Baseerat Online News Portal

کم تر برائی کا انتخاب

فقیہ العصرحضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
صدرآل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسلام کی حفاظت کے لئے طاقت بھر کوشش اور تیاری کا حکم دیا ہے : ’’ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ‘‘ (الانفال : ۶۰) قوت لفظ ایک جامع لفظ ہے ، جس میں وہ تمام طاقتیں شامل ہیں ، جو نتائج اور فیصلوں پر اثرانداز ہو سکیں ، یہ طاقت فوج کی بھی ہوسکتی ہے ، افرادی قوت اور تعداد کی بھی اور علم و دانش کی بھی ، جو ممالک جمہوری طرزِ حکومت کے حامل ہیں ، ان کے یہاں ووٹ بھی ایک بڑی طاقت ہے ، ووٹ کے ذریعہ بامِ اقتدار پر چڑھا جاسکتا ہے اور ووٹ کی تلوار سے انسان کو بے پناہ بلندیوں سے اتھاہ پستیوں تک گرایا جاسکتا ہے ، اس لئے ووٹ بھی ایک طاقت ہے ، ایک نعمت ہے اور ایک مؤثر ہتھیار ہے ۔
اس لئے ووٹ کے سلسلہ میں دو پہلوؤں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے : ایک یہ کہ موجودہ حالات میں بحیثیت ِمسلمان ہمارے لئے ووٹ دینا ایک مذہبی فریضہ کے درجہ میںہے اورووٹ نہ دینا اسی درجہ کوتاہی کا ارتکاب ہے ؛ کیوں کہ ووٹ ایک گواہی ہے اور جب حق کو حاصل کرنے اور ظلم کو روکنے کے لئے گواہی دینی ضروری ہو جائے،اس وقت ملک میں مسلمان جس صورتِ حال سے دوچار ہیں ،اس سے پہلو تہی برتنا کسی طرح رَوا نہیں ؛ بلکہ قرآن مجید کی زبان میں یہ کتمانِ شہادت ہے ، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ۔ (البقرۃ : ۲۸۳)
جھوٹ بولنا ، دھوکہ دینا اور تلبیس سے کام لینا عام حالات میں بھی گناہ ہے ؛ لیکن گواہی میں دھوکہ دہی عام جھوٹ اور دھوکہ کے مقابلہ زیادہ بڑا گناہ ہے ، اس کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے ، دوسرے کے نام پر ووٹ دینا ، مکرر ووٹ دینا ، صرف غیر قانونی کام ہی نہیں ہے؛ بلکہ ایک غیرشرعی فعل بھی ہے ، اور اس کے لئے بھی انسان عند اللہ جواب دہ ہوگا ، اس لئے کہ اسلام ہرحال میں اخلاقی اقدار کو قائم رکھنے کی تعلیم دیتا ہے ، خواہ لوگوں کے ساتھ معاملت ہو ، سماجی زندگی ہو ، یا سیاست کا میدان ، یہاں تک کہ معرکۂ جنگ ۔
جمہوریت میں جہاں بہت ساری خوبیاں ہیں ، وہیں بعض خامیاں بھی ہیں ، اسلام ان خامیوں کی اصلاح کے ساتھ اس کو قبول کرتا ہے ، سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انتخاب میں حصہ لینے اور عوامی نمائندہ منتخب ہونے کے لئے نہ علم و دانش کی شرط ہے ، نہ اخلاق و دیانت کی ضرورت ، پہلے لوگ اس کا رونا روتے تھے کہ جاہل اور کم تعلیم یافتہ افراد منتخب ہوجایا کرتے ہیں اور ملک کے حساس مسائل کا فیصلہ زیادہ تر ناکندہ تراش افراد کے حوالہ ہوتا ہے ، ہمارے ملک میں بعض ایسے ارکانِ مقننہ بھی تھے اور ہیں، جو دستخط کی صلاحیت سے بھی بے نیاز ہیں اور نشانِ ابہام ہی سے کام چلاتے ہیں ، اب بات اس سے بھی آگے جاچکی ہے اور بڑی تعداد میں ایسے عناصر مجالس قانون ساز میں پہنچ رہے ہیں جو نامزد اور نامور مجرم ہیں ، ان پر قتل ، زنا ، غصب اور رہزنی کے علانیہ جرائم درج ہیں ، پہلے پولیس گرفتار کرنے کے لئے ان کا پیچھا کرتی تھی ، اب ان کی حفاظت اور سلامتی کے لئے ان کے پیچھے پیچھے رہتی ہے ، کرپشن اور سیاست کا اب چولی دامن کا رشتہ ہے ، اور اب کسی بھی لیڈر کے بارے میں اسکام کی خبریں سن کر عام شہری کو کوئی حیرت نہیں ہوتی ؛ کیوں کہ یہ اب ایک معمول کی بات ہے ۔
جو لوگ الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں ، ان میں شاید ایک فیصد بھی ایسے نہیں جو حقیقت میں ایماندار کہلانے کے لائق ہیں ، جن کی زندگی پاک و صاف ہو اور عوام کی املاک میں خرد برد کرنے کا عزم لے کر اس میدان میں نہ اُترے ہوں ، ڈاکٹر راجندر پرشاد بارہ سال ہندوستان کے صدر رہے اور جب سبکدوش ہو کر اپنے وطن پٹنہ گئے تو ان کو رہنے کے لئے کوئی مکان بھی میسر نہیں تھا ، جواہر لال نہرو دار المصنفین اعظم گڈھ کے رکن تھے ، اس وقت فیس رکنیت پانچ سو روپئے تھی ، جب مولانا مسعود علی ندوی نہروجی سے ممبری فیس لینے گئے ، تو ان کے پاس پانچ سو روپئے بھی مکمل نہ ہو سکے اور دو قسطوں میں فیس ادا کی اور اپنی پاس بک دکھائی ، جس میں دو ڈھائی سو روپئے سے زیادہ نہ تھے ؛ لیکن آج معمولی عوامی نمائندوں کے محلات پر قصر شاہی اورگھر کی زیبائش پر ’’ جنت ِشداد ‘‘ ہونے کا گمان ہوتا ہے اور پولیس چھاپہ مارتی ہے تو مَنوں سونےکےاورروپیوں کے انبار ان کے مکان سے بر آمد ہوتے ہیں ۔
ضروری ہے کہ آپ جب کسی اُمیدوار کے حق میں ووٹ دیں تو آپ اس بات کی گواہی دے سکیں کہ تمام اُمیدواروں میں یہی شخص آپ کے نزدیک اپنی دیانت و امانت ، جذبۂ خدمت اور نمائندگی کی صلاحیت میں نسبتاً بہتر اور قوم و ملک کے لئے مفید ہے ، کسی شخص کے بارے میں آپ کو اطمینان نہ ہو ، آپ کے علم میں ہو کہ یہ کرپٹ اور رشوت خورہے او ر قوم کی خدمت کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان کی خدمت ہی اس کا مقصود ہے ، اس کے باوجود آپ اسے ووٹ دیں ، یالوگوں کو اس کی ترغیب دیں ، تو اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ اس بارے میں جواب دہ ہوں گے ، اور جھوٹی گواہی دینے کا گناہ ہوگا ، یوں تو ہر جھوٹ برائی ہے ؛ لیکن جھوٹی گواہی کا گناہ ، گناہ کی تمام صورتوں سے بڑھ کر ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اسے بہت بڑے گناہوں میں سے ایک شمار فرمایا ہے ۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:2654،صحیح مسلم ،حدیث نمبر:87)
ووٹ میں اُمیدوار کی صلاحیت اور کردار کے بجائے محض اس بات کو معیار بنانا کہ یہ ہمارے محلہ کا ہے ، ہمارے اس شخص سے تعلقات ہیں ، اس نے ہمارا فلاں ذاتی کام کر دیا تھا ، یہ ووٹ دینے کے لئے ہمیں پیسہ دے رہا ہے ، درست نہیں ہے ، یہ خیانت اور جھوٹی گواہی ہے اور یہ پیسے رشوت ہیں ، ہر شخص اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ ہے ، ایسا شخص ایک دو نہیں ؛ بلکہ پوری قوم کے ساتھ بد خواہی کا مرتکب ہورہاہے ، اس لئے ووٹ کے بارے میں خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے ، تمام اُمیدواروں پر غور کرنا چاہیے ، اس کی گذشتہ زندگی اور عام لوگوں کے ساتھ اس کے سلوک اور رویہ کا بھی جائزہ لینا چاہیے ، اور پھر جس اُمیدوار کو بہتر اور مفید تصور کرتا ہے ، اس کے حق میں ووٹ دینا چاہیے ، ووٹر کے لئے یہی اصل کامیابی ہےکہ جس کے حق میں اس نے ووٹ کا استعمال کیا ہے،وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار تھا، اگر وہ ہار گیا ، تب بھی ’’ووٹ ‘‘ دینے والا اپنے مذہبی فریضہ اور قومی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں خیانت کا مرتکب تصور نہ کیا جائے گا ، اور اگر ایسے اُمیدوار کو ووٹ دیا جائے، جو قوم کے لئے مفید نہیں ، مضر ہے ، تو گو اُمیدوار جیت جائے ، پھر بھی ایک مسلمان ووٹر کے لئے یہ ہار ہی ہے ؛ کیوں کہ وہ اپنے اس غلط عمل کے بارے میںعند اللہ جواب دہ ہے اور خدا کی ترازو میں اس کا یہ عمل قابل مواخذہ ہے ۔
موجودہ حالات میں ایسے امیدوار کو تلاش کرنا جو دیانت اور صدق وراستی کے معیار کومکمل طورپر پوراکرتاہو، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ایسے مواقع پر شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر دوبرائیوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے سوا چارہ نہ ہو تو کم تردرجہ کی برائی کا انتخاب کیاجائے،فقہاء نے بے شمار احکام کی بنیاد اسی اصول پر رکھی ہے، اورآج کے حالات میں اس اصول کو اختیار کیے بغیر چارہ نہیں ۔
ہندوستان ایک کثیر مذہبی اورکثیر تہذیبی ملک ہے، اس ملک کی آزادی میں تمام طبقات کا حصہ رہاہے، اس کیلئے سبھوں نے قربانیاں دی ہیں،اورسب کے خون جگر سے مل کر اس سرزمین نےترقی کا سفر طے کیاہے، ملک کے دستور میں بھی اس کا لحاظ رکھا گیا ہے ، مساوات ،بھائی چارہ اورتہذیبی رنگارنگی ہمارے دستور کی روح ہیں،ایک مذہب یا ایک تہذیب کی بالادستی دستور کی روح اوراس ملک کے معماروں کے خواب کے برعکس ہے، مگر افسوس کہ اس وقت بعض قوتیں دستور کی روح کے خلاف کام کررہی ہیں، اورانہوں نے نفرت کو اپنا ایجنڈہ بنالیاہے، اکثریت،اقلیت، ہندومسلمان، ہندوسکھ،ہندو کرسچین، مسجد مندر اورمندرچرچ وغیرہ کے نام سے وہ الیکشن کے میدان میں اترتے ہیں اوراپنی نااہلی کو چھپانے کیلئے فرقہ وارانہ جذبات کو ابھارکر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں،ایسے عناصر سے بچنے کی ضرورت ہے، اس لیے ہمیں کم تر برائی کو اختیار کرناچاہئے، اگرایک امیدوار نے اپنا فرقہ پرستانہ نقطۂ نظر واضح کررکھاہے، اوراسی کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ مانگ رہاہے،خواہ یہ خود ا س کی رائے ہو، یاجس پارٹی نے اس کو امیدوار بنایاہے، اس کامنشور ہو توایسے امیدوار کو ہرگز ووٹ نہیں دیناچاہئے، یہ ملک اور قوم کے ساتھ بے وفائی ہے،اس کے مقابلہ ایسے امیدوار کوووٹ دیاجاناچاہئے جوکم سے کم اپنے منشور کے اعتبار سے ملک کے دستور سے وفاداری کا اظہار کرتاہواورملک کے تمام شہریوں کے ساتھ برابری اور انصاف کی بات کہتاہو ،موجودہ حالت حالات میں اس کالحاظ رکھنابے حد ضروری ہے۔(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.