اے آئی(آرٹیفیشیل انٹیلی جینس) کا فتنہ

مولانامحسن علی
صدرجمعیۃ علماء گوونڈی
انسان کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ انسان میں روح پھونکی گئی ہے جب کہ دوسرے جانداروں میں نفس محض ہے، روح کیا ہے؟ یہ سوال پہلے بھی پوچھا گیا ہے جس کا جواب دیا گیا کہ یہ اللہ کا امر ہے اور تمیں اس بابت بھت کم علم دیا گیا ہے، معلوم یہ ہوا کہ پوری طرح اسکو سمجھنا ناممکن ہے جب کہ جانوروں میں دیکھا گیا کہ سرکس سے لے کر لڑائی کے میدان تک انکی تربیت سے ان کا استعمال آسان ہوگیا، یہ تربیت ایک طرح کا امر ہے جو کسی حد تک ان میں قبولیتِ حکم کی استعداد پیدا کرتا ہے اور وہ اپنی بہیمیت سے اوپر اٹھ جاتے ہیں، اسلئے ان سے حاصل کیا گیا شکار حلال ہوتا ہے اور اس طرح کے کاموں کے مقصد سے انہیں پالنا بھی جائز ہے، اب آتے ہیں اصل مدعی پر کہ جب انسان ٹیکنالوجی سے مصنوعی عقل تیار کر رہا ہے تو اس کے عواقب کیا ہونگے؟ دراصل یہ کام اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب ایک آئی سی کا استعمال مشین میں کیا گیا تھا، گویا وہ ایک طرح کا حافظہ اور محدود اختیار تھا جس سے مفوضہ کام میں مدد ملتی تھی، اس کے بعد آٹومیٹک کا چلن عام ہوگیا جس میں آئی سی کی قوت بڑھتی چلی گئی، ہمارے کیمرے کے فلٹرز سے لے کر ڈرائیور لیس گاڑیوں تک میں اسی کا حکم چلتا ہے، اب یہ اسکو انسانوں جتنا ذہین بنانا چاہتے ہیں جو انکی عیاشیوں اور خونریزیوں میں مدد کرسکے، اس سے وہ اخلاقی مجرم بھی نہیں بنے گے اور نا ہی انسانوں جتنا خرچ آئے گا، شاید انہیں پتہ نہیں کہ انسان ہی اس دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے ایک کے اندر کی کمی ہی دوسرے کو مکمل بناتی ہے، جیسے مرد اور عورت کا ملاپ سے گھر وجود میں آتا ہے اسی طرح کمزور اور طاقتور کا وجود معاشرے کو قائم رکھتا ہے۔ اب اے آئی سے کمزور کو ختم کرنے کا پروگرام یقیناً بھت بڑا فتنہ ہے جو کسی زمانے میں رسوائی کے ڈر سے بچیوں کو زندہ دفنانا اور بھوک کے خوف سے بچوں کے قتل کرنے سے شروع ہوا تھا، خیر آپ کے اسمارٹ فون سے لے کر گلی محلوں میں لگے کیمروں تک ہر ایک آپ کو ایک کسٹمز یا چور کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، اگر آپ انکے معیار پر پورے نہیں اترتے تو یہ آپ کو اپنے ملک میں داخل ہونے نہیں دینگے اور اپنے ملک میں بھی اونچی سوسائٹی میں گھر نہیں لے سکتے، یہ سب ڈاٹا کی وجہ سے ممکن ہوا ہے اب مشین ہی ریجکٹ کر دے گی اور جب چاہے اکاؤنٹ کو فریز کیا جا سکتا ہے، ایک بار انٹرپول ریڈ کونر نوٹس جاری کر دے اے آئ کہیں سے بھی ڈھونڈ کر نکال لائے گی، مگر اللہ کہتا ہے انھم یکیدون کیدا و اکید کیدا یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے بلکہ بشارت ہے اور وعدہ ہے’’ وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ !
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
قسط اول لکھنے پر جس کے دوسرے کی امید کم ہی تھی ایک مہربان نے پوچھ لیا آپ کی تعریف؟ کہ اے آئی کا تعارف کرا رہے ہو
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
تو صاحبو ہم راہِ نورد شوق ہے منزل قبول نہیں کرتے بس سیر و تفریح کرتے ہوئے عبرت کی نشانیاں دیکھتے ہیں اور جو محسوس کرتے ہیں لکھ مارتے ہیں، چونکہ یہ عام آدمی کی سوچ ہی کہ جو اسے چننے اور رائے ظاہر کرنے کے قابل بناتی ہے اور خاص آدمی یعنی کسی فن کا متخصص شاید دوسروں کے جذبات اور واردات سے اس قدر واقف نہیں ہوتا جیسے نوٹ بندی کا سیاسی فیصلہ عوام کے لئے بھت تکلیف دہ تھا، ضروری نہیں کہ کسی نتیجہ پر پہنچ کر کوئی رائے ظاہر کی جائے اور وہ حتمی ہی ہو جیسا کہ علماء کا رجوع کرنا اور سیاست دانوں کا یوٹرن مشہور ہے کئی دفعہ عموم بلوی صحیح فتویٰ کو بے اثر کر دیتا ہے، خیر اے آئی سے زیادہ مسئلہ ہمیں مشینوں سے ہے کہ وہ ایک جیسا ہی مال نکالتی ہے ہاں کچے میٹریل کو خراب تو کر سکتی ہے اچھا نہیں کر سکتی، ایک جیسا مال نکالنے میں کیا خرابی ہے؟ یہ دراصل بوریت اور اکتاہٹ کا سبب ہے اور آخر کار ڈیپریشن تک پہنچاتی ہے اسی لئے سیرِ عالم کا حکم دیا گیا ہے، اس سے پہلے اس اجمال سے آپ لوگ خود اکتا جائے مختصراً یہ سمجھ لیجئے اصل جمال اجمال میں ہی ہے جو ہر ایک میں مختلف اور پوشیدہ ہوتا ہے جدید اصطلاح میں آرٹ کی تعلیم سمجھ لیجئے جس کے متبادل کے طور پر اے آئی لایا گیا ہے، جبکہ مشین کی وجہ سے پورے عالم میں یکسانیت لائی جاتی ہے نیو ورلڈ آرڈر کہ لیجیے اور جو کمزور اپنے فن اور کلچر کا دفاع نہیں کر سکتا وہ میوزیم کی زینت بن جاتا ہے، مشین کی وجہ سے جو ارزانی آئے گی وہ دستکاروں کی مصنوعات کو جس پر نسلوں کا خونِ جگر لگا ہے یک لخت بے قیمت کر دے گی کچھ کی روزی روٹی گئی تب بھی کوئی مسئلہ نہیں، مگر یہ خلافتِ خداوندی جو سیدنا داؤد کو آواز اور صنعت کی صورت دی گئی اس کا وارث اب سیلمان نہیں بلکہ ایک لوہے اور پلاسٹک کا ٹکڑا ہے بجائے انبیاء کرام کے تعلیمات کہ جس پر برکتوں کے وعدے ہیں ٹیکنالوجی کے بچھڑے کی مانگ بڑھ گئی ہے، اور نتیجہ دیکھ لیجیے جتنی اس کی پوجا بڑھے گی اتنا ظلم اور قتل عام ہوگا ان الشرک لظلم عظیم اور انسان بے قیمت ہوتا جائے گا توحید ہی انسان کو سپریم بناتی ہے اسلئے کہ وہیں خلیفہ ہے!
ہرلحظہ ہے مومن کي نئي شان، نئي آن
گفتار ميں، کردار ميں، اللہ کي برہان!
خودکار مشین جدید زمانے کا کتا ہے اگر کتے کو شکار اور گلہ بانی کی تربیت دی جائے تو اس سے شکار کرنا حلال ہے اور اسکی کفالت کی بھی گنجائش ہے، کتا ایسا جانور ہے جس میں مزاج شناسی کی صلاحیت حد درجہ ہے بہادر بھی ہے اور وفادار بھی یہی وجہ ہے کہ انسانی دل میں اس کے لئے نرم گوشہ ہے، ان خوبیوں کے باوجود اسکے منہ کی رال سے سخت پرہیز کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے گھر میں گھسنے پر فرشتے دور ہو جاتے ہیں جبکہ پاگل کتے کے کاٹنے سےریبیز جیسی مہلک بیماری چند دن کا مہمان بنا دیتی ہے، مغرب میں اس کے لئے احتیاطی ٹیکے لگوائے جاتے ہیں ان پر وقت اور جائیداد ہی نہیں لٹائی جاتی بلکہ اسے رشتوں کا متبادل بنا لیا ہے، یعنی انسانوں سے زیادہ دوسروں کو اہمیت دینا یہی وہ نقطہ تھا جس کے لئے اتنی لمبی تمہید باندھی گئی کہ اے آئ در اصل ہر اس مخلوق کا متبادل ہے جس کے کام یہ کرسکتا ہے، اب نگاہ ڈالیں کہ کونسا ایسا شعبہ ہے جس میں خودکار مشین کی آمد سے غریب کی چھٹی نہیں ہوگی گویا اسکی چھوٹی موٹی کمائی پر ڈاکا ڈالا گیا ہے، غریبوں کو پیراسائٹ اور سلم ڈاگ کہا جاتا ہے جھوپڑی پٹی گندی نالی اور مافیا کے ہاتھوں غلیظ زبانوں سے ذلیل ہونا انکا مقدر ہے پھر سرکاری بلڈوزر کا ہر دم کھٹکا الگ سے لگا رہتا ہے، درمیانی طبقہ ترقی کا ایک زینہ چڑھتا نہیں کہ دو درجے نیچے اتر آتا ہے پھر ایسے ماحول میں اخلاقی حالت اور تعلیمی لیاقت کیا ہوگی گویا ایک طرح اچھوت بن جاتے ہیں، ایسے میں ڈیزائنڈ اور اسمارٹ مشین کو متبادل بنا کر مارکیٹ میں اتارا گیا جس کی قیمت غریب کی مزدوری سے بھی کم ہے اور کام کی کوالٹی بھی اس حساب سے بہتر ہے، مگر انسانوں کو بندروں کا وارث بتانے والے بھول گئے له الخلق و له الامر اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق اور اسکی روح ان سے کہیں زیادہ ایڈوانس اور سخت جان ہے!
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
Comments are closed.