر فوراً بی جے پی کے ونود کمار سونکر کی سر براہی میں اخلاقیات کمیٹی تشکیل دے کر تحقیقات کا حکم دے دیا ۔ اس 12 رکنی کمیٹی میں ترنمول کانگریس کے کسی بھی نمائندے کی عدم موجودگی تشویشناک ہے۔نشی کانت دوبے تو تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کے علاوہ موئترا کی پارلیمانی رکنیت کو معطل کرنے کے خواہشمند ہیں ۔ایسے میں یہ بات رہنی چاہیے کہ سوال پوچھنا رکن پارلیمان کا حق اور فرض دونوں ہے۔ اس کے لیے کسی سے رشوت لینے کی ضرورت نہیں ۔ حکومت کی ذمہ داری جواب دینے کی ہے مگر جب اس کی ادائیگی میں سرکار کو دقت ہوتی ہے تو سوال پوچھنے والوں کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ راہل گاندھی ، سنجے سنگھ ، راگھو چڈھا اور اب مہوا موترا اس حکمت عملی کا شکار ہورہے ہیں۔
حزب اقتدار کی جانب سے یہ سازش ان لوگوں کےاشارے پر رچی جاتی ہے جن کے خلاف سوال ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں میں سرِ فہرست اڈانی ہیں کہ جن کے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں کیا جاتا۔ ایک بار لوگ وزیر اعظم نریندر مودی پر تو تنقید برداشت کرلیتے ہیں مگر گوتم اڈانی کے تقدس کا یہ عالم ہے اس بابت ایک لفظ برداشت نہیں کیا جاتا اور ہنگامہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔ تحقیق تو اس پر ہونی چاہیے کہ اس نمک حلالی کا راز کیا ہے؟ کیونکہ اڈانی گروپ کے لیے نشی کانت دوبے جیسے پالتولوگوں کو اپنی گود میں بیٹھا لینا بہت آسان ہے۔ مہوا پر الزام میں نشی کانت نے تو صرف تحائف و رقم کا ذکر کیا مگر ایک وکیل جئے اننت دیہادرئی نے سی بی آئی چیف کو خط لکھ کر دبئی میں بیٹھے درشن ہیرنندانی سے پیسے اور تحائف لے کر اڈانی گروپ کے خلاف بات کرنے کا الزام لگا دیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر درشن ہیرانندانی کا اس سے کیا فائدہ ؟ اڈانی پر ہنڈن برگ یا فائنانشیل ٹائمز کی رپورٹ آتی ہے تو اسے جارج سوروس سے جو ڑ دیا جاتا ہے اور مہوا کو درشن کا ایجنٹ بنا دیا گیا حالانکہ انہیں اس کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔
مہوا موئترا نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ اگر اڈانی گروپ نے مجھے خاموش کرنے یا نیچا دکھانے کے لئے سنگھیوں اور جعلی ڈگری ہولڈرز کے جھوٹے دستاویزات پر یقین کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تو میں کہتی ہوں، اپنا وقت ضائع نہ کریں اور اپنے وکلاء کا استعمال کریں۔مہوا نے سی بی آئی کے ذریعہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کی تفتیش کا خیرمقدم توکیا لیکن اس سے پہلے اڈانی کے چالان اور بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعہ بیرون ملک جانے والے پیسے کی معلومات حاصل کرنے کی بھی گزارش کی ۔ بی جے پی کو پریشانی یہ ہے کہ لوک سبھا میں مہوا کے ذریعہ پوچھے جانے والے 61 سوالات میں سے 50 کا تعلق اڈانی گروپ سے تھا۔ اس کے ساتھ مہوا مترا نے نشی کانت دوبے اور وکیل جئے اننت دیہادرئی کے خلاف نوٹس بھیج کر معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔ اس طرح اڈانی گروپ کی بدعنوانی بھی میڈیا میں گفتگو کا موضوع بن گئی ۔
مہوا موئترا سے قبل سنجے سنگھ نے سرکار سے پوچھا تھا کہ جب ہندوستان میں اتنا زیادہ کوئلہ پیدا ہوتا ہے تو پھر اڈانی کو بیرون ملک سے کوئلہ خریدنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ سرکار نے اس سوال کا جواب نہیں دیا مگر لندن کے ایک معتبر اخبار فائنانشیل ٹائمز کی رپورٹ نے اعدادو شمار کے ساتھ جواب دے دیا اور ایسے ٹھوس شواہد پیش کیے کہ جن کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔ سنجے سنگھ کے مطابق سپریم کورٹ کو گجرات حکومت نے 15 مئی کو خط لکھ کر بتایا کہ اڈانی نے قیمت خرید کے بارے میں کوئی ثبوت، دستاویزات یا بل فراہم نہیں کیے حالانکہ جب اڈانی نے بتایا کہ انڈونیشیا میں کوئلہ مہنگا ہے تو اس وقت وہ سستا تھا۔سنجے سنگھ نےدھوکہ دہی سے لی جانے والی رقم کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور اب وہ اس کی قیمت خود جیل جاکر چکا رہے ہیں ۔ اندھی نگری چوپٹ راج اسی کو کہتے ہیں۔ دو ماہ قبل عآپ کی سینئر رہنما رینا گپتا نے بھی وزیر اعظم پر اڈانی کو پورے ملک میں لوٹ کھسوٹ کی کھلی چھوٹ دینے کا الزام لگایا تھا ۔رینا گپتا نے 2017 کی سی اے جی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اڈانی گجرات کے علاوہ 2017 کے اندرتمل ناڈو میں بھی وہی کیا۔
سرکاری آڈیٹر سی اے جی نے اڈانی کی 297 درآمدات کی جانچ کی، جن میں سے 177 درآمدات میں اس ملک کا سرٹیفکیٹ نہیں لگایا گیا تھا جہاں سے کوئلہ درآمد کیا گیا ہے۔اس لیے ممکن ہے کہ بل یا سرٹیفکیٹ کے بغیر یہ کوئلہ ملک کی دیگر ریاستوں میں کان کنی کرکے تمل ناڈو بھیج دیا گیا اور اس کے عوض درآمد شدہ کوئلے کی قیمت وصول کرلی گئی ہو۔ معروف شاعرہ پروین شاکر سے یہ جملہ منسوب ہے کہ :’ مطلبی رشتے کوئلے کی مانند ہوتے ہیں کہ جب کوئلہ گرم ہوتا ہے تو ہاتھ جلا دیتا ہے اور ٹھنڈا ہو تو ہاتھ کالا کر دیتا ہے‘۔ مودانی ماڈل میں یہی ہورہا ہے کہ پہلے تو کوئلے کی دلالی میں اونچی قیمتِ خرید دکھا کر اڈانی نے ہاتھ کالا کرلیا اور اب محفوظ جنگلات کے اندر وزارت موحولیات کی سفارشات کو بالائے طاق رکھ کر مودی جی نے اپنے ہاتھ جلالیے۔ اتفاق سے یہ دونوں معاملات ایک ساتھ سامنے آئے۔
ہندوستان کے اندر چونکہ میڈیا کو پوری طرح گود لے لیا گیا ہے اور سرکاری تفتیشی اداروں کے پر کتر دئیے گئے ہیں اس لیے ایسی خبریں یوروپ اور امریکہ سے آتی ہے۔ کوئلے کی قیمت میں جعلی اضافہ کی آڑمیں بجلی کی قیمت بڑھا کر عوام کو لوٹا گیا ۔ کیا یہ لوٹ مار مرکزی حکومت کی نظر کرم کے بغیر ممکن ہے ؟ اور اگرنہیں تو اڈانی پر ہاتھ ڈالنے سے ای ڈی کیوں خوفزدہ ہے ؟ اس سے قبل نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کو بنیاد بناکر نیوز کلک پر کارروائی ہوگئی حالانکہ وہ صرف اڑتیس کروڈ کا معاملہ تھا مگر اب فائنانشیل ٹائمز نے ہزاروں کروڈ کی بدعنوانی انکشاف کردیا اس کے باوجود سرکار کمبھ کرن کی نیند سو رہی ہے ۔ پی ایف آئی کے بہانے بے گناہ قیدیوں کی رہائی کے لیے لڑنے والے عبدالواحد کو تو بلاوجہ پریشان کرنے والی تفتیشی ایجنسیوں کو اڈانی کی بدعنوانی نظر نہیں آتی۔ اس لیے کہ وہاں تو ہونٹ بھی اپنے اور دانت بھی اپنے ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کارروائی کے خیال سے شاہ جی دانت گھٹے ہوجاتے ہیں ۔ ایسے میں جب سنجے سنگھ یا مہوا موئیترا جیسے لوگ زبان کھولتے ہیں تو ان پر نشی کانت دوبے جیسوں کو چھوڑ دیا جانا افسوسناک ہے۔ ایوان پارلیمان میں خواتین ریزرویشن کا قانون منظور کرانے کا ڈھونگ کرنے والی سرکار کےذریعہ ایک خاتون رکن پارلیمان کی کردار کشی اس کا اصلی چہرا ظاہر کرتی ہے۔
بی جے پی والوں نے مہوا موئیترا کو پریشان کرنے کی خاطر درشن ہیرانندانی کو سرکاری گواہ بنالیا ہے اور اس کے ذریعہ ایک حلف نامہ داخل کیا ہے۔اس کے اندر وہ ان تمام الزامات کا اعتراف کرتا ہے جو مہوا پر لگائے گئے ہیں۔ اس میں وہ نامرد مہوا موئیترا پر دباو ڈالنے کا الزام لگاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے اس نے خود دباو میں وہ حلف نامہ دیا ہے۔ مہوا کا الزام تو یہ ہے کہ کورے کاغذ پر اس کی دستخط لے کر یہ سب لکھ دیا گیا۔ یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ رشوت لینے کے ساتھ دینا بھی جرم ہے اور وہ اعتراف کرتا ہےکہ وزیر اعظم کو بدنام کرنے کی خاطر اس نے ازخود مہوا سے پاس ورڈ لےکر سوالات کیے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کا یہ جرم معاف کردیا گیا اور مہوا موئیترا کی رکنیت ختم کرکے انہیں جیل بھیجنے کی تیاری چل رہی ہے۔ یہ سازش دراصل ایک فرد یعنی گوتم اڈانی کی بدعنوانی کو چھپانے کے لیے رچی جارہی ہے۔ اس طرح کا معاملہ کسی سرمایہ دار کو بچانے کے لیے نہیں کیا جاتا لیکن چونکہ ایسا ہورہا ہے اس لیے شک پیدا ہوتا ہے کہ اڈانی کو بچانے کی اتنی فکر اس سرکار کیوں ہے؟ اس کی گرفتاری سے کون سے راز افشاء ہونے کا خطرہ ہے جو راہل کو رکنیت سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ سنجے سنگھ کو جیل بھیج دیا جاتا ہے اور مہوا کو پابند سلاسل کرنے کی سازش رچی جاتی ہے۔ حکومتِ وقت کو لاحق یہ اندیشہ ہی دراصل ملک میں رائج مودانی ماڈل کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
Comments are closed.