ووٹ ڈالنے میں ہوشمندی کی ضرورت

عارف عزیز(بھوپال)
انتخابات میں ووٹ دینے کا مقصد کسی پارٹی یا امیدوار کو کامیاب بنانا ہوتا ہے جس کے لئے وعدے کئے جاتے ہیں انتخابی منشور تیار ہوتے ہیں اور مستقبل کے خواب دکھائے جاتے ہیں لیکن مدھیہ پردیش میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں صورت حال کافی کچھ بدلی ہوئی بلکہ پیچیدہ ہے کیونکہ ہر ووٹر بالخصو اقلیتی طبقہ کے ووٹروں کے سامنے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں کسے شکست دینا ہے۔ اس کے بارے میں جب وہ جائزہ لیں گے تو ان کا فیصلہ یہی ہوگا کہ موجودہ ماحول میں کھلی ہوئی دشمن اور اقلیتوں کو نقصان پہونچانے والی طاقتوں کو انہیں شکست سے ہمکنار کرانا چاہئے۔
ایسا فیصلہ کرنے والے ہر ووٹر کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ خود کو کسی خاص سیاسی پارٹی کے تابع نہ سمجھے بلکہ یہ سوچے اور سمجھے کہ صرف اسی امیدوار کو اپنا ووٹ دیگا جو فرقہ پرستوں کو ہرا سکتا ہے اور ایسا امیدوار کسی قومی جماعت کا نمائندہ ہی ہوسکتا ہے۔
مدھیہ پردیش اسمبلی کی مجموعی سیٹوں میں سے دس فیصد سے زیادہ ایسی ہیں جہاں اقلیتوں خاص طور پر مسلم ووٹوں کا غالب رجحان کامیابی وناکامی میں فیصلہ کن رول ادا کرسکتا ہے۔ مگر اندازہ یہ ہوا کہ ایسے حلقوں میں بھی اکثر فرقہ پرست عناصر کے امیدوار اقلیتی ووٹوں کے بکھرائو سے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ صورت حال اس مرتبہ رونما نہ ہو اس مقصد سے کافی ہوشمندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے کیونکہ جذبات کی رو میں بہہ کر کئے گئے فیصلے اکثر نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اترپردیش و گجرات، کی مثالیں زیادہ پرانی نہیں جہاں اقلیتی طبقہ کے ووٹوں کی تقسیم نے ایسی پارٹیوں کو برسراقتدار آنے کا موقع فراہم کیا جو ’’ہندوتوا‘‘ کا نعرہ لگاتی رہی ہیں اور سیکولرازم سے انہیں دشمنی ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ مذکورہ ریاستوں میں اقلیتی فرقوں کا جینا دوبھر ہوگیا ۔ وہاں کا نظام تعلیم بدلاگیا، وقفیہ آراضیوں پر فرقہ پرست تنظیموں کا قبضہ کرادیاگیا۔ دینی مدارس کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کرکے انہیں قوم دشمن سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا گیا ۔ وندے ماترم اور سرسوتی وندنا کے پاٹھ کو تعلیم اداروں کے لئے ضروری کیاگیاہے اور سب سے بڑھ کر یہ رات دن کے فسادات نے وہاں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ۔ یہ صورتحال ہماری ریاست مدھیہ پردیش میں پیدا نہ ہو اس کی فکر ضروری ہے اور اس بات کی بھی کہ ووٹ ایسے امیدوار کو دیئے جائیں جس کے جیتنے کا امکان ہو۔
اب ووٹ ڈالنے کا وقت قریب آرہا ہے تین چار دن باقی بچے ہیں لہذا ہر ذمہ دار شہری کو نہ صرف اپنا بلکہ اپنے شہر اور ریاست کا بھلا دیکھنا چاہئے وہ خودفیصلہ کرکے اور اپنی ڈیوٹی سمجھ کر سادہ لوح یا سیاسی نشیب وفراز کا صحیح ادراک نہ رکھنے والوں کو مشور ہ دے کہ ان کا ووٹ کامیاب ہونے والے سیکولر امیدوار اور جماعت کو ملنا چاہئے۔
آج ہمارے ملک کا مستقبل ایک اہم موڑ پر ہے بے یقینی کا گردوغبار چھایا ہوا ہے۔ انتہا پسند اور تعصب کی شکار جماعتیں ہماری رنگا رنگ تہذیب کو مٹادینے کے درپے ہیں، الیکشن کی وجہ سے ان کی آواز دھیمی ضرور پڑگئی ہے مگر ان کے ارادے بدلے نہیں ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی وہ پوری ریاست کو اپنے رنگ میں رنگنے کا حوصلہ لئے ہوئے اپنی کامیابی کی دعویدار ہیں۔ ان کی مدافعت اپنے ووٹ سے ہی کی جاسکتی ہے٭

Comments are closed.