اردو کی قصیدہ و مرثیہ خوانی کے بجائے اس کے فروغ کے لیے عملی جد جہد کی جائے

ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی ۔بجنور
9897334419
9؍ نومبر کو عالمی یوم اردو کی مختلف تقریبات منعقد ہوئیں ۔کہیں سمینار ہوئے ،کہیں مشاعرے اور ادبی نشستیں ہوئیں ،اردو کے خادموں کواعزازات و ایوارڈز بھی دیے گئے ۔دستر خوان بھی سجائے گئے ۔ان سب کا مقصد یہ تھا کہ اردو کو فروغ حاصل ہو لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس طرح کی تقریبات کے باوجود اردو کا خاطر خواہ فروغ نہیںہورہا ہے ۔میں ان تقریبات کے انعقاد کو درست مانتا ہوں ،ان کو منعقد کرنے والوں کے خلوص پر مجھے کوئی شک نہیں ہے ۔یہ سب اردو کے محسن ہیں ۔لیکن اسی کے ساتھ کچھ عملی اقدامات بھی ضروری ہیں ۔
ہم جانتے ہیں کہ اردو دنیا کی مقبول ترین زبان ہے ۔ہمسایہ ملک کی قومی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ تمام براعظموں میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔آپ کہیں بھی چلے جائیے آپ کو اردو بولنے والے ضرور مل جائیں گے ۔گلف ممالک میں اردو کی تعلیم کے مراکز قائم ہیں ،وہاںبرصغیر کے باشندوں کے ذریعہ جو اسکول چلائے جارہے ہیں ان میں اردو کو ایک مضمون کی شکل میں داخل نصاب کیا گیا ہے ۔دبئی ،کویت ،مسقط سمیت امریکہ و کناڈا اور برطانیہ تک میں اردو کے بین الاقوامی مشاعرے منعقد ہوتے ہیں ۔اس زبان کی ترویج و اشاعت میں جہاں اس کے چاہنے والوں اور بولنے والوں کی کاوشیں شامل ہیں وہیں خود اس کی مقناطیسی صفت کا بڑا دخل ہے ،جو اس کو سنتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے ۔اس کی اسی حلاوت نے آزادی سے پہلے منشی پریم چند، پنڈت رتن ناتھ سرشار،راجندر سنگھ بیدی ،برج نرائن چکبست جیسے ہزاروں افراد کو پیدا کیا،آزادی کے بعد رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی اور گوپی چند نارنگ جیسے شیدائیان نے اردو کو مافی الضمیر کے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔آج بھی ڈاکٹر چرن سنگھ بشر اور ڈاکٹر راجیو ریاض جیسے سینکڑوں غیر مسلم محبان اردو اس کے گرویدہ ہیں ۔
اردو کی پیدائش اور ابتداء کے متعلق مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ،کوئی اس کا زمانہ ٔ پیدائش قبل اسلام عرب تاجروں کے مالابار کے تاجروں کے ساتھ میل جول کو قرار دیتا ہے ۔کوئی فاتحین سندھ سے اس کا رشتہ بتاتا ہے ،کوئی شہاب الدین غوری کے دور اقتدار میں اس کے جنم کی داستان سناتا ہے ۔کسی بھی تحقیق کے بارے حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے ۔البتہ یہ بات طے شدہ ہے کہ اردو ایک عسکری زبان ہے ،یہ لفظ خود ترکی زبان کا ہے ۔اس کے معنی لشکر کے ہیں ۔قرین قیاس یہی ہے کہ مسلمان فاتحین جب اپنی افواج کے ساتھ ہندوستان آئے اور یہاں کے ہر علاقہ میں ان کو نئی زبان سے سابقہ پڑاتو انھوں نے مختلف علاقائی زبانوں کے الفاظ کے ساتھ اپنے لائے ہوئے ،ترکی ،عربی اور فارسی الفاظ شامل کرلیے جس کے نتیجہ میں ایک نئی زبان وجود میں آئی جسے ہم اردو کہتے ہیں ۔اردو کے ارتقائی سفر سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔حضرت امیر خسرو ،سورداس اور تلسی داس کی اردو ،قلی قطب شاہ کی اردو اور حسرت و اقبال ،میر و غالب اور محمد حسین آزاد کی اردو میں زمین و آسمان کا فرق دیکھا جاسکتا ہے ۔
ایک وہ زمانہ تھا جب اردو زبان صاحبان اقتدار کی منظور نظر تھی ۔شعراء و ادباء دربار کے وظیفہ خوار تھے ۔قلعہ معلی میں اردو ئے معلی کی گونج سنائی دیتی تھی ۔شاہ جہانی مسجد دہلی کے میناروں کی مانند شاہ جہانی اردو بھی بلندیاں حاصل کررہی تھی ۔جس طرف نظر ڈالئے اردو کو آویزاں پائیے ۔چاندنی چوک کی بعض پرانی دوکانوں پر آج بھی اس زمانے کے بورڈ دیکھے جاسکتے ہیں ۔پھر ایوان اقتدار اس کے چاہنے والوں سے خالی ہوگیا ۔اور آج وہ لوگ وہاں مسند نشیں ہیں جو اس کو مٹانے کے درپے ہیں ۔ظاہر ہے جب کسی کی پشت پر حکومت اور قوت نافذہ ہوتی ہے تو اسے ترقی کی منازل طے کرنے سے کون روک سکتا ہے اور جب پشت پر خنجر لگانے والے ہوتے ہیں تو اس کو زخمی اور لہو لہان ہونے سے کیسے بچایا جاسکتا ہے ۔
زبان کسی کی ذاتی ملکیت نہیںہوتی ۔زبانوںکا تعلق کسی مذہب سے بھی نہیں ہوتا ۔عربی قبل اسلام بھی اہل عرب کی زبان تھی ،البتہ اس کا تعلق خطوں اور علاقوں سے ہوسکتا ہے ۔زمانہ قدیم میں جب کہ نقل و حمل اور آمدو رفت کے ذرائع محدود تھے اور ترسیل کا کوئی نظم نہ تھا ،ایک علاقہ کے لوگ ایک زبان بولتے تھے اور دوسرے علاقہ کے لوگ دوسری زبان بولتے تھے۔لیکن جب اللہ نے انسان کو تسخیر کائنات کی توفیق بخشی اور محیر العقول سائنسی ایجادات ظہور پذیر ہوئیں تو اختلاط و ارتباط نے ایک دوسرے کودیار غیر کی زبان او رتہذیب سے واقف کرایا ۔اسی کے باعث زبانوں کو قومی اور بین الاقوامی زبان کی حیثیت میں تسلیم کیا گیا ۔عربوں کو دنیا کے ایک بڑے علاقہ پر اقتدار نصیب ہوا تو عربی کو تفوق حاصل ہوا اور جب انگریزی سامراج نے دنیا کو اپنے نرغہ میں لیا تو انگلش بولنا وجہ توقیر سمجھا گیا ۔آج بھی یہی دونوں زبانیں انٹر نیشنل زبانیں سمجھی جاتی ہیں ۔میں یہ عرض کررہا تھا کہ زبان کا مذہب اور قوم کے بجائے علاقہ و ملک سے زیادہ گہرا رشتہ ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے اردو کے ساتھ یہ المیہ ہوا کہ غیروں کی سازشوں نے اسے برصغیر میں مسلمانوں کی زبان بنادیا ۔برٹش دور حکومت میں ان کی’ لڑائو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی نے اردو کو ہندوستان میں دشمن بھی عطا کردیے ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ اردو گو کہ صرف مسلمانوں کی زبان نہیں تھی اور نہ ہے ،نہ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے اس کے باوجود چونکہ مسلمانوں کا تاریخی اور ادبی ورثہ اسی زبان میں ہے اس لیے اس کی حفاظت مسلمانوں کے لیے ضروری ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت ہی اردو کی جائے پیدائش ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ موجودہ دور میں بھارت میں ہی اردوبدتر صورت حال کا شکار ہے ۔بھارت میں وہ ریاستیں جہاں اردو کا روشن ماضی گزرا ہے ۔مثال کے طور پر اترپردیش ،جہاں سب سے زیادہ اردو کی پرورش ہوئی ،دبستان لکھنو کو اردو زبان کی آبیاری میں ایک خاص مقام حاصل ہے ۔دہلی اگر چہ اِس وقت الگ ریاست ہے ،لیکن ثقافتی طور پر یوپی کے زیر اثر رہی ہے ،وہاں اردو کے سیکڑوں آفتاب و ماہتاب مدفون ہیں ۔دہلی کو بھی اردو کی تاریخ میں الگ اسکول تسلیم کیا گیا ہے ۔ان دونوں ریاستوں میں اردو بولنے والوں کی تعداد کا پچاس فیصد حصہ رہتا ہے ۔اس کے باوجود حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں اور ہماری ناعاقبت اندیشیوں کے باعث اردو جاں بلب ہے ۔اردو کی سب سے بہتر صورت حال مہاراشٹر میں ہے جہاں چھ سو سے زائد اردو میڈیم سرکاری اسکول ہیں ،کرناٹک کی صورت حال بھی یوپی کے مقابلہ بہتر ہے جہاں دوکانوں اور دفاتر کے بورڈ زپر اردو جگمگا رہی ہے ۔
اس وقت اردو کے تحفظ کی نوے فیصدذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہے ۔کسی حکومت اور سرکار سے انھیں کسی قسم کی توقع نہیں رکھنی چاہئے اور اردو کی حفاظت کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے کہ جس کے لیے میزائل اور توپ کی ضرورت ہو ۔اردو کی ضرورت و اہمیت کا احساس ،اچھی منصوبہ بندی ،جہد مسلسل اور عزم مصمم سے بآسانی کیا جاسکتا ہے ۔آپ میں سے ہر شخص یہ عہد کرلے کہ اسے اردو سیکھنا اور اپنے بچوں کو سیکھانا ہے ۔مسلم آبادیوں میں مساجد بھی ہیں اور مدارس بھی ،وہاں صبح و شام کلاسیز لگائی جاسکتی ہیں ۔لیکن ہم سوچتے ہیں کہ یہ مسجد کے امام کا فرض ہے کہ وہ اردو اسی مشاہرے میں پڑھائے جو اس کو امامت کے لیے دیا جارہا ہے ۔امام صاحب سوچتے ہیں کہ مجھے امامت کی تنخواہ ملتی ہے کسی کو اردو پڑھانے کی نہیں ،اگر دونوں ہی اپنی فکر میں ذرا سی مثبت اپروچ پیدا کرلیں تو اردو کا فائدہ ہوسکتا ہے ۔اردو سیکھنے والے بطور نذرانہ امام صاحب کوماہنانہ کچھ دیں اور امام صاحب ان کے نذرانہ کے مقابلہ زیادہ زیادہ سے پڑھائیں ۔اردو اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو اخلاص کے ساتھ اردو پڑھائیں ،اردو کی تدریس مشکل امر ہے ۔طلبہ بھی کم دل چسپی لیتے ہیں ،اس لیے اردو کے استاذ کو زیادہ محنت کرنا ہوتی ہے ۔عام طور پر سرکاری اسکولوں میں اردو کے اساتذہ سے دوسرے مضامین پڑھوائے جارہے ہیں ۔اساتذہ اپنے آفیسران کے دبائو میں احتجاج نہیں کرتے ،وہاں مسلم تنظیموں اور مسلم سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے کہ وقتا فوقتا سرکاری اسکولوں کا دورہ کریں اور اردو کی صورت حال کا خاص طور پر جائزہ لیں ۔اردو جاننے والے افراد اپنے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ ہمسایہ کے بچوں کو اردو سکھانے کی تگ و دو کریں ۔اپنے گلی محلوں کے نام ،اپنے گھروں کی تختیاں ،اپنی دوکانوں اور دفاتر کے بورڈز اردو میں آویزاں کریں ،تاکہ نئی نسل کو اردو کا تعارف ہو ۔ائمہ مساجد خطبات جمعہ کے ذریعہ ،ادباء و شعراء ادبی نشستوں میں اردو سیکھنے سکھانے کی جانب عوام و خواص کو متوجہ کریں ۔سوشل میڈیاپر اپنے پیغامات اردو میں ارسال کریں ۔اردو اخبارات و رسائل خریدے جائیں ،بچوں کے بھی کئی ماہنامے نکل رہے ہیں انھیں اپنے گھروں پر منگائیں اور اپنی نگرانی میں پڑھوائیں ۔صاحب ثروت افراد محلہ کے مدرسہ ،مسجد اور اردو جاننے والوں کے لیے اردو کی کتابیں خرید کر تقسیم کریں ۔ماہرین نفسیات کے مطابق مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔اس لیے اردو میڈیم اسکول قائم کیے جائیں ،سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں میں اردو مضمون کو شامل نصاب کرنے کی کوششیں کی جائیں ۔ہر بستی اور ہر محلہ میں ایک اچھی لائبریری ہونی چاہئے ۔مسجد میں بھی ایک الماری اس کے لیے مختص کی جاسکتی ہے ۔لائبریری میں ہر عمر کے اور ہر سطح کے افراد کے لیے کتابیں ہوں ،بچوں کے لیے کہانیاں اور نظموں پر مشتمل کتابیں رکھی جائیں ،طلبہ کے لیے ریفرینس کتب لائی جائیں ۔ حکومت نے اردو کی ترویج کے لیے اردو اکیڈمیاں قائم کر رکھی ہیں ،جو زیادہ تر غیر فعال ہیں ،انھیں فعال کرنے کے کوششیں کی جائیں ۔ اردو پڑھنے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔اچھے نمبر لانے والوں کو انعامات دیے جائیں ۔اس بات کی کوشش کی جائے کہ طلبہ اردو میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کریں ، اس طرح کے اور بھی بہت سے اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ یہ کام کون کرے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق ہر شہر میں اردو کے فروغ کے لیے انجمنیں قائم ہیں ،جہاں نہ ہوں وہاں قائم کی جائیں ،ان انجمنوں کے ذریعہ مندرجہ بالا تمام کام کیے جاسکتے ہیں ،اہل ثروت افراد ان انجمنوں کا مالی تعاون کریں ،عوام ان کے منصوبہ کو روبہ عمل لانے کے لیے آگے آئیں۔ہماری دینی و ملی تنظیمیں اپنے مقاصد اور پروگرام میں اردو کے فروغ کو بھی شامل کرلیں ۔حکومت کے سامنے رونے گڑگڑانے اور گلہ شکوہ کرنے کے بجائے ہمیں خود اردو کی ترویج و اشاعت کے لئے دامے درمے قدمے سخنے جد جہد کرنا چاہئے ۔اگر ہم ایسا کریں گے تو ہماری زبان بھی محفوظ رہے گی ،ہماری تہذیب بھی اور ہمارا علمی سرمایہ بھی ۔
Comments are closed.